(لیلتہ البرائۃ) وجہ تسمیہ، شب برات کے فیوض و برکات

0
0

ڈاکٹر محمد بشیر ماگرے

ابتدائے اسلام سے اس شب کو عبادت کے ساتھ منایا جارہا ہے۔لفظ شب فارسی زبان کا ہے جس کے معنی ہیں رات اور برائت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ٓزادی، اس رات کو شب برات اس لئے کہتے ہیں کیونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ بنو کلب کی بکریوںکے بالوں کے برابر مسلمانوں کوجہنم سے نجات دیتا ہیـ) ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: میں نے حضور اقدس ﷺ کو شعبان المعظم سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہ دیکھا۔(۱) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا: مزید فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور ﷺ کو حجرے میں نہ پایا۔میں آپ ﷺ کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنت البقیع میں مل گئے: تو حضور ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی ۱۵ شب آسمانی دنیا پر تجلی فرماتا ہے،پس قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔(۲) ملقطا معلوم ہوا کہ شب برات میں عبادات کرنا،قبرستان جانا سنت نبوی ﷺ ہے۔
بزرگان دین رحمہم اللہ المبین کے معمولات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس رات کو عبادات الٰہی میں بسر کیا کرتے تھے۔ حضرت سیدنا خالد بن معدان، حضرت سیدنا لقمان بن عامر اور دیگر بزرگان دین رحمھم اللہ المبین شعبان المعظم کی ۱۵ویں رات اچھا لباس زیب تن کرتے،خوشبو،سرمہ لگاتے اور رات مسجد میں جمع ہوکر عبادات کیا کرتے تھے۔(۳) امیر المومنین حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمتہ اللہ العزیز بھی شب برات میں عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔(۴)
اہل مکہ کے معمولات تیسری صدی ھجری کے بزرگ ابو عبداللہ محمد بن اسحاق فاکہی علیہ رحمتہ اللہ القوی فرماتے ہیں: جب شب برائت آتی تو اہل مکہ کا آج تک یہ طریقہ کار چلا آرہا ہے کہ مسجد الحرام شریف میں آجاتے اور نماز ادا کرتے ہیں، طواف کرتے ہیں اور ساری رات عبادت و تلاوت قرآن میں مشغول رہتے ہیں، ان میں بعض لوگ ۱۰۰ رکعت (نفل نماز) اس طرح ادا کرتے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ۱۰ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھتے،زم زم شریف پیتے،اس سے غسل کرتے اور اسے اپنے مریضوں کے لئے محفوظ کر لیتے اور اس رات میں ان اعمال کے زریعے خوب برکتیں سمیٹتے ہیں۔(۵) ایک غلط دلیل دی جاتی ہے کہ قرآن کی سورہ الدخان کی ابتدائی آیات کا حوالہ دیکر دلیلیں دی جاتی ہیں! حالانکہ ان آیات میں ’’شب برات نہیں بلکہ شب قدر‘‘ کا بیان ہے اور تقدیر کے فیصلے ھونے‘ کا بیان نہیں بلکہ فرشتوں میں ’’تقدیر کے فیصلے تقسیم ھونے ‘ کا بیان ہے۔تقدیر کے فیصلے تو ازل سے ھوچکے ہیں اور کائنات کی پیدائش سے پچاس سال پہلے تقدیر لکھی جا چکی ہے۔سورہ الدخان کی ابتدائی آیات کا مطالعہ کرنے سے تین امور کا بیان ہے۔۱۔قرآن مبارک کا نزول،۲۔ھکمت و احکامات فرشتوں میں بانٹنے کا عمل اور ۳، رحمت کا نزول ہوتا ہے۔قاعدہ یہ ہے کہ القرآن یفسر بعضہ بعضا۔یعنی قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی وضاحت کرتا ہے۔سو ان آیات کی تفسیر قرآن ہی کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اسی طرح سورہ القدر میں بھی انہی تین امور کا بیان ہے، جیسے: قرآن قدر (عظمت ) والی رات میں نازل ہوا، مخلوقات کیلئے اگلے سال کی لیلتہ القدر تک جو کچھ تقدیر میں لکھا گیا فرشتے اسے لیکر اترتے ہیں اور اس شب میں سلامتی کا نزول ہوتا ہے۔اسطرح یہ معما تو حل ہو جاتا ہے کہ لیلتہ المبارکہ لیلتہ القدر کا دوسرا نام ہے۔اب سوال یہ ہے کہ یہ شب کس ماہ میں ہے۔قرآن مقدس کہتا ہے کہ قرآن ماہ رمضان میں نازل ہوا ہے۔(۶) اور یہ تو سب کو معلوم ہی ہے کہ لیلتہ القدر رمضان میں ہوتی ہے۔۔شعبان میں نہیں! امام ابن العربی مالکہ(وفات:۵۴۳ھ) ۱۵ شعبان کی کی رات کی تمام احادیث کو مردود قرار دیتے ہیں:’’لیس فی لیلتہ النصف من شعبان حدیث یعول الیہ لا فی فضلھا ولا فی نسخ الاجال فیھا فلاتلفتتوا الیھا‘‘ (۷)نصف شعبان کے بارے میں کوئی ایسی حدیث نہیں جس پر اعتماد کیا جاسکے،نہ اس شب کی فضیلت میں اور نہ موت و زندگی لکھنے کے بارے میں،سو ان روایات کی طرف قطعا توجہ نہ دی جائے! نصف شعبان کے روزے سے متعلق روایات:محدث عبدالرحمٰن بن عبدالرھیم مبارکپوری لکھتے ہیں:لم اجد فی صوم لیلتہ النصف من شعبان حدیثا مرفوعا صحیحا اما حدیث علی الذی رواہ ابن ماجتہ فقد عرفت التضعیف جدا۔(۸)میں نے نصف شعبان کے روزے کے بارے میں کوئی حدیث صحیع مرفوع نہیں پائی اور سید نا علی رضی اللہ تعالیٰ کی جو روایت ابن ماجہ میں روایت کی گئی ہے وہ نہایت ضعیف ہے۔ نصف شعبان کی نماز کے متعلق علامہ شبیر احمد عثمانی اپنی شرح میں لکھتے ہیں: قال العینی وما احادیث التی فی صلوۃ النصف من شعبان نذکر ابوالخطاب بن دحیہ انھا موضوعتہ۔(۹)علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں کہ نصف نمازوں کی جتنی احادیث ہیں تو ابو الخطاب بن دحیہ فرماتے ہیں یہ سب من گھڑت ہیں۔نصف شعبان، مغفرت کی رات؟ نصف شب شعبان کی رات کو مغفرت کی رات قرار دینے کیلئے ترمذی سے روایات آتی ہیں کہنصف شعبان کی رات کو اللہ بنوکلب کی بھیڑوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے، کچھ نے اس مہینہ کو کثرت سے درود پاک پڑھنے کا مہینہ کہا ہے، چنانچہ امام قسطلانی قدس سرہ النورانی نقل فرماتے ہیں : بے شک شعبان کا مہینہ نبی پاک ﷺ پر درود شریف پڑھنے کا مہینہ ہے (۱۰) ان اللہ و ملٰئکتہ یصلون علی النبی۔)
لیلتہ البرات کیلئے مختلف مکاتب فکر کی آرائ:اہل حدیث کے ابن تیمیہ سے نصف شعبان کی رات نماز کے بارے مین سوال کیا گیا: تو ابن تیمیہ نے جواب دیا ’’ اگر اس رات میں کوئی تنہا یا مخصوص جماعت کے ساتھ نماز پڑھے جیسا کہ اسلاف کے بہت سے لوگوں کا یہ معمول تھا، تو یہ اچھا عمل ہے‘‘نامور اہل حدیث عالم اور شارح حدیث علامہ عبدالرحمٰن مبارک پوری ترمذی کی شرح میں لکھتے ہیں’’ معلوم ہونا چاہیے کہ نصف شعبان کے بارے میںمتعدد احدیث وارد ہوئی ہیں ان سب کے مجموعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان احادیث کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے‘‘۔اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ ۱۵ شعبان ۲۵۵ھ کو امام مہدی کی پیدائش ہوئی۔وہ اس رات کو ان کے آنے کی دعائیں کرتے ہیں۔ تقسیم امور کی رات: حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کا وقت اس رات میں لکھا جاتا ہے ،یہاں تک کہ انسانشادی کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مردوں کی فہرست میں لکھا جا چکا ہوتا ہے۔(۱۱)۔ لیلتہ البرات مغفرت کی رات:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور ﷺ کو حجرے میں نہ پایا تو میں آپ ﷺ کی تلاش میں نکلی،میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ جنت البقیع (قبرستان) میں تشریف فرما ہیں، آپ ﷺنے فرمایا کہ کیا تجھے یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ تمارے ساتھ ذیادتی کریں گے۔میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ مجھے یہ خیال آیا کہ شاید آپ ﷺ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں،آقا نے فرمایا’ بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی ۱۵ ویں شب آسمانی دنیا پر جلوا گر ہوتے ہیں اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے ذیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔یہ روایت حدیث کی اکثر کتب میں مذکور ہے، کثرت روایت کے سبب یہ حدیث درجہ صحت کو پہنچ گئی ہے۔اسکو ترمذی،ابن ماجہ،مسند احمد بن حنبل، مشکوٰۃ، مصنف ابن شعبہ، شعب الایمان للبہیقی وغیرہ میں روایت کیا گیا ہے۔(۱۲)۔ قبیلہ بنو کلب کثرت سے بکریاں پالتے تھے جن کی مثال اس حدیث میں بیان کی گئی ہے۔نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرویں شب کو اپنے رحم و کرم سے سب مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے، ایک روایت میں مسلمانوں کا لفظ ہے اور دو اشخاص میں سے ایک قتل کرنے والا اور دوسرا کینہ رکھنے والا مذکور ہیں(۱۳)
لیلتہ البرات رحمت کی رات:حضرت محمد ﷺ کا ارشاد ہے: ’’جب شعبان کی ۱۵ویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ اس کے گناہ بخش دوں، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں! اس شب اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے وہ ملتا ہے،وہ سب کی دعا قبول کرتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے۔(۱۴) حضرت علیرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محمد ﷺ نے فرمایا جب شعبان کی ۱۵ویں شب ہو تو رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت ااسمانی دنیا پر نازل ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ میں اسے بخش دوں۔ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں، یہ باری تعالیٰ کا اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے
(۱۵)۔شب برات کی شب بیداری: شب برات میں حضور نبی کریم ﷺ نے خود بھی شب بیداری کی ہے اور دوسروں کو بھی شب بیداری کی تلقین فرمائی ہے۔آپ ﷺ کی حدیث ہے ’’جب شعبان کی ۱۵ویں شب ہو تو شب بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو، اس حدیث پر مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ رات میں شب بیداری کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمہ فرماتے ہیں’’تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلا حضرت خالد بن معدان،حضرت مکحول، حضرت لقمان بن عامر، اور حضرت اسحاق بن راہویہ رضی اللہ عنھم مسجد میں جمع ہوکر شعبان کی ۱۵ شب میں شب بیداری کرتے تھے اور رات بھرمساجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے‘‘ (۱۶)
شب برات میں قبرستان کی زیارت: کیونکہ اوپر احادیث مین آچکا ہے کہ حضرت محمد ﷺ اس رات کو قبرستان (جنت البقیع) میں جانا ثابت ہے اس لئے مسلمان بھی اس شب کو اپنے آبائو اجداد کے قبرستانوں کی زیارت کرتے ہیں اور دعائے مغفرت کرتے ہیں۔شعبان کے روزے: متعدت احادیث میں اس ماہ کے روزوں کی فضیلت بیان ہوئی ہے اور خود نبی لولاک ﷺ نے کثرت سے اس ماہ کے روزے رکھنے کا اہتمام کیاہے۔لیہذا اب بھی پاکستان،انڈیا،بنگلہ دیش،ترکی،افغانستان وغیرہ میں مسلمان اجتماعی طور شب بیداری کرتے ہیں، اپنے متوفین کی قبروں کی زیارت کرتے اور شعبان معزم کے روزے اور بالخصوص لیلتہ البرات کی صبح ۱۵ شعبان کو روزہ بھی رکھتے ہیں۔
ماخذ:(۱)ترمذی،ج۲،ص ۱۸۲،حدیث ۷۳۶)
(۲) (ترمذی،ج۲،ص ۱۸۳،حدیث :۷۳۹ ملقطا)
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا