ڈاکٹر محمد بشیر ماگرے
اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان المبارک پورے کا پورا ہی برکاۃ ،رحمت، مغفرت و فضیلت سے بھر پور رکھا ہے۔رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات لیلتہ القدرکہلاتی ہے، جو بہت ہی قدرو منزلت،خیروبرکت کی حامل ہے۔اس رات کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔قرآن پاک میں آیا ہے ’’انا انزلناہ فی لیلتہ القدر، وما ادراک ما لیلتہ القدر ،لیلتہ القدر خیر من الف شھر،تنزل الملائیکتہ والروح فیھا با ازن ربھم من کل امر، سلام ھی حتیٰ مطلع الفجر۔(قرآن سورہ القدر)(۱)بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا اور تم نے کیا جانو کیا ہے شب قدر؟شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس رات میں فرشتے اور جبرائیل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کیلئے وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک(ترجمہ کنزالایمان) اس رات کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے ۔ہزار مہینے کے تریاسی برس چار ماہ بنتے ہیں، جس شخص کی یہ ایک رات عبادت میں گذری ، اس نے ۸۳سال ۴ ماہ کا زمانہ عبادت میں گذاردیا۔یہ ۸۳برس کا زمانہ کم سے کم ہے، کیونکہ ’’خیرمن الف شھر‘‘ کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زائد اجر عطا فرمانا چاہتا ہے عطا کرے گا! اس اجر کا اندازہ انسان کے بس میں نہیں ہے۔
لیلتہ القدر کے معنی و مفہوم: امام دہریؒ فرماتے ہیں کہ قدر کے معنی مرتبہ کے ہیں چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاز سے بلند و بالا ہے اس لئے اسے ’’لیلتہ القدر‘‘ کہا گیا ہے (۲)۔اس رات کو القدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قابل قدر کلام القرآن، اپنی قابل قدر امت کیلئے صاحب قدر محبوب رسول مقبول ﷺ کی معرفت نازل فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں قدر کا لفظ تین مرتبہ آیا ہے (۳) قدر کا معنی تنگی کا بھی آیا ہے اس معنی سے اسے قدر والی رات کہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس رات کو آسمان سے فرشتے اس قدر نزول کرتے ہیں کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے۔امام ابوبکر الوراق قدر کہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ رات عبادت کرنے والوں کو صاحب قدر بنا دیتی ہے اگر چہ پہلے اس لا تعنانہ بھی تھا۔(۴)
لیلتہ القدر کیوں عطا ہوئی وجہ تسمیہ: اس رات کے حصول کا سب سے اہم سبب نبی رحمت ﷺ کی اس امت پر شفقت اور آپ ﷺ کی غم خواری ہے۔موطا امام مالک ؒ میں ہے کہ ؛ جب رسول پاک ﷺ کو سابقہ امتوں اور لوگوں کی عمروں میں وصعت کی اگاہی ہوئی تو آپ ﷺ نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے (پس) آپ ﷺ کو لیلتہ القدر عطا فرما دی گئی جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔(۵)اس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول روائت سے بھی ہے کہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں ایک شخص بنی اسرائیل کا تذکرہ کیا گیا کہ ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا تھا۔تو آپ ﷺ نے اس بڑے تعجب کا اظہار فرمایا! پھر اپنی امت کیلئے اللہ تعالیٰ سے آرزو کی، دعا مانگی کہ اے میرے رب میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی بہت کم ہونگے! تو اس پر اللہ تعالیٰ نے لیلتہ القدر عنائت فرمائی۔(۶) ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ کے سامنے مختلف اشخاص حضرت ایوب، حضرت زکریا،حضرت یوشع کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان حضرات نے اسی اسی سال اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہے۔، اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہین کی! صحابہ کرام کو ان برگذیدہ حستیوں پر بڑا رشک آیا!امام قرطبیؒ لکھتے ہیں کہ اسی وقت جبرائیل علیہ سلام آپ حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ کی امت کے لوگ پہلی امت کے لوگوں پراسی اسی سال کی عبادت کا رشک کرتے ہیں تو آپ کے رب نے آپ کی امت کیلئے اس سے بہتر عطا فرمادیا ہے۔ اور پھر لیلتہ القدر کی تلاوت کی۔اس پر حضور ﷺ کا چہرہ اقدس فرط مسرت سے چمک اٹھا (۷) چنانچہ حضور ﷺ کے طفیل یہ کرم فرمایا گیا کہ اس امت کو لیلتہ القدر عنائیت فرما دی اور اس کی عبادت کو تریاسی برس چار ماہ کی عبادت سے بڑھ کر قرار دیا۔
لیلتہ القدر فقط آپ ﷺ کی امت کی خصوصیت ہے۔امام جلال الدین سیوطی ؒ،حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ مقدس رات اللہ تعالیٰ نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں سے یہ شرف کسی کو حاصل نہیں ہوا!(۸)مفسرین کی تحریروں کا ماننا ہے کہ پہلی امتوں میں عابد اسے کہا جاتا تھا جو ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا۔لیکن نبی لولاک ﷺ کے صدقے اور طفیل میں اس امت کو یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ ایک رات کی عبادت سے ان سے بہتر مقام حاصل کر لیتی ہے۔یہ سب لیلتہ القدر کی فضیلت کی وجہ سے ہے۔(۹)گویا یہ عظیم نعمت بھی صرف اور صرف سرکار دوعلم حضور ﷺ کی غلامی کے صدقے میں امت کو نصیب ہوئی۔
فضیلت لیلتہ القدر احادیث کی روشنی میں: ’’وعن عائشہ رضی اللہ عنھا قالت:قال رسول اللہ ﷺ ’’تحر و الیلتہ القدر فی الوتر من العشر الا واحز من رمضان البخاری‘‘(۱۰)ترجمہ:ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا راوی ہیں کہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایاکہ لیلتہ القدر کورمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ اگر ہمیں لیلتہ القدر کا پتہ مل جائے تو ہم کیا دعا مانگیں؟ حضور ﷺ نے فرمایا ’’اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی:اے اللہ! تو بے شک معاف کرنے والا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو،پس معاف فرما دے مجھے بھی۔(۱۱)سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے کہ فرمایا آپ ﷺ نے جس شخص نے اجرو ثواب کی نیت سے لیلتہ القدر کی عبادت کی اس کے سابقہ گناہ معاف کردئے جاتے ہیں(۱۲) ایسا ہی ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ جہاں لیلتہ القدر کی ساعتوں میں ذکرفکر،عبادات و عطاعت کی تلقین کی گئی ہے وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو! ریا کاری بالکل نہ ہو اور آئندہ عہد کرے کہ میں برائی کا ارتکاب نہیں کروں گا چنانچہ اس شان کے ساتھ عبادت کرنے والے بندے کیلئے یہ رات مژدہ مغفرت بن جاتی ہے۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر ایک مرتبہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا؛ یہ جو ماہ تم پر آیا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ سارے خیر سے محروم ہوگیا اور اس بات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتا محروم ہو (۱۳)ایسے شخص کی محرومی میں واقعتا کیا شک ہوسکتا ہے جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوادے۔جب انسان معمولی معمولی باتوں کیلئے کتنی راتیں جاگ کر بسر کر لیتا ہے تو اسی اسی سال کی عبادت سے افضل عبادت کیلئے ایک عشرہ کیلئے کیوں نہیں جاگ سکتا ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے لیلتہ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:شب قدر کو جبرائیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اترتے ہیں اور ہر شخص کیلئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے بیٹھے یعنی کسی حال میں اللہ کو یاد کررہا ہے(۱۴)
لیلتہ القدر کا مخفی ہونا: اتنی اہم فضیلت و بابرکت رات کا مخفی ہونے کی بھی متعدد حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ان میں سے چند اہم یہ ہیں :الف)دیگر اہم مخفی امور مثلا اسم اعظم، جمعہ کے روز قبولیت دعا ک گھڑی کی طرح اس رات کو بھی مخفی رکھا گیا ہے۔ب) اگر اسے مخفی نہ رکھا جاتا تو عمل کی راہ مسدود ہوجاتی اور اس رات کے عمل پر اقتفاء کرلیا جاتامحض زوق عبادت کی دوام کی خاطر اسکو آشکار نہیں کیا گیا۔ج) اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کسی شخص کی وہ رات رہ جاتی تو شاید اس کا ازالہ ممکن نہ ہوتا۔د) اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کا رات کے اوقات میں جاگنا اور بیدار رہنا محبوب ہے اس لئے رات متعین نہ فرمائی، تاکہ اس کی تلاش میں متعدد راتیں عبادات میں گذاریں۔س) عدم تعین کی وجہ سے گنہگاروں پر شفقت بھی ہے کیونکہ اگر علم کے باوجود اس رات میں گناہ سر زد ہوتا تو اسلئے لیلتہ القدر کی عظمت مجروح کرنے کا جرم بھی لکھا جاتا۔(۱۵) ۔ایک اور جھگڑا علم لیلتہ القدر سے محرومی کا سبب بنا!جو ایک اہم وجہ رہی ہے اس کے مخفی رہنے کی، حضرت عبادہ بن حاجت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب ﷺ کو حکم دیا کہ آپ اس رات کے تعین کے بارے میں اپنی امت کو اگاہ فرما دیں کہ یہ فلاں رات ہے لیکن دو آدمیوں کے جھگڑے کے باعث منع فرمادیا! روایت کے الفاظ یوں ہیں’’ ایک مرتبہ حضور ﷺ لیلتہ القدر کے بارے مطلع کرنے نکلے تو راستے میں دو آدمی جھگڑ رہے تھے،حضور ﷺ نے فرمایا میں تمیں لیلتہ القدر کے بارے اطلاع دینے آیا تھا،لیکن فلاں فلاں کے جھگڑے کی وجہ سے اس کا تعین اٹھا لیا گیا ہے‘‘(۱۶)۔حضرت سفیان بن عینہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کو اس کا باقائدہ علم تھا (۱۷) ہمارے نذدیک آقائے دو جہاں ﷺ کو نہ صرف تعین کا علم ہے بلکہ آپ بعض غلاموں کو اس پر اگاہ بھی فرماتے ہیں۔حضرت ابن عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں ایک ویرانے میں رہتا ہوں اور نماز پڑھتا ہوں ، مجھے حکم کریں کہ میں کون سی رات مسجد نبوی میں آکر بسر کروں؟ فرمایا رمضان المبارک کی ۲۳ویں رات کوآجائو۔ (۱۸) یہ صحابی ہمیشہ رمضان المبارک کی ۲۳ویں شب کو نماز عصر سے لیکر صبح صادق تک مسجد میں گذارتے رہے۔
لیلتہ القدر کے تعین کے بارے میں تقریبا ۵۰ اقوال موجود ہیں۔ ان میں سے دو اقوال نہایت ہی اہم اور قابل توجہ ہیں۔ (۱) لیلتہ القدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک ہے۔جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، کہ رسالت معآب ﷺ نے فرمایا کہ لیلتہ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرئو(۱۹)۔چونکہ اعتکاف کا مقصد بھی لیلتہ القدر کی تلاش ہے۔اسی لئے ان ایام کا اعتکاف سنت قرار دیا گیا۔نبی رحمت ﷺ کو جب تک اس رات کا تعین اگاہ نہیں فرمایا تھا تو حضور ﷺ پورا پورا رمضان المبارک اعتکاف کرتے تھے۔جب اللہ کی طرف سے اگاہی ہوگئی تو حضور ﷺ صرف آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے تھے۔(۲) رمضان المبارک کی ۲۷ویں شب لیلتہ القدر ہے اس پر جمہور علماء کرام کا اتفاق ہے۔امام قرطبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علماء کا گو اختلاف ہے مگر اکثریت کی رائے یہی ہے کہ ۲۷ویں شب رمضان ہی لیلتہ القدر ہے۔(۲۰) ۔ علامہ علوی ؒ لکھتے ہیں کہ علماء کی اکثریت کی رائے ہے کہ طاق راتوں میں ۲۷ویں شب ہی لیلتہ القدر ہے۔(۲۱)۔ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بنی عباس رضی اللہ عنہ اور قاری قرآن حضرت ابی بن کعبؒ کی بھی یہی رائے ہے۔سیدنا عبداللہ بن عباس ؒ ۲۷ویں شب کو ہی لیلتہ القدر قرار دیتے ہیں اور ۳ طرح کی دلیل دیتے ہیں جس کو امام راضی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ لفظ لیلتہ القدر کے ۹ حروف ہیں اور اس کا تذکرہ ۳ مرتبہ ہوا ہے جس کا مجموعہ ۲۷ ہے(۲۲)۔(۲)سورۃالقدر کے کل الفاظ ۳۰ ہیں جن کے زریعے شب قدر کے بارے میں بیان کیا گیا ہے، لیکن اس سورہ میں جس لفظ کے ساتھ اس شب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ ’’ھی‘‘ ضمیر ہے اور یہ لفظ اس سورہ کا ۲۷ واںلفظ ہے سورہ کے کل کلمات ۳۰ ہیںاور ان میں ھی ۲۷واں کلمہ ہے۔(۲۳) امام ابوبکر الوراقؒ نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔(۳)سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس ؒ سے لیلتہ القدر کے تعین کے بارے میں سول کیا تو انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کو طاق عدد پسند ہے اور طاق عددوں میں بھی ۷ کا عدد کو ترجیح حاصل ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساری کائینات کی تخلیق کو ۷ کے عدد میں ظاہر کیا ہے مثلا ۷ آسمان ، ۷ زمینں ، ہفتے کے ۷ دن،طواف کے ۷ چکر ،صعی کے ۷ چکر وغیرہ (۲۴)۔
علامات لیلتہ القدر کو بیان کرتے ہوئے متعدد مفسرین اور علماء نے مختلف علامات بیان کی ہیں جن میں(الف) اس صبح سورج طلوع ہوتا ہے تو اس میں تمازت نہیں ہوتی! (ب) یہ شب اکثر بہت ہی معتدل ہوتی ہے، نہ گرم نہ سرد، سورج صبح کو کمزور اور سرخ طلوع ہوتا ہے۔(مسند ابودائود طیاسی)۔(ج)رات بہت ہی روشن ہوتی ہے اور اس رات میں کوئی ستارہ پھینکا نہیں جاتا،یعنی شیاب ثاقب نہیں ہوتا،(مسند احمد بن حنبل)۔(د) قرآن کریم میں لیلتہ القدر کی سورہ القدر کے زریعے واضع دلیل ، علامت اور فرمان الہیٰ۔اللہ تعالیٰ جل شانہ سے دعا ہے کہ ہر مومن کو اس شب کی قدر کرکے اس کے فیوض برکات،رحمتوں اور برکتوں سے نوازے۔آمین ثمہ آمین۔
ماخذ: (۱) قرآن سورہ القدر:۹۷۔ (۲)تفسیر القرطبی، ۲۰:۱۳۵) (۳) تفسیر کبیر :۳۲،۲۸) ۔(۴) موطا امام مالک ۱: ۳۹۱) کتاب الصیام باب ماجاء فی لیلتہ القدر رقم حدیث:۱۵)۔ (۵) موطا امام مالک ۱: ۳۹۱) کتاب الصیام باب ماجاء فی لیلتہ القدر رقم حدیث؛۱۵) (۶) تفسیرالحازن، ۴: ۳۹۷)۔ (۷) تفسیر القرطبی، :۲۰،۱۳۲)۔ (۸) الدر المنشور، ۶:۳۷۱)۔ (۹) فتح القدیر ،:۵،۴۷۲)۔(۰!) البخاری باب
الصیام : ۹:۱۱۱)۔ (۱۱) ترمذی و مسکاۃ شریف: باب الصیام)۔(۱۲) صحیح البخاری ،۱:۲۷۰، کتاب الصیام رقم حدیث ۱۹۱۰) (۱۳)سنن ابن ماجہ ،۲۰، کتاب الصیام رقم حدیث ۱۶۴۴) (۱۴)شعیب الایمان،۳:۳۴۳)۔ (۱۵) التفسیر الکبیر، ۳۲: ۲۸)۔ (۱۶) صیحیح البخاری
،۱:۲۷۱،کتاب الصیام ،رقم ۱۹۱۹)۔ (۱۷) عمدۃ القاری،۱۱:۱۳۸)۔ (۱۸) سنن ابی دائود،۱:۲۰۳، کتاب الصلات ،باب فی لیلتہ القدر رقم ھدیث ۱۳۸۰)۔(۱۹) صحیح البخاری ،۱:۲۷۰، کتاب الصیام، رقم حدیث ۱۹۱۳)۔ (۲۰) تفسیر القرطبی،۲۰: ۱۳۴)۔روح المعانی ،۳۰:۲۲۰)۔(۲۱) تفسیر الکبیر،۲۳:۳۰)۔(۲۳) تفسیر الکبیر و قرطبی،۱۰:۱۳۶)۔ (۲۴) تفسیر الکبیر ، ۳۲:۳۰)
٭ڈاکٹر محمد بشیر ماگرے جغرافی کے پروفیسر اور ریٹائرڈ کالج پرینسیپل ہیں اور ڈی سی کالونی راجوری جموں کشمیر کے نواسی ہیں
Email:[email protected], Cell:9419171179