کہا کٹھوعہ واقعہ کی سی بی آئی انکوائری بزور طاقت کرائیں گے
یواین آئی
جموں بار کونسل آف انڈیا کی ٹیم کی جانب سے کٹھوعہ کے وحشیانہ عصمت دری اور قتل واقعہ کی سی بی آئی انکوائری کے مطالبے کو جائز ٹھہرانے کے ایک روز بعد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مستعفی وزیر چودھری لال سنگھ کے حامیوں نے ’رسانہ کوارڈی نیشن کمیٹی‘ کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ سی بی آئی انکوائری کو بزور طاقت حاصل کریں گے۔ جموں میں سنہ 2008 میں بننے والی شری امرناتھ سنگھرش سمیتی کے طرز پر بننے والی اس کمیٹی کے اراکین نے کہا کہ جموں کو کوئی چیز لڑائی کے بغیر حاصل نہیں ہوئی ہے اور سی بی آئی انکوائری کو بھی بزور طاقت حاصل کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ سنہ 2008 میں امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین کی منتقلی کے بعد ریاست کے دونوں خطوں میں ایجی ٹیشن چھڑ گئی تھی جس کے دوران جموں میں شری امرناتھ سنگھرس سمیتی نے کشمیر جانے والی تمام سڑکوں کو بلاک کرکے وادی کی اقتصادی ناکہ بندی کی تھی۔ لال سنگھ کے حامیوں کی جانب سے تشکیل دی گئی رسانہ کوارڈی نیشن کمیٹی کے ایک رکن نے یہاں منعقدہ پریس کانفرنس میں نامہ نگاروں کو بتایا ’جموں کو آج تک کوئی چیز لڑائی کے بغیر حاصل نہیں ہوئی ہے۔ میڈیکل کالج، سینٹرل یونیورسٹی، ایمز اور جو کچھ بھی یہاں ہے، ہم نے ان چیزوں کو لڑائی سے حاصل کیا ہے۔ بار کونسل آف انڈیا کی ٹیم اور سارے لوگ کہتے ہیں کہ واقعہ کی سی بی آئی انکوائری ہونی چاہیے۔ ہم آپ (میڈیا) کے سامنے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ جب تک سی بی آئی انکوائری نہیں ہوگی ہم چپ نہیں بیٹھیں گے‘۔ پریس کانفرنس میں موجود کوارڈی نیشنل کمیٹی کے بیشتر اراکین وہ تھے جنہوں نے گذشتہ دو ہفتوں کے دوران چودھری لال سنگھ کے احتجاجی مارچوں، پروگراموں اور جلسوں میں دیکھا گیا۔ لال سنگھ نے باغیانہ اقدامات اٹھانے کا آغاز 17 اپریل کو کیا جب انہوں نے کٹھوعہ کیس کی سی بی آئی انکوائری کے مطالبے کو لیکر جموں میں اپنی سرکاری رہائش گاہ سے ضلع کٹھوعہ تک ریلی نکالی جس کے دوران انہوں نے متعدد مقامات بشمول ستواری چوک جموں، سانبہ اور کٹھوعہ میں اپنے حامیوں سے خطاب کیا۔ کٹھوعہ واقعہ کی وجہ سے ریاست کی مخلوط حکومت میں شامل دو بھاجپا وزراءچندر پرکاش گنگا اور لال سنگھ کو گذشتہ روز اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ بی جے پی کے اِن دو وزراءنے یکم مارچ کو ضلع کٹھوعہ میں کمسن بچی کے عصمت دری و قتل کیس کے ملزمان کے حق میں ہندو ایکتا منچ کے بینر تلے منعقد ہونے والے ایک جلسہ میں شرکت کرکے سول و پولیس انتظامیہ کے عہدیداروں کو گرفتاریاں عمل میں نہ لانے کی ہدایات دی تھیں۔ کٹھوعہ میں جلسہ سے خطاب کے دوران ان وزراءنے ایک مخصوص کیمونٹی کے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ کیس کو سی بی آئی کے حوالے کیا جائے گا۔ تاہم دونوں مستعفی وزراءکا کہنا ہے کہ انہیں پارٹی کی طرف سے وہاں جانے کے لئے کہا گیا تھا۔ مستعفی ہوجانے کے دن سے لیکر اب تک لال سنگھ نے متعدد احتجاجی پروگراموں کا انعقاد کرکے کٹھوعہ واقعہ کی سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ کیا۔ تاہم جمعرات کو جب بار کونسل آف انڈیا کی ٹیم نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پڑھ کر سنائی تو اس کے محض ایک روز بعد لال سنگھ کے حامیوں نے ’کوارڈی نیشن کمیٹی‘ بنا ڈالی۔ بار کونسل کی پانچ رکنی ٹیم جس نے گذشتہ ہفتے جموں کا دورہ کیا، نے اپنی رپورٹ میں بار ایسوسی ایشن جموں اور بار ایسوسی ایشن کٹھوعہ کو کلین چٹ دیتے ہوئے واقعہ کی سی بی آئی انکوائری کی مانگ کو جائزہ قرار دیا ہے۔ بار کونسل نے اپنی رپورٹ میں کٹھوعہ کے متاثرہ خاندان کی وکیل دیپکا سنگھ راجاوت کے الزامات کو بھی مسترد کردیا ہے۔ کٹھوعہ واقعہ کے ملزمان کے حق میں گذشتہ ماہ ترنگا ریلی نکالی والی ’ہندو ایکتا منچ‘ کے علاوہ بار ایسوسی ایشن جموں، بار ایسوسی کٹھوعہ اور پنتھرس پارٹی بھی کٹھوعہ واقعہ کی سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ کررہی ہیں۔ لال سنگھ کی کوارڈی نیشن کمیٹی کے ایک رکن نے کمیٹی کا ایجنڈا عام کرتے ہوئے کہا ’ریاستی حکومت پر تو پہلے ہی دباو¿ بن گیا ہے۔ اب ہم مرکزی سرکار پر بھی دباو¿ بنانے کی کوشش کریں گے۔ ہم احتجاجی مارچوں کا انعقاد کریں گے اور ضرورت پڑی تو ہڑتال کی کالیں بھی دینا شروع کریں گے۔ ہم اس کے ذریعے حکومت کو یہ بتائیں کہ جموں کے لوگ کیا چاہتے ہیں‘۔ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا ’وہاں (کٹھوعہ) کی کیمونٹی نے اپنا کیس پولیس کو دے دیا اور پولیس نے باضابطہ طور پر انکوائری بھی شروع کی۔ پہلی انکوائری ہوئی تو متاثرین مطمئن نہیں ہوئے۔ اُن کے کہنے پر کیس کی تحقیقات کی ذمہ داری پولیس کی دوسری پارٹی کو دی گئی۔ لیکن وہ کہنے لگے کہ ہم اس انکوائری سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ اس کیس میں سیاست آنا شروع ہوگئی۔ اس کیس میں سب سے پہلی مداخلت کشمیر کے لیڈروں کی طرف سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد جموں کے لیڈر بھی میدان میں آگئے‘۔ انہوں نے کہا ’اس کے بعد کیس کی تحقیقات کی ذمہ داری کرائم برانچ پولیس کو دی گئی۔ اس میں سب سے زیادہ سیاست ہوئی۔ جن کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی، ان کا کردار دیکھنے والا ہے۔ ایک افسر ریپ اور قتل کیس میں جیل میں بند رہ چکا ہے جبکہ دوسرے افسر پر جعلسازی کا الزام ہے۔ قوم دشمن عناصر چاہتے تھے کہ کیس کی انکوائری ہماری مرضی کے حساب سے ہونی چاہیے۔ کرائم برانچ نے تحقیقات کے دوران پورے گاو¿ں کے لوگوں کو ہراساں کیا‘۔ مذکورہ رکن نے مزید کہا ’ہم چاہتے ہیں کہ متاثرہ لڑکی کو پورا انصاف ملے۔ اتنا کنفوژن پیدا کیا گیا ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کس کی بات کو سچ مانا جائے‘۔ واضح رہے کہ ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاو¿ں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری کو اُس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نذدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولیس نے گذشتہ ہفتے واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا۔ کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا ہے کہ آٹھ سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گاو¿ں کے کچھ افراد نے عصمت ریزی کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور ہجرت پر مجبور کرانا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔