قسط ششم
ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
8825051001
بندہ جوں جوں اپنی عمر کی سیڑھیاں چڑھتا جاتاہے اس کی زندگی میں کچھ واقعات وحوادث بھی پیش آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو تکلیف دہ ہوتے ہیں اور کچھ خوش کن۔
ایسے نشیب وفراز ہر کسی کی زندگی میں کبھی نہ کبھی پیش آتے ہیں۔
جن میں سے کچھ واقعات وحوادث لاکھ کوشش کے بھی بھلائے نہیں جاسکتے اورکچھ ذہن میں ایسے نقش ڈالتے ہیں کہ ان کاذکر بار بار کرنے کو جی کرتاہے ۔ ایسا کرنے سے دل خوش ہوجاتاہے اورسکون حاصل ہوتاہے ۔
وہیں ایسے بھی کچھ حوادث ہوتے ہیں جو نہایت تکلیف دہ ہوتے ہیں اوران کا بے خیالی اور بے ارادہ سوچنااوردماغ میں لانا بہت تکلیف دیتا ہے اوردل پژمردہ ہوجاتاہے۔
بہر حال ان باتوں کاذکر اپنے ساتھیوں ،ہمدردوں سے ضرور کرنا چاہتا ہوں۔
میری زندگی زیادہ تر پریشانیوں اور غلط فہمیوں کا امتزاج رہی ہے ۔ کچھ میری ترش مزاجی اور کچھ میری صاف گوئی کی وجہ سے
بہت بار میرا نظریہ اور ارادہ صحیح ہونے کے باوجود غلط سمجھا جاتا رہاکیونکہ میں شائد اپنانقطہ نظر اچھی طرح سمجھانہ سکا۔
میری طبیعت کچھ اس طرح کی ہے کہ میں اپنے کام سے کام رکھتاہوں۔ نام نہاد کھڑپنجوں کو گھاس نہیں ڈالتا تھا۔ مجھے اپنی قابلیت ،ایمانداری ، خداترسی صاف گوئی اور انسان دوستی پر اللہ کے فضل سے نازتھا۔
رزق ، عزت اور باقی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھی ہیں۔ اس لئے میں نے کچھ لوگوں کی ناراضگی کی پرواہ نہ کی ،حالانکہ میں نے ان کو ہربات واضح کرکے سمجھانے کی بہت کوشش کی ۔مگران کا ایک ہی مقصد ہوتاتھا کہ اس شخص کو کسی طرح اپنے طابع ہونے پرمجبور کیا جائے ۔
اوپر کا حدیث مجھے کسی کے آگے جھکنے نہیں دیتا تھا نہ تب اور نہ اب ۔
میںنے اپنی ان یادوں کو اپنے سینے میں ہمیشہ محفوظ رکھا ہے اور اکثر بارگردن جھکاکر ان کھٹی میٹھی یادوں کو یاد کرکے کبھی ہنستا ہوں اورکبھی روتا ہوں۔ کسی شاعر نے جیسے میری ترجمانی کرکے یہ شعر لکھے ہیں:
حرفِ غلط نہ تھا مجھے سمجھا گیا غلط
لکھا گیا غلط، کبھی بولا گیا غلط
میں بھی غلط نہ تھا میری باتیں غلط نہ تھیں
مجھ میں نہیں تھے عیب کسٹوی میں عیب تھے
میرا تھا یہ قصور کہ پرکھا گیا غلط
اچانک دل نے چاہا کہ آج اتوار ہے دفتر بھی نہیں جاناہے ۔ کیوں نہ باہر لان میں دو کرسیاں لگاکر ادرک کی چائے پئیں پھر یہاں پر ہی ظہرانہ بھی کھائیں گے ۔ میں ابھی اہلیہ کو اپنی یہ خواہش بتانے ہی والاتھاکہ اُس نے ادھر سے بھی یہی بات بولی کہ اس کا بھی ادرک کی چائے سے شروع کرکے لان میں وہیں پرلنچ کر نے کو دل چاہ رہاہے۔ہمارے من سے یک بارگی میں ایک ہی بات نکل اس پر ہم کھلکھلا کرہنسے ۔
انسان کو معلوم نہیں ہوتاہے کہ کب وہ کیا بات اللہ سے مانگے اور وہ بات کب اللہ منظور کرے۔
اس لئے انسان کو اللہ سے دعامانگتے رہنا چاہئے اور کبھی بھی ناامید نہیں ہوناچاہئے ۔
بات آئی گئی
اسی طرح کچھ مہینوں بعد میرے دل میں بغیر کسی وجہ کے خیال آیا کہ کاش کسی دن صبیحہ سے اچانک ملاقات ہوتی تو کتنا مزدہ آتا۔ پرانی یادیں تازہ ہوتیں۔
صبیحہ میری ہم جماعت تھی۔ وہ بہت دل کش اور جاذب نظر شکل وصورت کی مالکہ تھی۔ خوش اخلاق اور خوش لحن تھی۔ صاف ستھری عادات کی مالکہ تھی۔ گھنٹوں اس کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے بعد بھی مجھے اکتاہٹ نہیں ہوتی تھی۔ دل کرتاتھاکہ وہ اور گھنٹوں بولتی رہے ۔ مجھے بڑا لطف اور سکون ملتا تھا۔
ہم دونوں کالج سے یونیورسٹی تعلیم میں اکٹھے رہے ۔ اکٹھے اپنے گھروں کو جاتے کنٹین ، لائبریری میں اکٹھے پڑھتے۔ ایک دوسرے کو کتابیں اور نوٹس ادلا بدلی کرتے۔
یونیورسٹی سے فارغ ہونے سے قبل ایک دوسرے کے ساتھ شادی کے عہد وپیمان کئے ۔
ہم دونوں خوشی خوشی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹے ۔
فیصلہ یہ ہوا تھا کہ نتیجہ کے اعلان کے بعد دونوں اپنے اپنے والدین کو اس شادی کے فیصلے سے آگاہ کریں گے اور ان کو ہمارے اس فیصلہ پر ہاں کہنے کے لئے مطمئن کریں گے ۔
شادی کے بندھن میں بندھ جانے کا پورا پورا یقین تھا۔ پھر دونوں اطراف کچھ ایسے حادثات رونما ہوئے کہ شادی کا معاملہ ٹھنڈا پڑتے پڑتے گہری کھائی میں دفن ہوگیا ۔
بات آئی گئی۔
صبیحہ کی کسی اور جگہ شادی ہوگئی اور میری ایک دوسری جگہ ہوئی۔
صبیحہ خوش ہے یانہیں کچھ کہانہیں جاسکتاکیونکہ کبھی ملاقات ہی نہ ہوئی ۔نہ خط وکتابت سے اورنہ کبھی فون پر بات ہوئی۔
میں اپنی شادی سے بہت خوش ہوں میری اہلیہ بہت خوب صورت ہے ۔ بہت پرکشش ہے ۔ میرے والدین کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتی ہے۔ بچوں کو اچھی تربیت دیتی ہے۔ وہ محکمہ تعلیم میں لیکچرر رہی ہے ۔ وہاں اس کے Colleages اور طالبات اس کی بہت عزت کرتے تھے ۔ وہ جس جس کالج میں تعینات رہی وہاں کا سٹاف اس کی قسم نہیں کھاتے ہے ۔
مختصر مجھے اس کی طرف سے کوئی شکایت نہیں وہ میرا ہر طرح خیال رکھتی ہے۔ اللہ اس کو صحت کاملہ اور ایمان دے ۔ آمین۔
خیر اللہ نے میری یہ دعا بھی ادرک کی چائے کی طرح سن لی
ہوا یوں کہ اس دن بھی اتوار تھا۔گھر کاکام کرنے والا لڑکا بازارسے کچھ سودا سلف لانے گیا تھا ۔
اچانک گیٹ پر بیل بجی۔ میں تیزتیز قدموں سے گیٹ کھولنے کے لئے نکلا ۔
میں ایک لمحہ کے لئے سکتے میں چلاگیا۔ اپنے آپ کو جھنجھوا اور سنبھالا۔ یکدم صبیحہ کی شکل یاد آئی۔ یہ صبیحہ ہی تھی ۔ اری آپ ! میں نے حیران ہوکر کہا۔
میرا منہ کیندھے کے منہ کی طرح کھلے کا کھلا رہ گیا ۔
وہ قریباً۴۰ سال بعد ملی۔
ہر چیز بدلی بدلی تھی۔ سر کے بال سفید ہوچکے تھے ۔ آگے کے دو دانت گر چکے تھے ۔ کمر تھوڑی بہت خم آلودہ تھی۔ چال بھی بہت زیادہ بدل چکی تھی۔
اتنی تبدیلیوں کے باوجود میں اس کو ایک لمحہ کے بعد پہچان گیا ۔
خوش آمدید۔Welcome میڈم میری خوش بختی
کون ہے؟
اندر بلاؤ
ہاجرہ نے ہماری مختصرسی گفتگو سن کر بولا
آئیے اندر
میری اہلیہ کا نام ہاجرہ ہے۔
نہیں ۔ مجھے جلدی ہے ۔ صبیحہ بولی
یہ چاند اس طرف کیسے نکلا؟ میں نے پوچھا
دراصل میرے بیٹے ارمغان کی شادی ہے اوراس کالونی میں میری سہیلی رہتی ہے۔ میں ان کو خود ہی دعوتی کارڈ دینے کے لئے نکلی۔ کیونکہ ان سے ملاقات کئے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا تھا۔
اس سے ادھر ادھر کی گپ شپ کے بعد معلوم ہوا کہ آپ بھی اسی کالونی میں رہتے ہیں ۔ سوچا آپ سے مل کر پرانے زخم کو ایک بار چھیڑ کرتازہ کروں۔
میں نے تین چار خالی کارڈ ساتھ رکھے تھے کہ اگر کوئی واقف کار اچانک راستہ میں مل جائے تو وہیں ان کا نام لکھ کران کو دے دو ں۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ سے یوں ملاقات ہوگی۔
آپ کا یہاں کا پتہ ملا تو آپ کا نام لکھ کر آپ کو خود دینے چلی آئی
بہت اچھا کیا آپ کا بہت بہت شکریہ
میں نے صبیحہ کو کہا
میں نے ہاجرہ اور صبیحہ کا تعارف ایک دوسرے سے کرایا۔ یہ صبیحہ ہے ۔ میری کالج اور یونیورسٹی کی ہم جماعت اور یہ میری اہلیہ ہاجرہ ہے ۔ جن کو میں اکثر کہتا ہوں ؎
تو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں
تجھے زمین پر اتارا گیاہے میرے لئے
آپ کی یہی باتیں اور شعر وشاعری آپ کو بھولنے نہیں دیتی۔ صبیحہ بولی
اچھا میں چلتی ہوں۔ صبیحہ نے کہا
نہیں بالکل نہیں۔ہاجرہ نے زور دے کر کہا
آپ پہلی بار آئی ہیں۔ ایسے کیسے جانے دوں ہاجرہ نے مزید کہا
کس کی شادی ہے ؟ہاجرہ نے پوچھا
بیٹھے ارمغان کی شادی ہے وہ حیدر آباد میں ایک MNCمیں اچھی پوسٹ پر ہے ۔
شہاب صاحب کی لڑکی ناہدہ سے شادی قرار پائی ہے۔ بہت اچھا خاندان ہے ۔ لڑکی بھی سلیقہ مند ہے انجینئر ہے۔
آپ خود اچھی ہیں۔ آپ کو اچھی ہی بہو ملے گی۔ اچھوں کو اچھے ہی نصیب سے ملتے ہیں۔ہاجرہ نے کہا۔
ہم دونوں کلاس فیلو تھے
مگر انہوں نے کبھی ذکر نہ کیا ! ہاجرہ نے بیچ میں کہاکیسے کرتے یہ کمینہ اور دھوکہ بازنکلاصبیحہ اندر ہی اندر بڑبڑائی۔
ہاجرہ ۔ یہ کلاس کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی آج تو اس کے کھنڈرات بن گئے ہیں ۔
میں نے کہا آپ بھی کون سے ہیرو ہو ۔ آپ بھی تو ان کے ہی نقش قدم پر چلتے ہو۔ہاجرہ بولی۔
میری اتنی بری حالت نہیں ہے ۔ میں نے ہنستے ہوئے مزاقاًکہا۔
جاؤگے ان کے بیٹے کی شادی میں
ہاجرہ نے پوچھا
مشکل ہے۔ مجھے اور ضروری کام ہیں۔
جاؤ ۔ پرانی یادیں تازہ کرو ۔ ہاجرہ نے پھر کہا
جب گیٹ پر آپ دونوں ایک دوسرے سے ملے ۔ دونوں کے رنگ لال سرخ ہوگئے تھے ۔ سانس پھولی ہوئی تھی۔ دونوں کی زبان لڑکھڑا رہی تھی میں سمجھ گئی تھی کہ ؎ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
ہاجرہ نے مجھ سے کہا
جب صبیحہ رخصت لیکر گیٹ سے باہر جا رہی تھی تو اس نے پوچھا کیسے گذررہی ہے؟
بہت اطمینان اور سکون سے میں نے جواب دیا
آپ سے ڈٹ کر پیار کیا تھا مگر کسی وجہ سے شادی نہ ہوسکی تھی۔
ہاجرہ سے شادی کے بعد ڈٹ کر پیارکیا
شادی سے پہلے ہم دونوں بالکل انجانے تھے
اور اب میرا بھی کچھ یہی حال ہے
شادی سے پہلے پیاررج کر کیا تھا آپ سے۔ مگر شادی نہ ہوسکی۔ پھر شادی اُن سے ہوئی اور مجبور اً پیار بھی کرنا پڑا رہا ہے ۔
خیر میں خوش ہوں
آپ کویاد ہے ہمارا یک اور کلاس فیلو تھا ۔ وہ پاسٹریFace ریڈینگ جانتا تھا۔ اس نے ایک دن مجھ سے کہا تھا تم دونوں ایک دوسرے سے کھل کر پیار محبت کروگے مگر شادی نہ ہوسکے گی۔
تم جتنا ملمع لگا کر کہو کہ تم خوش ہو مگرپہلا پیارکبھی بھولتا نہیں۔ آخر تک پچھتاؤ گے۔ مجھے یہ بات کئی بار یاد آئی صبیحہ بولی۔