فلسطین کی سرزمیں صرف فلسطینی مسلمانوں کی ہے

0
0
شیخ یاسر عبدالباقی
فلسطین کی  اہمیت ہمارے لیے صرف یہ نہیں کہ یہ ہمارا قبلہ اول رہا ہے اور اللہ کے رسول  کو یہاں سے معراج ہوئی بلکہ اس لیے  بھی ہے کہ مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء کے سچے جانشین اور وارث ہیں۔ یہ مقدس شہر بہت سے انبیا ئکرام کا جا مسکن بھی رہا ہے۔ اس لیے  اس کو "ارض انبیاء ” یعنی ‘ انبیاء  کی سرزمین’ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سرزمین یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک بھی مقدس رہا ہے۔ عیسائیوں کاماننا ہے کہ یہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور کچھ عیسائیوں  کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہیں انھیں سولی پر چڑھایا گیا۔
یہودیوں کے مطابق یہ سرزمیں حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام ان کی تعمیرات اور یادگاریں ہے۔ الغرض اگر دیکھا جائے تو یہ تینوں اپنے اپنے دعوے کے مطابق اس علاقے پر اپنا حق سمجھتے ہیں۔ فلسطین کی سرزمین کو سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آباد کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام  جن کا مقام و مرتبہ تینوں (مسلمان ، یہودی اور عیسائی) کے نزدیک بے حد معزز  اور قابل احترام ہے۔ حضرت ابراہیم  علیہ السلام نے حضرت اسماعی لکو مکے میں آباد کیا اور پھر حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ یروشلم کے علاقے یعنی فلسطین میں رہنے لگے۔ سب سے پہلے اس شہر میں کنعانی عرب آکر آباد ہوئے۔ آج سے تقریباً 4500 سال پہلے یعنی ( 2500 ق۔ م)۔ فلسطین کا پرانا معروف نام ’’سرزمین کنعان‘‘ ہے کیونکہ فلسطین کی طرف ہجرت کرنے والا سب سے پہلا گروہ یہی کنعانی عربوں کا تھا۔ موجودہ فلسطینی ان ہی کنعانیوں کی اولاد ہیں۔ (فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں۔ص 55)توریت کے مطابق حضرت ابراہیم  علیہ السلام سے اللہ نے وعدہ کیا تھا کہ یہ سرزمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وارثوں کے لئے ہے۔
اس لیے اگر توریت کے مطابق دیکھا جائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جو حقیقی جانشین ہے یہ زمین بھی اسی کی ہے۔اسرائیل کو کسی بھی بنیاد پر اپنی ریاست قائم کرنے کا حق نہیں ہے۔ نہ ہی قومی و نسبی بنیاد پر اور نہ ہی مذہبی بنیاد پر۔اگر نسبی بنیادوں پر  اگر یہودیوں کو حضرت ابراہیم  علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام سے  نسبت حاصل ہے  تو وہیں حضرت محمد ﷺ اور تمام مومنین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے نسبت رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے بھی مسلمانوں کو حق حاصل ہے۔اگر مذہبی بنیادوں پر دیکھا جائے تو یہ شہر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے اور ان کے بعد  ان کی ذریت کا ہے۔ قرآن ?میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہترین نمونہ بتایا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے.ترجمہ : تم لوگوں کے لیے ابراہیم ( علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔
  حضرت ابراہیم کی ذریت کی بات کریں تو جو ان کی تعلیمات کو مانتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہیں ، وہی دراصل ان کی ذریت میں سے ہیں۔ جب نوح علیہ السلام کے بیٹے نے نوح علیہ السلام کی تعلیمات نہیں مانی اور کفر کیا تو اللہ ربّ العزت نوح علیہ السلام کی دعا کے جواب میں فرماتا ہے کہ وہ تمہاری ذریت میں سے نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاہے نبی کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو اگر نبی کی تعلیمات کا انکار کردے تو وہ ان کے اہل وعیال میں شمار نہیں کیا جا ئیگا۔اس کی روشنی میں اب اگر دیکھیں تو تمام چیزیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں۔  آج دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنتوں پر عمل پیرا ہیں اور ان کی تعلیمات کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔ حج جو کہ اسلام کا ایک اہم رکن ہے تمام مسلمان اپنی زندگی میں کم سے کم ایک بار حج کا فریضہ انجام دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی پیروی کرتا ہے۔ اس کے ایک ایک رکن کی ادائیگی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خوبصورت طرز کے مطابق ہی ادا کرتا ہے۔ اسی طرح  قربانی بھی ، جو اسلام کے مذہبی شعائر میں سے ہے۔ اس عمل کو بھی  مسلمان ہر سال عید الاضحی کے موقع پر ان کی سنت کو زندہ کرتا ہے۔ ان تمام امور کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ٹھیک ٹھیک طریقے کے مطابق  انجام دیتا ہے۔ اس کے علاوہ نماز جیسی اہم عبادت بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درود بھیجے بغیر ناقص رہتی ہے۔  ہم نماز میں سلام پھیرنے سے پہلے حضرت محمد   کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بھی درود بھیجتے ہیں۔ اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اصل تعلیمات اور ان کی سنت پر عمل پیرا ہیں۔ علاوہ ازیں قرآن مجید  خود یہ گواہی دے رہا ہے۔
” حضرت ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی ، بلکہ وہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے یکسو مسلم تھے۔”  (سورہ ال عمران:67)۔  یعنی حضرت محمد کا طریقہ حضرت ابراہیم  علیہ السلام کے طریقے پر ہے۔  آگے کہ آیتوں سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ،”ابراہیم ( علیہ السلام ) کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی ، نیز یہ نبی ( آخرالزماں صلی۔اللہ۔علیہ۔وآلہ۔وسلم ) اور وہ لوگ ہیں جو ( ان پر ) ایمان لائے ہیں۔۔۔ (ال عمران: 68)”اس شخص سے بہتر اور کس کا طریق زندگی ہو سکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سرتسلیم خم کردیا اور اپنا رویہ نیک رکھا اور یکسو ہوکر ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کی پیروی کی۔اس ابراہیم (علیہ السلام ) کے طریقہ کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا۔” ( النسائ￿  : 125)
” قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم  (  علیہ السلام )  کی ملت پر۔  اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام ’’ مسلم ’’ رکھا تھا اور اس ?قرآن? میں بھی (تمہارا یہی نام ہے    تاکہ رسول  ( صلی اللہ علیہ وسلم )  تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔۔( الحج : 78 )
ان آیتوں سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی  ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سچے جانشین مسلمان ہی ہیں۔کیوں کہ  ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے بنی اسرائیل کے انبیاء  نے توحید کی بنیاد پر یہاں حکومت کی جبکہ یہودی اس راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنی کتابوں میں تحریفیں کر دیں  اس کے علاوہ  انہوں نے کئی نبیوں کا قتل بھی کیا۔ اس لیے مذہبی اتباع کی بنیاد پر اگر دیکھا جائے تو اس مقدس شہر پر مسلمانوں کو  یہ حق حاصل ہے نہ کہ یہود کو۔ اگر نسبی اعتبار سے بھی دیکھیں تو یہ حق حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ثابت ہے۔
        موجودہ دور میں فلسطین کامسئلہ صرف مظلوم فلسطینیوں کا نہیں بلکہ دنیا میں بسنے والے تمام مسلمانوں کا ہے، حتیٰ کہ ہر انصاف پسند شخص کا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ ظلم بہرحال ظلم ہے چاہے کسی بھی شکل میں ہو۔ ہر اْس شخص کو اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے جس کا ضمیر بیدار ہو اور جس کے اندر ذرا بھی غیرت و حمیت باقی ہو۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا