قرطاس و قلم
مقصوداحمدضیائی
9682327107
رمضان المبارک کے روزے روحانی تربیت کا ایک خدائی نظام ہے ، رب کریم فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا اس وقت جب کہ یہ کالم مرتب ہو رہا ہے ، ماہ صیام کا پہلا عشرہ اختتام پذیر ہو چکا ہے ، اور دوسرا عشرہ آغاز پذیر ، پہلے عشرے کی طرح بقیہ ایام بھی گزر ہی جائیں گے ، یہ خدائے علیم و خبیر ہی جانتا ہے ، کہ آئندہ ماہ صیام مقدر ہو یا نہ ہو ، اس لیے رب اکرم کی خصوصی عنایت سے جس جس کو بھی اس عالم نا پا ئیدار میں ماہ صیام کے فیوض سے استفادہ کا موقع نصیب ہو ، وہ دل و جاں سے اس کی قدر کرے ، دراصل یہ مہینہ نیکیوں کا موسم بہا ر ہے ، جس میں حق تعالٰی ہر نوع کی نیکی کا اجر بڑھا دیتے ہیں ، بایں ہمہ ہر ایمان والا خدائے رحمن کی نوازشات اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے لیے پہلے سے زیادہ مستعد ہو جا تا ہے ، ماہ مقدس سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لیے اہم کام یہ ہے کہ ہر ایمان والا اپنی نیت کو خالص کر لے ، چوں کہ تمام اعمال کا دار و مدار نیت پر ہوتا ہے ، ماہ صیام کی عظمت کے احساس کے ساتھ ایسے کام کرنے کا مستحکم ارادہ ہو کہ جن سے اپنے اندر تقویٰ و پرہیزگاری پیدا ہو ، علمائ و صلحا سے خصوصی قرب ہو نیز اسلاف کی وہ کتابیں مطالعہ میں رہیں کہ جن سے ماہ صیام گزارنے کا پیغام ملے ، ماہ صیام میں قرآن پاک کی تلاوت بطور خاص خود بھی حرز جاں بنائیں ، اور دوسروں کو بھی پڑھنے اور عمل کی ترغیب دیں ، ماہ صیام ہر ایمان والے کو ہر سال احتساب و جائزہ کا اہم موقع فراہم کرتا ہے
افراد کے ہاتھوں میں ہے قوم کی تقدیر
معاشرے کے درستگی میں فرد کا اہم کردار رہا ہے اہل نظر کہتے ہیں کہ معاشرے کی درستگی سے قبل ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ معا شرے کا ہر فرد درست ہو ، دیکھا جائے تو ذاتی احتساب و جائزہ کے ذیل میں رمضان المبارک کی اہمیت محتاج بیان نہیں ، غیبت ، چغلی ، لعن طعن ، بد گمانی ،تکبر ، ظلم ، غصہ ، جھوٹ ، وعدہ خلافی ، بد نگا ہی ، حسد اور بغض وغیرہ یہ سب اخلاقی برائیاں ہیں ، اور ماہ صیام ان برائیوں کا علاج کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے ، اس موقع کو ضائع مت کیجیے ، تحریکی ، سماجی ، خاندانی ، اور گھریلو دائرے میں اپنے سابقہ رویوں کا خالصتاََ آخرت کے نقطہ نظر سے جا ئزہ لیا جائے ، نشان بندگی نماز ہے ، دین اسلام میں نماز کو ام الاعمال قرار دیا گیا ہے ، اور یہ تمام ادیان سماویہ میں رہی ہے ، پیغمبر اسلام صلعم کی اوائل عمر میں دو نمازیں تھیں ظہر اور عصر چنانچہ ہجرت سے دو سال قبل جب خدائے تعالٰی نے آپ کو اسراء و معراج کرایا تو پانچ نمازوں کا جو موجودہ شیڈول ہے وہ عطا کر دیا گیا ، بہرحال قرآن مقدس میں بار بار نماز کے قائم کرنے کا حکم ہے ، لہذا ہر ایمان والے کا فریضہ ہے کہ وہ نماز کے تما م حقوق اد ا کرے ، اذان کے بعد سب کام کاج چھوڑ کر مسجد پہنچے اور تکبیر تحریمہ کے ساتھ صف اول میں نماز ادا کرنے کی کوشش کرے ، حضرت عبداللہ بن مسعودؒ کا فرمان ہے کہ ” جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ وہ فرمانبردار بندے کی حیثیت سے روزِ قیامت حق تعالٰی سے ملے ، تو اس کو پا نچوں نمازوں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے اور انہیں مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنا چاہیے ، نیز با قا عدگی کے ساتھ نماز تراویح کا اہتمام کرے ، پیغمبراسلام نے ماہ صیام کو ہمدردی و غم خواری کا مہینہ قرار دیا ہے ، ہمدردی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کسی روزے دار کا روزہ افطار کرا دیا جائے آقائے نامدار محمد عربی نور سرمدی ?نے افطار کروانے کی ترغیب دی ہے ، آپ کا فرمان ہے کہ ” جو شخص کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے تو اس کے لیے ، گناہوں سے مغفرت اور دوزخ کی آگ سے رہائی ہے ، اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا ، جتنا روزے دار کو ، اور اس سے روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی ، پہلے افطار ، پھر نماز اور آخر میں کھانے کی ترتیب کو رواج دیا جائے ، یوں تو ماہ صیام کا ایک ایک لمحہ اہمیت کا حامل ہے ، اس کے با وجود تاریخ اسلام کے کئی اہم مراحل کو رمضا ن سے نسبت حاصل ہے ، بطور تمثیل چند یہاں ذکر کیے جاتے ہیں * رمضان المبارک میں قرآن عظیم الشان کے نزول کا آغاز * حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل ہوئی * ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی وفات جنہوں نے اسلام بھی ماہ صیام کے دوران قبول کیا تھا * انجیل مقدس حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی * پیغمبر اسلام صلعم کے نواسے سیدنا حسنؓ کی ولادت * ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی وفات * غزوہ بدر جس میں مسلمان کفار کے مقابلے میں فتح یاب ہوئے جو کہ اسلامی تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ تھا ، جب 313 مسلمانوں پرمشتمل لشکر نے اپنے سے کہیں زیادہ تعداد اور بہتر مسلح کفار کے لشکر کو شکست فاش دی * حضرت داو¿د علیہ السلام پر زبور کا نزول وغیرہ مراحل کو ماہ صیام سے ہی نسبت ہے ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ” جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ اپنی کمر کس لیتے ، راتوں کو جاگتے ، اپنے گھر والوں کو جگاتے ، اور اتنی محنت کرتے جتنی کسی اور عشرے میں نہ کرتے “ ماہ صیام کے آخری عشرے میں اعتکاف آپ کا معمول تھا ، اس کا اہتمام کیاجائے ، حق تعالیٰ فرما تے ہیں کہ شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے امام بخاریؓ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت بیان فرماتے ہیں ، کہ آپ نے فرمایا ” جس شخص نے شب قدر کو ایمان اور خود احتسابی کی حالت میں قیام کیا تو رب العالمین اس کے پچھلے تما م گنا ہ معاف فرما دیں گے “ آخری عشرے کی پا نچ طاق راتوں ۲۱ ، ۲۳، ۲۵، ۲۷، اور ۲۹، کو اعتکاف اور شب بیداری کے لیے مختص کر دیا جائے ، نبی نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو شب قدر کی یہ دعا بتائی ، کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیاکرو اللھمم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ، ” اے اللہ ! بلا شبہ تو معاف کر نے والا ہے ، اور معاف کر نے کو پسند کرتا ہے ، پس تو مجھے معاف فرما دے “ اس ماہ مقدس میں اللہ تعالٰی کے نام پر خرچ کرنے کو بے حد مناسبت ہے اور اس کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے ، واقعہ یہ ہے کہ حضور اکرم سارے انسانوں سے زیادہ فیاض تھے ، لیکن ماہ صیام میں آپ? بارش لانے والی تیز ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرما یا کرتے تھے ، اللہ تعالٰی کا قرب ، جنت میں اعلیٰ درجات اور نبی کی جنت میں ہمسا ئیگی ، اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرنے سے ہی حاصل ہو تی ہے ، لہذا ہر ایمان والا خود بھی اس پر عمل پیرا ہو اور دوسروں کو بھی متوجہ کرے ، حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا ہے تا کہ روزے دار فضول ، لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک ہو جائیں ، اور مسکینوں کو کھانے پینے کا سامان میسر آئے ، صدقہ فطر عید کی آمد سے پہلے ہی ادا کرنے کی کوشش کریں تا کہ غر با مسا کین بھی عید کی خوشیوں میں لطف اندوز ہو سکیں ، غرضیکہ ماہ صیام نیکیوں کا موسم بہار ہے ، قابل رحم ہے وہ شخص کہ جسے زندگی میں یہ ماہ مبارک مقدر ہو اور وہ عبادت کرکے اپنے کو جنت کا مستحق نہ بنائے
*آخری بات :* یہ وقت کی اہم ترین ضرورت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ ہر ایمان والا رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں عالم اسلام کی بقا و سربلندی کے لئے بطور خاص دعاو¿ں کا اہتمام کرے ، حق کا بول بالا ہو باطل مغلوب ہو ، ماہ صیام کے صدقے حق تعالٰی پوری دنیا کو امن و آشتی کا گہوارہ بنائیں۔ آمین یارب العالمین
کالم نگار و جموں و کشمیر کی مشہور دانش گاہ جامعہ ضیاء العلوم پونچھ میں شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں