لاتقنطُومِن رحمتہ اللہ

0
0

علی محمداپنی بیوی کو دردزہ شروع ہوتے ہی قریب کے ہیلتھ سنٹر لے گیا، وہاں کے ڈاکٹرنے معائنہ کے بعد زچہ بچہ دونوں کوبچانے کیلئے شہرکے بڑے ہسپتال لے جانے کی صلاح دی کیونکہ ڈاکٹرکے مطابق Caeserian Section کے بغیربچہ کی پیدائش ناممکن نظرآتی تھی ۔
پرائیویٹ ہسپتال والوں نے معائنہ کے بعد Caeserian Section سے بچہ باہر نکالنے کی صلاح کوصحیح مانا اوراس کے لئے فوراً16000 روپے جمع کرنے کیلئے کہا۔ ایسانہ کرنے کی صورت میں ماں بچہ دونوں کوخطرہ ہوسکتاہے۔
16000 روپوں کاسن کرعلی محمد پریشان ہوا۔کیونکہ اس کے پاس صرف 200 روپے تھے۔ وہ مزدوری کرکے اپنااوربیوی کاپیٹ پالتاتھا ۔
ادھر 16000 روپے کی مانگ اور اُدھربیوی کالگاتار دردسے کراہنے کی آواز ۔
ان دونوں وجوہات سے علی محمدکادماغ مائوف ہوگیا۔اسکوکچھ نہیں سمجھ آرہاتھا کہ کیاکرے۔
اتنے میں نرس نے آکر کہہ دیاکہ جب تک روپوں کاانتظام ہوجاتاہے تب تک مریضہ کوہسپتال کے باہر بنچ پربٹھائویالٹائو۔
علی محمدنے ایساہی کیا۔
اب دونوں میاں بیوی حیران وپریشان غم میں ڈوبے رورہے تھے کہ کیاکیاجائے کہ کہاں سے اتنی رقم کاانتظام کیاجائے۔
اتنے میں دردزہ اوربڑھتاگیا ۔علی محمدکبھی اِدھرتو کبھی اُدھربے حسی میں اپنے بال نوچتا،آنسوبہاتا ۔چھاتی پیٹتا ۔اپنے آپ سے باتیں کرتا کہ کس طرح اس غم سے آزادہو۔
اتنے میں اُدھرسے ایک شخص گزرا ۔پوچھنے پر علی محمد نے اسکو چندہی لفظوں میں اپنی بپتاسنائی۔
بھائی صاحب ! شکل اوروضع قطع سے توآپ بہت نیک آدمی دکھائی دیتے ہو۔
میں توگنہہ گارہوں۔اپنے اللہ سے مانگو ،وہ ضرورآپکی دعاسنے گا ، آپکی پریشانی دورکرے گا۔ہوسکے تومیرے لئے بھی مانگنا ۔
اس شخص نے علی محمد کے سرپر ٹوپی اور چہرے پرداڑھی دیکھ کرکہا۔
اس شخص نے جس کابعدمیں پتہ چلا کہ اس کانام منوہرلال تھا اور20 دنوں سے اُسکی بیوی ICU میں پڑی Critical حالت میں زندگی اورموت کی کشمکش میں تھی۔
ڈاکٹروں نے اسکوکہاتھا کہ اسکی بیوی کی حالت ایسی ہے کہ آپریشن کرویانہ کروبچنے کے 50/50 چانس ہیں ۔
بہت سوچ وچارکے بعدمنوہرنے لکھ کردیا کہ وہ یہ Risk لینے کیلئے تیارہے اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے
اُس نے آپریشن کیلئے اپنی رضامندی لکھ کردی کہ مرنے جینے کاوہ خودذمہ دار ہے۔
اللہ سے دعا مانگنے کی بات سن کر علی محمد جیسے ڈوبنے والا سمندرکی گہرائی سے باہر نکل آیا۔وہ ایک جھٹکے سے کھڑا اُٹھا۔اس نے ہمت اکٹھی کی۔وضوکیا۔دورکعت نمازپڑی۔ اللہ سے گڑگڑا کر دعائیں مانگیں ۔ اس نے اللہ سے کہا میرے اللہ :
جس کے پاس دولت ہے ،وسائل ہیں اورجس کے پاس نہ روپیہ پیسہ ہے اورنہ وسائل ہیں ۔دونوں ہی تیرے در کے سوالی ہیں۔
یہ شخص منوہرروپیہ پیسہ والاہے یہ بھی پریشان ہے اورمیرے پاس توکچھ بھی نہیں ہے۔میں بھی پریشان ہوں۔ہم دونوں کوہی نہ روپوں پیسوں پر اورنہ وسائل پربھروسہ ہے۔بھروسہ ہے توصرف اورصرف تیری رحمت وعنایت پر۔
میری التجا ہے کہ پہلے تواس منوہر کی پریشانی دورفرماکیونکہ اسی نے مجھے جگایا اورتجھ سے مانگنے کیلئے اکسایا۔ تیارکیااور پھراسکے بعدمیری پریشانی دور کر
میں توبیوی کی پریشانی کی وجہ سے اپنے آپ کوبھی بھول گیاتھاکہ کہاں ہوں ،کیاکروں کیانہ کروں۔ غم سے نڈھال ہوچکاتھا۔
اسی شخص نے مجھے جھنجھوڑ دیااور دعامانگنے کیلئے آمادہ کیا ۔ میں تیری رحمت سے ناامید نہیں ہوں۔مجھے تجھ پرپوراپورابھروسہ ہے۔
علی محمد جوں ہی نمازاوردعاسے فارغ ہوا۔ تواُسی وقت اندرسے وارڈ بوائے دوڑتاہوا منوہر کے پاس آیا اوراسکوکہاجناب!آپکی بیوی کوہوش آگیاہے وہ آپ کوڈھونڈ رہی ہے۔
یہ سن کر منوہرچھلانگ لگاتاہوا اندرہسپتال کی طرف لپکا ۔ جاتے جاتے اس نے علی محمدکوکہا ۔آپ پریشان نہ ہوں۔میں آپکے پیسے ابھی جمع کروں گا۔اللہ نے آپ کی دعائیں ۔سن لیں۔
میری فکر دور ہوگئی۔
میں ابھی آپکے 16000 روپے جمع کردوں گا۔
آپکی پریشانی بھی دُور ہوجائے گی۔
ادھر علی محمد کی بیوی کی تکلیف نے اورزیادہ شدّت اختیار کی۔اس نے چلاتے ہوئے علی محمدکوکہاکہ ادھر ذراپردہ کرو۔شائد بچہ باہرآنے والا ہے ۔
علی محمدنے تھوڑابہت پردہ کیاہی تھاکہ اسکی بیوی کادردیکدم کم ہوااورساتھ ہی بچہ بھی رحم مادرسے باہرآیا۔
علی محمداوراسکی بیوی نے سکھ کاسانس لیا۔اللہ کاشکر ادا کیا۔
اس طرح علی محمد کی دعا اورمنوہر کی انسانی ہمدردی نے اپنااپناکمال دکھایا۔
سچ ہے کہ انسان کووسائل سے کہیں زیادہ اللہ کے فضل پربھروسہ کرناچاہیئے۔ اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوناچاہیئے۔

ڈاکٹرعبدالمجیدبھدرواہی
8825051001

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا