’’ قربانی جیسی عظیم سنت کو دکھاوے نے گھیر لیا ہے ‘‘

0
0

قیصر محمود عراقی

حضرت ابراہیم ؑکی یہ قربانی انسانیت کے لئے روشن مثال اور مسلمین کے لئے اطاعت و ایثار کا ایک حسین نمونہ ہے ۔ لیکن اس قربانی کے اہداف کا شعور رکھ کر اس پر عمل کر نا نہایت ضروری ہے ۔کیونکہ سنت ابراہیمی و اسماعیلی کو پورا کر نے کے لئے فقط جانوروں کی قربانی ضروری نہیں بلکہ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات ، غلطیوں ، کوتاہیوں اور خطائوں کی قربانی ضروری ہے کیونکہ بطور ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کے حضور ہمارے قربان کر دہ جانور کا گوشت ، پوست اور خون نہیں پہنچتا بلکہ ہمارا اہداف، ہماری نیت ، ہمارا ایثار ، ہمارا خلوص اور ہمارا جذبہ پیش ہو تا ہے ۔ جانور کی قربانی ایک علامت ہے اور اس بات کے عہد کا درس ہے کہ اگر ہمیں اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کو پیش کر نا پڑے اور اللہ کے احکامات کی پیروی اور اللہ کے نظام کے استحکام کے لئے ہمیں عزیز تر ین چیز بھی قربان کر نے کا مرحلہ درپیش ہو تو ہم اطاعت خداوندی میں قطعاً گریز نہیںکر ینگے ، بلکہ نیک نیتی اور خلوص دل کے ساتھ قربانی پیش کر ینگے ۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ خیال رہے کہ جان کی قربانی سے قبل بھی بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جنہیں قربانی کر کے انسان خدا کی اطاعت کے تقاضے پورے کر سکتا ہے ۔ اس میں دین کے استحکام و تر ویج کے لئے مال کی قربانی ، دین و ایمان کی صحیح تصویر پیش کر نے کے لئے غلط نظریات کی قربانی، دین و اسلام کی بہترین شناخت کے لئے غلط رسومات اور منفی عقائد کی قربانی ، اشاعت ِ دین و اسلام کے لئے اللہ کے راستے کی قربانی ، ترویج دین کے لئے وقت کی قربانی و علاقائی تعصبات کی قربانی شامل ہیں ۔ ہمیں اس بات کا بھی علم ہو نا چاہیئے کہ عید الا ضحی کا صحیح حق تو اس وقت ادا ہو گا جب ہم اس کے تقاضوں کو پورا کر ینگے اور اس کی ضرورت ، اہمیت ، افادیت اور مقصد یت پر غور کر کے اس کو عملی جامہ پہنا ئینگے ۔ اپنے رشتہ داروں ، عزیزوں اور اہل و عیال کے ساتھ حسن سلو ک اور احسان بھی قربانی ہے ، اپنی انا اور ضد کو چھوڑ دینا اور معاف کر دینا بھی قربانی ہے ۔ باہم اختلافات اور روز مرہ معاملات میں ایک دوسرے کی غلطیوں کوتاہیوں سے در گزر کر نا حق پر ہو تے ہو ئے بدلہ نہ لینا ، اور معاف کر دینا بھی قربانی ہے ، مظلوم کی مدد کر نا اور حق کا ساتھ دینا بھی قرب الہیٰ ہے ۔ قارئین محترم ! ہم بچپن سے یہ محاورہ سنتے آ رہے ہیں کہ ’’ نیکی کر دریا میں ڈال ‘‘ مگر یہاں تواس کے بر عکس ہو تا ہے ۔ سب سے پہلے توآج کے اس نفسانفسی کے عالم میںکسی انسان کے پاس اتنا وقت نہیں ہو تا کہ وہ کسی غریب کی مدد کر سکے اور اگر کوئی انسان کسی کی مدد کر بھی دے تو چند افراد ہیں جو اس محاورے پر اُ تر تے ہیں ورنہ زیادہ تر لوگ تو دریا میں ڈالنے کی بجائے دنیا کے سمندر میں چیخ چیخ کر سب کو بتا تے ہیں اور جس شخص نے مدد مانگی ہو تی ہے وہ ساری زندگی ایسے لوگوں کے سامنے شرمندہ ہو تا رہتا ہے ۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جا تا ہے کہ اس سے بہتر تو بھوکا مر نا منظور تھا مگر ایسے لوگوں سے کبھی مدد نہ مانگتے ۔ قائین ! جس چیز نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا اور جو حقیقت پر مبنی بھی ہے، وہ میں اپنے اس کالم کے ذریعہ آپ سے شیئر کر نا چاہتا ہوں ۔ ہو سکتا ہے شاید میرے اس کالم کی بدولت بہت سے گمراہ لوگ اپنی سوچ کو بدل کر راہ راست پر آ جائیں ۔ آج کل کے اس دور میں سنت ابراہیمی کو بھی دنیا داری کے طریقے سے ادا کیا جا رہا ہے ۔ قربانی کا فرض دیکھا دیکھی کی بنا پر ادا کیا جا رہا ہے ، ہر شخص اپنے عزیز و اقارب اور محلے داروں کو نیچا دکھانے کے لئے جانور مہنگے سے مہنگا خرید تا ہے ، ان کی کوشش ہو تی ہے کہ ہمارا جانور زیادہ مہنگا ہو تا کہ رشتہ داروں اور محلے داروں میں ہمارا نام سب سے اونچا ہو ۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہو تے ہیں جو مہنگا جانور نہیں خرید سکتے اس لئے وہ عید سے ایک دن پہلے جانور لے کر آتے ہیں اور عید والے دن قربان کر تے ہیں ۔ جو لوگ مہنگا جانور خرید کر لاتے ہیں وہ ہر روز اُس جا نور کو پورے محلے میں گھوماتے پھر اتے ہیں تا کہ سب کو معلوم ہو جا ئے کہ انہوں نے کتنا مہنگا جانور قربانی کے لئے خرید ا ہے،جب کہ اسلام میں جانور کی قیمتی ہو نے یا نہ ہو نے سے کوئی سروکار نہیں ۔ اگر آپ نے دس ہزار کا جانور لیا ہے یا دس لاکھ کا اس کا سنت ابراھیمی سے کوئی تعلق نہیں ، قربانی تو نیت پر ہو تی ہے۔ اگر آپ نے کوئی جانور دکھاوے کے لئے لیا ہے تو اس کا اجر بھی دنیا ہی میں ملے گا ۔ کیونکہ آپ کا اور آپ کے جانور کا چر چا پورے محلے میں ہو رہا ہو تا ہے اور ہر کوئی آپ کی بڑائی کر رہا ہو تاہے ۔ اللہ کو تو آپ کی نیت سے غرض ہے ، جانور کی قیمتی ، خوبصورتی یا وزن سے نہیں ۔ دنیا دار قربانی کر نے والوں کی سوچ ادھر ہی ختم نہیں ہو تی بلکہ جب قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم کی باری آتی ہے تو اس میں بھی اللہ کی بجائے دنیا داری کو ہی اہمیت دیتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو اچھا اچھا گوشت اپنے فریز میں رکھ لیتے ہیں ۔ اس کے بعد جب باہر گوشت تقسیم کر نے کی باری آتی ہے تو اس میں سے بھی جو کچھ اچھا گوشت ہو تا ہے وہ اپنے خاص رشتہ دارروں اور دوستوں کے گھر بھیج دیا جا تا ہے ۔ بعد میں جو ہڈی ، چربی اور بچا کچا گوشت رہ جا تا ہے وہ دو چار غریبوں میں تقسیم کر کے اس فرض کو پورا کر نے کی کوشش کر تے ہیں۔عید کے بعد یہ باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ ہم نے فلاں کے گھر اتنا گوشت بھیجا تھا اس کے مقابلے میں انہوں نے بہت تھوڑا گوشت بھیجا ہے یعنی گوشت بھی ان کے گھروں کو بھیجی جا تی ہیں جن کے گھر وں میں قربانی ہو تی ہیں ۔ وہ اس لئے کہ ہم اگر دوبوٹی بھیجنگے تو وہ چار بوٹی بھیجینگے ، اور اسی چکر میں جو اصل حقدار ہو تے ہیں ہم انہیں بھول جا تے ہیں یا دروازے سے دھتکار دیتے ہیں ۔کیا سنت ابراہیم ؑ اسی کا نام ہے ؟ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کی رضا کے لئے اپنے بیٹے کو قربان اسی لئے کیا تھا؟ کہ قبربانی میں سے اچھا گوشت اپنے لئے محفوظ کر لیں اور نا پسند یدہ گوشت غریب غرباء میںبابٹ دیں ۔ اسلام میں ایسا کہاں لکھا ہے کہ قربانی میں اچھی چیز اپنے لئے اور نا پسند یدہ چیز اللہ کی راہ میں دے دو۔ اگر دیکھا جا ئے دور حاضر میںاللہ کی خوشنودی حاصل کر نے والے متعد د کام و فرائض معاشرے کی خوشنودی حاصل کر نے کی صورت اختیار کر تے جا رہے ہیں ، قربانی جیسی عظیم سنت کو دکھاوے نے گھیر لیا ہے ۔ لوگ اپنی انا کے لئے مہنگے جانور خریدنے پر تلے ہو ئے ہیں ، انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اللہ نیتوں کو دیکھتا ہے دکھاوے کو نہیں ، قربانی ، قربانی کم ماڈلینگ اور دکھاوا زیادہ بن گئی ہے ۔ جس چیز کو دین اسلام میں ناپسند کیا گیا ہے ہم مسلمان وہی کام پورے دل جمعی کے ساتھ سر انجام دیتے ہیں ۔ اسی کلچر نے اس روحانی عبادت کو بھی پیشہ ور اور مادی بنادیا ہے ، اس عمل کی وجہہ سے مادہ پر ست لوگ اسیے عوام جو قربانی نہیں کر سکتے کو دکھ دیتے ہیں کیونکہ ان کی ان حرکتوں سے کئی سفید پوش افراد معاشرے میں اپنی عزت اور سفید پوشی کے لباس کو میل سے بچانے کے لئے ادھار لے کر بھی یہ سنت پوری کر نے پر مجبور ہو جا تے ہیں تا کہ زمانے کی تیغ و تلوار جیسی باتوں سے خود کو زخمی ہو نے سے بچا سکیں ۔ اصل میں ہم بطور رسم و رواج کے تحت قربانی کا عمل دہراتے ہیں اگر ایسا نہیں ہو تا تو کیا آج ہم گوشت سے اپنی فریج کو بھرتے ؟ قربانی کیا ہے ؟ قربانی کا اصل سبق ہی نہیں سکیھا ہم نے اور پھر قربانی کا درس ، قربانی کا مقصد یہ سب ہم کو بتائے گا کون؟ کون ہماری توجہ اس طرف دلائے ؟ ہمارے عالم ،پیش امام، خطیب اور مولوی سب کے سب سنی ، شیعہ ، وہابی م دیوبندی ، بریلوی اور فرقہ واریت کی جنگ میں کود پڑیں ہیں ۔ سب کا اپنا اپنا مسلک ہے ، اپنی اپنی مسجد ہے ، اپنی اپنی تفسیر اور فتوے ہیں ۔ یہ تو ایک دوسرے کو کفر کے سرٹیفیکیٹ جاری کر تے اور اپنے مومن ہو نے کی دلیل بیان کر تے نظر آتے ہیں ۔ ایسی صورتِ حال میں مسلمانوں کو عید قرباں کا درس کون سمجھائے گا ؟ قربانی کے موقع پر یہ زیادہ سے زیادہ جانوروں کے مطابق بتاتے ہیں کہ ایک جانور میں بیسوں عیب بتائینگے کہ یہ یہ عیب والی جانور کی قربانی درست نہیں لیکن یہ کبھی نہیں بتائینگے کہ قربانی دینے والے کے اندر بھی ایک جو سب سے بری عیب ہے وہ عیب بھی نہیں ہو نی چاہیئے ورنہ قربانی جائز نہیں ہو گی ۔ اور وہ عیب ہے حرام مال سے خریدی گئی جانور کی قربانی ، کیونکہ اگر یہ بات ببانگ دہل اگر یہ علماء منبر سے کہہ دیں تو شاید جانوروں کے چمڑے ان کے مدرسے کو نہ ملے کیونکہ اکثریت لوگوں کی وہ ہے جو اپنی کمائی پر غور نہیں کر تے کہ آیا وہ حرام کا ہے یاحلال کا ۔ اگر یہ علماء یہ حرام حلال کا فرق بتا دیں تو چمڑے میں کمی آجا ئے گی اور جب چمڑے کی کمی ہو گی تو رقم میں کمی ہو گی اور رقم کم ہو گی تو ان کے جیب کیسے بھرینگے ۔بہر حال ہمیں چاہیئے کہ قربانی کر تے ہو ئے ہم وہ عمل کریں جو اسلام کے مطابق ہو نہ کہ دنیا دکھاوے کے لئے اپنے سارے نیک اعمال ضائع کر بیٹھیں ، پیسہ بھی خرچ کریں اور اس کا ثواب بھی حاصل نہ کر سکیں ۔ دنیا تو آپ کے قصیدے پڑھ دیگی مگر اللہ تعالیٰ وہ ثواب نہیں دیگا جو آپ کو چاہیئے ۔ اس لئے قربانی کر نے سے پہلے ، جانور خریدنے سے پہلے حلا ل رقم کا بندو بست کریں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں حلال رزق عطا فر مائے اور بے لوث قربانی کر نے کی توفیق بخشے ۔ آمین
6291697668

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا