’’ ماں وہ لفظ ہے جسے سن کر دلوں کو فرحت نصیب ہو تی ہے ‘‘

0
0

 

قیصرمحمود عراقی

محبت اور ایثار کا سر چشمہ ’’ ماں‘‘ کا ئنات کے سب سے اچھے ، سچے اور خوبصورت تر ین رشتے کا نا م ہے ۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ ماں کے پائوں تلے جنت ہے ‘‘، شیخ سعدی ؒ نے کہا ! ’’ محبت کی تر جمانی کر نے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف ماں ہے ‘‘ ۔ مشہور مفکر اور شاعر علامہ اقبال ’ نے کہا ’’ سخت سے سخت دل کو ماں کی پرُ نم آنکھوں سے موم کیا جا سکتا ہے‘‘ ۔الطاف حسین حالی ؔ نے کہا ’’ ماں کی محبت حقیقت کی آئینہ داری ہو تی ہے ‘‘ ۔ مشہور مغربی دانشور جان ملٹن نے کہا ’’ آسمان کا بہترین اور آخری تحفہ ماں ہے ‘‘ اسی طرح شیلے نے کہا ’’ دنیا کا کوئی رشتہ ماں سے پیارا نہیں ‘‘ ۔ نپلوین نے کہا ’’ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں ایک اچھی قوم دونگا ‘‘ ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دانشوروں اور عالمی شہرت یافتہ شخصیتوں نے ماں کی عظمت اور بڑائی کا اعتراف کیا ہے ۔
ماں کیا ہے ؟ ’’ ماں ‘‘ وہ عظیم نام ہے جس کے لئے پوری دنیا کی مختلف زبانوں اور عالمی تہذیبی والے اور زبان و ادب میں جو الفاظ تخلیق کئے گئے ہیں ، وہ اس بلند مر تبے کا اظہار اور عقیدت و محبت کا مظہر ہے ۔ جبکہ دین اسلام نے ماں کی عظمت و خدمت اور اس کی اطاعت و فرما نبر داری کا جو درس دیا وہ سب سے عمدہ اور بے مثال ہے ۔ اسلام میں خالق حقیقی رب العالمین کے بعد خالقِ مجازی ماں اور اس کی ممتا کو سب سے عظیم گرد انا گیا ہے ،ماں ایک سایہ دار درخت ہے جس کی گھنی چھائوں کبھی کم نہیں ہو تی اور نہ ہی کبھی اس پر خزا ں آتی ہے ۔ ماں کی محبت کے حوالے سے انسان کی ماں اور حیوان کی ماں میں ذرا بھی تفریق نہیں ہے ۔ قدرت نے جو جذبہ انسان کی ماں کو دیا ہے ، حیوان کی ماں میں بھی یہ جذبہ و دیعت کر رکھا ہے ۔ آپ ذرا کسی چڑیا کے بچے کو ہاتھ لگائیں ، چڑیا چوں چوں کر تی ہو ئی تمام چڑیوں کو اکٹھا کر لیتی ہے اور جب تک آپ اس کے بچے کو چھوڑ نہیں دیتے وہ آپ کے سر پر منڈلا تی رہتی ہے ۔ آخر کون سا جذبہ اُسے مجبور کر تا ہے کہ وہ اپنے بچے کے لئے تڑپتی ہے ۔
ماں ہی زندگی کی اندھیری راتوں میں روشنی کا مینار ہے اور انجانے سے پُر خطر راستوں میں راہنما ہے ۔ ماں خاندانی نظام کی اساس ہے اور بنیادی اسلامی تہذیب کا نشان ہے ۔ دنیا میں ہر شخص خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، کسی بھی مسلک سے منسلک ہو اس کی سب سے بڑی خواہش جنت کا حصول ہے ۔ جنت کی خواہش صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ غیر مذہب اسلام کے لوگ بھی جنت میں جا نے کی خواہش رکھتے ہیں ، لیکن خدا وند کر یم کی شان دیکھیں کہ جنت جیسی چیز کو ماں کے قدموں کے نیچے رکھ دیا ہے ۔ صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ہریزہ ؓسے روایت ہے کہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا’’ تیری ماں ‘‘انہوں نے پھر عرض کیا ، پھر کون ، آپ ﷺ نے فرمایا’’ تیری ماں‘‘ انہوں نے عرض کیا پھر کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا’’ تیری ماں ‘‘ چوتھی مر تبہ سوال کر نے آپ نے فرمایا’’ تیرے والد‘‘ ( صحیح بخاری ) ماں کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے آپ ﷺ کے تین مر تبہ تاکید ی طور پر ارشاد فرمانے کے حوالے سے علماء کرام نے لکھا ہے کہ ماںکاتین مرتبہ نام لینا اسکے تین عظیم احسانات کی طرف اشارہ ہے ۔۱)وضع حمل اور اسکی پیدائش کی تکلیف کوبرداشت کرتی ہے ۔۲)پھر دودھ پلاتی ہے ۔۳) اور کئی ماہ تک اس کی ہر طرح سے نگہداشت کر تی ہے اور اپنی راحت و آرام و سکون کو اپنی اولاد پر قربان کر دیتی ہے ۔
مسلم معاشرے میں بچوں کی تر بیت میں ماں کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے ، بچپن سے لے کر جوانی تک بچے کی صلاحیتوں کو اُجاگر کر نے میں زیادہ کردار ماں کا ہو تا ہے ، ہر بچے خود کو ماں کے وجود کا ایک حصہ تصور کر تا ہے اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ گھر کا سارا نظام ماں ہی کے کنڑول میں ہو تا ہے ۔ ہماری مائوں نے درسی تعلیم سے محروم ہو نے کے باوجود اپنی اولاد کی تر بیت بڑے ہی اچھے انداز میں کی ہے اور پھر اولاد بھی ایسی کہ اچھی تر بیت کے بل بوتے پر اس دنیا میں جس نام سے بھی پکا رویہ رشتہ تحفظ و حصار کا احساس پیدا کر تا ہے ۔ جس کے ساتھ ہو نے کا تصور ہی دنیا بھر کی تمام مشکلات ، پر یشانیاں اور الجھنیں دور بھگا دیتا ہے ۔
قارئین حضرات!زندگی ہرلمحہ بدلتی ہے ، مگرہر پل بدلتی اس زندگی میں اگرکوئی شئے جامد ومستقل اورناقابلِ تبدیل ہے تووہ ماں کی محبت ہے۔ دھیرے دھیرے وقت کے ساتھ ہررشتے کی نوعیت بدل جاتی ہے لیکن ماںکا اٹوٹ رشتہ مضبوط ترہوتا چلاجاتا ہے۔ ایک طرف بچوںکیلئے ماں کی محبت وچاہت اگر سمندر کی مانند ہے تودوسری طرف ماںکی شفقت بھی سمندر کی تہہ میں موجود سیپی میں بند اس قیمتی موتی کی مانند ہے جواپنی چمک دمک سے نظروںکو خیرہ تونہیں لیکن اپنے احساس میں سچااورمچا ہوتا ہے ۔ ماں کب بھولتی ہے ،وہ ہردم یادرکھنے والی ہستی ہے ، قدم قدم پر انکی ضرورت محسوس ہوتی ہے ، ہرقدم پر انکی نصیحتیں زندگی کو آسان بنادیتی ہیں، تبھی تودنیامیں سب سے زیادہ استعمال ہونے والالفظ’’ماں‘‘ہے۔ دنیاکے کسی بھی زبان میں دیکھ لیں لفظ ’’ماں‘‘ہی سب سے زیادہ جاذبیت اور پیار سے بھرا ہوتاہے ۔ماںایک ایسالفظ ہے جس کی موتی جیسی چمک ، گلاب کی سرخی ،غنچے کی رعنائیت ، سونے کی تمتماہٹ اورستاروں کی جھلملاہٹ میںدنیائے حسن ولطافت کی تمام ترخوشنمائی ورعنائی چھلکتی ہے۔ ماں وہ لفظ ہے جسے سن کو دلوںکو شادمانی وفرحت نصیب ہوتی ہے، اورماں وہ ہستی ہے جسکی پیشانی پر نور ،الفاظ میں محبت ، آغوش میں دنیابھر کا سکون ، ہاتھوں میں شفقت ، پیروں تلے جنت اور صرف ایک پیار بھری نظر ہی ایک حج کے ثواب کا سبب بن جاتی ہے اورسب سے بڑھکر ہمارے چہروںکو شاداں وفرحاں رکھنے میں اہم کرداراداکرتی ہے۔
آج ہمارے لئے بد قسمتی ہے کہ آئے روز ایسی خبریں نظرسے گذرتی ہیں جیسے بوڑھی ماںکوگھر سے نکال دیا، بوڑھی ماں کوبیٹے نے بیوی کے کہنے پر گھر سے بے دخل کردیا، اسطرح کے واقعات بدبخت اولادکی نافرمانی کی انتہاںاور سنگدلی کو بیان کرتے ہیںجس معاشرے میں ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ماں کے قدموںتلے جنت اور باپ کی رضا میں رب کی رضاہے ، بدقسمتی سے وہی معاشرہ آج غیروں کی اندھی تقلید میں اس قدر مبتلاہوچکا ہے کہ اس جنت اوررضائے ربانی سے دامن بچاتا، اپنی ہی روشن اقدارپامال کرتانظرآرہاہے۔ حالانکہ دنیا وآخرت میںکامیابی مائوں کی دعائوں کی ہی مرہونِ منت ہے ۔اسلئے ہر اولادکوچاہئے کہ اس عظیم ماں سے جتنی دعائیں سمیٹ سکتا ہے سمیٹ لے۔
Mob:6291697668

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا