فلسطین، اسرائیل تنازہ تاریخ کی روشنی میں

0
0

ڈاکٹر محمد بشیر ماگرے

محل وقوع :۔دنیا کی سب سے پہلی تہذیب (Crete)کریٹے اور فیونیشن کا مسکن لیوانٹ کا ساحل رہا ہے۔جہاں سے دنیا کی تہذیب کا آغاز ہوا تھا۔یہ قدیم تہذیبیں بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر عالم وجود میں آئیں اس ساحلی علاقہ کو (Levant Coast)لیوانٹ کوسٹ کہا جاتا تھا۔ اسی علاقے میں آج کا فلسطین، اسرائیل، جارڈن،سیریا اور قدیم بیبلون شامل ہے۔آج کے مشہور شہر غزہ، بیروت،تل اویو، جروشلم، امان ،جارڈن ہی تاریخ میں Levant Coastکہلاتا تھا۔ یہی وہ علاقے ہیں جہاں سے دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں نے جنم لیا تھا۔ اس علاقے کے جنوب مغرب میں مصر کا سحرائے سینا، مشرق میں عرب کا سحرائی علاقہ، شمال مشرق میں عراق، شمال میں ترکی اور مغرب میں بحیرہ روم پڑتا ہے، اسطرح اس علاقے کی پہچان محل وقوع کے اعتبار سے بڑی اہم اور دنیا میں مرکزیت کی حامل ہے۔
قدیم زمانے میںلوگ ایک جگہ رہائش پذیر ہونے کے بجائے تلاش معاش میں چل پھر کر زندگی بسرکیاکرتے تھے۔آج سے ۴۰۰۰سال قبل لوگ عربستان میں یہاں آکر آباد ہوئے ،پھر ۲۵۰۰ قبل مسیح میں فونیقی کی ایک شاخ جو کنعانی قبیلہ سام جو دریائے فرات کے کنارے ’ار‘ ، عراق کے ایک شہر سے ہجرت کرکے آئی اور اس کے بعد ۲۰۰۰ قبل مسیح میں حضرت ابراہیم علیہ سلام بیت المقدس میں آئے جہاں انہوں نے ایک بیٹے اسحاق علیہ سلام کو آباد کیا ۔حضرت ابراہیم نے اسحاق علیہ سلام کو بیت المقدس میں آباد تھے۔حضرت حاجرہ کے بطن سے دوسرے فرزند حضرت اسماعیل کو مکہ میں آباد کیا ۔حضرت یعقوب علیہ سلام کے ایک بیٹے حضرت یوسف علیہ سلام تھے جن کا دوسرا نام اسرعیل بھی تھا۔ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی، حضرت دائود علیہ سلام،حضرت سلیمان علیہ سلام، حضرت یحیٰ علیہ سلام، حضرت موسیٰ علیہ سلام ،حضرت عیسیٰ علیہ سلام، وغیرہ بہت سے پیغمبر اس سر زمین پر پیدا ہوئے، اسی مناسبت سے یہ خطہ پیغمبروں کی سر زمین کہلایا!
۱۵ہجری (۶۳۷ئ) میں بیت المقدس فتح ہونے کے بعد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے یہودیوں کو بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دی، جب کہ اس سے قبل عیسائیوں نے ان پر پابندی لگا رکھی تھی۔عیسائیوں نے Dome of Rockکو یہودیوں سے بغض کی وجہ سے اس چٹان جس کے اوپر ’’قبتہ الصغرۃ‘‘ بنا ہوا تھا،کو ایک کچڑے کے ڈھیر سے ڈھک دیا تھا! صرف اسلئے کہ یہودی اسے مقدس مانتے تھے۔امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں سے اس کچڑے کو صاف کیا، مسلمانوں کے نذدیک اس کی اہمیت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی معراج والی رات، اس چٹان پر سے براق اوپر آسمانوں کو اڑا تھا، اور یہاں ہی حضور ﷺ نے تمام انبیاء کی امامت بھی کرائی تھی۔
پہلے پہل جب شرنارتھی کے طور پر یہودی یہاں بسنے کو آئے تو مسلمانوں نے انہیں خوش آمدید کہا، اپنے پریواروں کے سمیت اس خطہ میں آئے اور رہنے لگے۔یہ علاقہ ہمیشہ سے مسلمانوں کا رہا ہے اور ۱۹۱۷ء تک پورا لیوانٹ کا علاقہ مسلمانوں کے رہائش گاہ تھی جو صدیوں سے یہاں آباد چلے آرہے تھے۔یہودی بستیوں کی تفصیل جو ایک نقشے کے زریعے بھی دکھائی گئی ہے اسطرح تھی:۱۵۱۷ء میں مسلمان اس علاقے میں۹۸فیصد تھے اور یہودی صرف ۱۔۷ فی صد، ۱۸۸۲ء میں مسلمان ۹۲ فی صد اور یہودی ۸ فیصد، ۱۹۱۷ء میں مسلمان ۹۱ فی صد اور یہودی ۹ فی صد تھے۔ روز بروز یہودیوں کی بستیاں بڑھتی گئیں اور یہ مذید علاقوں پر قابض ہوتے گئے اور علاقے کے مالک بن بیٹھے۔
پھر جب بھی صلیبی جنگ کے بعد عیسائی بیت المقدس پر قابض ہوئے تو مسلمانوں اور یہودیوں کو قتل عام کرتے رہے،سلطان صلاح الدین ایوبی کے فتح بیت المقدس کے بعد طویل عرصہ تک سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں یہودی بہت ہی قلیل تعداد میں رہے، لیکن عیسائی ظلم و ستم و زلت و خواری والی زندگی سے بہتر حالت میں رہے۔انیسوی صدی میں یورپ اور روس میں یہودیوں کے خلاف عیسایوں میں شدید نفرت اور مظالم پھر سے ابھر آئے۔ان حالات میں یہودیوں نے عیسایوں کے ظلم سے تنگ آکر نقل مقانی کی ، جرمنی، مشرقی یورپ اور روس سے یہودی لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوگئے۔ان کی ایک بڑی تعداد امریکہ ،برطانیہ اور فلسطین میں آگئے۔اسی دوران Zoinism صہونیت کی تحریک نے جنم لیا ، اس تھریک کا مقصد یہودیوں کے لئے اپنا ملک قائم کرنا تھا۔اور ا س کے لئے انہوں نے فلسطین کو چنا،یہ تحریک یورپ، امریکہ اور فلسطین کی سر زمین پر زور پکڑتی گئی۔اسی دوران یہودیوں کی ایک بڑی تعداد فلسطین میں آباد ہوگئی، جنہوں نے زمینیں بھی خریدیں، یہ سلطنت عثمانیہ کا آخری زمانہ تھا۔
پہلی جنگ عظیم (1914-ئ1918ئ)میں سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا، تو جب جرمنی جنگ ہار گیا تو برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا،جس کی وجہ سے مختلف علاقے الگ الگ طاقتوں کے قبضے میں آگئے۔فلسطین میں بھی برطانیہ کا قبضہ ہوگیا۔1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے ایک اعلان کیا ،جس کو بالفور(Belfore Declaration ) کہا جاتا ہے ،اس میں یہ طے کیا کہ فلسطین میں برطانیہ ایک آزاد یہودی ریاست قائم کرنے میں مدد کرے گا۔اسطرح برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے اور منظم ہونے میں مدد کی۔۱۹۲۰ سے ۱۹۴۰ کی دہائیوں کے درمیان اس علاقے میں پہچنے والے یہودیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ۔ یہودی ی یہاں آنے کی وجہ نازی ہولو کاسٹ تھا جس سے جان بچا کر مسلمانوں کی مہربانی سے اس علاقہ میں آکر بسے تھے۔ ۱۹۲۲ء میں لیگ آف نیشنز جو اقوام متحدہ کی پیشرئو تھی اس کو توثیق کر چکی تھی۔جب یہودیوں کے خلاف عرب مسلمانوں میں شدید رد عمل پیدا ہونے لگا اور دونوں کے درمیان جھڑپیں ہونی شروع ہوئیں تو برطانیہ نے فلسطین سے کوچ کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اقوام متحدہ سے اس علاقے کے بارے میں فیصلہ کرنے کی سفارش کردی۔1947ء میں اقوام متحدہ نے فیصلہ دیا کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے: مغربی علاقہ جہاں یہودیوں کی اکثریت آباد تھی وہاں یہودی اپنی ریاست قائم کریں اور مشرقی علاقہ میں فلسطینی عرب مسلمانوں کی ریاست قائم ہو جائے۔جبکہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رہے۔یہودیوں نے اس فارمولے کو قبول کر لیا ، جبکہ فلسطینیوں اور عرب مسلمانوں نے اس کو یکسر مسترد کردیا۔
14مئی1948ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا تو اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی،یہ جنگیں 1967ء تک چلیں ۔جنگ کے شروعات میں اسراعیل نے مغربی بیت المقدس پر قبضہ کرلیا اور فلسطین کے کچھ علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لئے!بقیہ فلسطین کے مختلف علاقوں پر مصر، شام، اردن اور لبنان کا قبضہ ہوگیا۔ بیت المقدس کا مشرقی علاقہ ، جس میں حرم شریف اور مسجد اقصیٰ سمیت مقدس مقامات ہیں،وہ اردن کے قبضے میں تھا۔یہ صورت حال 1967ء تک قائم رہی!1967ء کے عرب اسرائیل جنگ کے اختتام پر اسرائیل کا پورے فلسطین پر قبضہ ہوگیا،اور مقدس مقامات بھی پہلی بار یہودیوں کے قبضے میں آگئے،ساتھ ہی سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر حملہ کردیا تاہم وہ اسے ختم کرنے میں ناکام رہے! بلکہ اس حملے کی وجہ سے یہودی ریاست میں اور اضافہ ہوگیا۔
1949ء میں اسرائیل نے عربوں کے ساتھ الگ الگ صلح کے معاہدے کئے اور بعد میں اردن نے غرب اردن کو اپنی تحویل میں لے لیا ! تاہم ان دونوں عرب ممالک نے علاقے پر قبضہ کرلیا، جب کہ مصر نے غزہ کی پٹی اپنی تحویل میں لے لی اور فلسطینیوں کو اٹانمی سے محروم رکھا!29اکتوبر1958ء کو اسرائیل نے حملہ کرکے صحرائے سینا مصر سے چھین لیا ! اس دوران برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے اسرئیل کا ساتھ دیا چھ نوئمبر کو جنگ بندی عمل میں آئی ،عربوں اور اسرائیل کے درمیان ایک عارضی معاہدہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوا جو 19مئی 1967ء تک قائم رہا ،جب مصر کے مطالبے پر اقوام متحدہ کے دستے واپس بلا لئے گئے، مصر کی افواج نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا اور خلیج عقبہ میں اسرائیلی جہازوں کی آمدو رفت پر پابندی لگا دی!
5جون 1967ء کوعرب اسرائیل جنگ شروع ہوگئی ،اسرائیلیوں نے غزہ کی پٹی کے علاوہ سحرائے کو چھ دن میں ،گولان کی پہاڑیاں اور غرب اردن سینا پر قبضہ کرلیا ! ۱۰ جون کو اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرادی اور معاہدہ پر دستخط ہوگئے۔6 اکتوبر 1973 ء کو یہودیوں کے مقدس تہوار ’’یوم کپور‘‘ کے موقع پر مصر اور شام نے اسرائیل پر حملہ کردیا ،اسرائیل نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے شامیوں کو پسپائی پر مجبور کردیا اور نہر سویز عبور کردیا۔ 2 اکتوبر 1973ء کو جنگ بندی عمل میں آئی اور اقوام متحدہ کے مصر کی امن فوج پر حملہ آور ہوگیا اور نہر سویز کے مغربی کنارے سے واپس چلا گیا اور چارج سنبھال لیا۔18جنوری 1974 ء کو چارج سمبھال لیا ۔۳ جولائی ۱۹۷۶ء کو اسرائیلی دستوں نے یوگنڈا کے ہوائی اڈے پر یلغار کردی اور ۱۰۳ انٹی بی کے یرغمالیوں کو آزاد کرا لیا جنہیں عرب اور جرمن شدت پسندوں نے اغوا کر لیا ہوا تھا۔نومبر ۱۹۷۷ء میں مصر کے صدر انوار السادات نے اسرائیل کا دورہ کیا اور ۲۶ مارچ ۱۹۷۹ء کو مصر اور اسرائیل نے ایک امن معاہدے پر دستخط کرکے ۳۰ سالہ جنگ کا خاتمہ کردیا ,اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات قائم ہو گئے ۔تین سال بعد ۱۹۸۲ء میں اسرائیل نے مصر کو سحرائے سینا کا علاقہ واپس کردیا۔۷ جولائی ۱۹۸۰ء کو اسرائیل نے مشرقی یروشلم سمیت پورے یروشلم کو اسرئیل کا دارلحکومت قرار دیدیا ۔۶ جون ۱۹۸۱ء کو اسرائیلی جٹ جہازوں نے بغداد کے قریب ایک ایٹمی ری ایکٹر تباہ کردیا اور مغربی بیروت پر ۱۹۸۲ء میں اسرائیلی فوج نے پی ایل او کی مرکزیت کو تباہ کرنے کے لئے لبنان پر حملہ کردیا ! اسرائیل کی تباہ کن بمباری کے بعد پی ایل او نے شہر کو خالی کرنے پر رضامندی ظاہر کی! اسی سال ۱۴ ستمر کو لبنان کے نو منتخب صدر بشیر جمائل کا قتل کر دیا گیا!
۱۶ ستمبر ۱۹۸۲ء کو لبنان کے مسیحی شدد پسندوں نے اسرائیل کی مدد سے دو مہاجر کیمپوں پر حملہ کرکے سینکڑوں فلسطینیو کو ہلاک کر دیا! اس سفاکانہ کاروائی پر اسرائیل کو دنیا بھر سے شدید مذمت کا نشانہ بننا پڑا ۔۱۹۸۹ء میں انتفادہ کے زیر اہتمام فلسطینی حریت پسندوں نے زبردست عسکری کاروائیوں کا آغاز کیا ،۱۹۹۱ء کے آغاز میں جنگ خلیج کے دوران میں عراق نے اسرائیل کو کئی سکڈ میزائلوں کا نشانہ بنایا۔
اب اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنا دارلخلافہ بتاتا ہے جس کی تصدیق امریکہ کرتا ہے! جبکہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ قرار دیتے ہیں، جس کے مستقبل میں قیام کیلئے پر امید بھی ہیں۔گذشتہ ۵۰ سالوں میں اسرائیل نے غرب اردن اور بیت المقدس میں بے تہاشہ بستیاں تعمیر کی اوربسائی ہیں۔جہاںآج ۷ لاکھ سے زائد یہودی آبادہیں۔بین الاقوامی قانون کے تحت ان بستیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔تاہم اسرائیل اسے

۱۶ ستمبر ۱۹۸۲ء کو لبنان کے مسیحی شدد پسندوں نے اسرائیل کی مدد سے دو مہاجر کیمپوں پر حملہ کرکے سینکڑوں فلسطینیو کو ہلاک کر دیا! اس سفاکانہ کاروائی پر اسرائیل کو دنیا بھر سے شدید مذمت کا نشانہ بننا پڑا ۔۱۹۸۹ء میں انتفادہ کے زیر اہتمام فلسطینی حریت پسندوں نے زبردست عسکری کاروائیوں کا آغاز کیا ،۱۹۹۱ء کے آغاز میں جنگ خلیج کے دوران میں عراق نے اسرائیل کو کئی سکڈ میزائلوں کا نشانہ بنایا۔
اب اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنا دارلخلافہ بتاتا ہے جس کی تصدیق امریکہ کرتا ہے! جبکہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ قرار دیتے ہیں، جس کے مستقبل میں قیام کیلئے پر امید بھی ہیں۔گذشتہ ۵۰ سالوں میں اسرائیل نے غرب اردن اور بیت المقدس میں بے تہاشہ بستیاں تعمیر کی اوربسائی ہیں۔جہاںآج ۷ لاکھ سے زائد یہودی آبادہیں۔بین الاقوامی قانون کے تحت ان بستیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔تاہم اسرائیل اسے مسترد کرتاچلا آرہا ہے!

غزا کی پٹی کیا ہے؟ غزا زمین کی ایک تنگ پٹی ہے جو اسرئیل اور بحیرہ روم کے درمیان واقع ہے اور جنوب میں اس کی سرحد مصر سے بھی ملتی ہے۔صرف ۴۱ کلومیٹر لمبے اور ۱۰ کلومیٹر چوڑے ، اس علاقے میں قریب ۲۲ لاکھ لوگ آباد ہیں اور یہ روئے زمین پر سب سے گنجان ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔۴۹۔۱۹۴۸ء کی جنگ کے بعد ۱۹ سال تک مصر کا قبضہ رہا۔اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اس پر قبضہ کیا تھا جو ۲۰۰۵ء تک قابض رہا اور یہاں یہودی بستیاں تعمیر کیں۔ سنہ ۲۰۰۵ ء میں اسرائیل نے اپنی فوجوں اور آبادی کو وہاں سے واپس بلا لیا ! تاہم اس نے اپنی فضائی حدود ،مشترکہ سرحد اور ساحل پر کنٹرول جاری رکھا۔اقوام متحدہ اب بھی اس علاقے کو اسرائیل کے زیر قبضہ ہی سمجھ رہی ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان بنیادی مسائل:(۱)فلسطینی پناہ گزینوں کا کیا مناسب حل ہے؟(۲)آیا غرب اردن میں قائم یہودی بستیوں کو باقی رہنا چاہئے یا انہیں ہٹا دیا جانا چاہیے؟ (۳)بیت المقدس کو دونوں فریقین کو استعمال کرنا چاہیے یا نہیں؟ (۴)اور کیا اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست قائم رہے یا نہیں؟
ان مسائل کے حل کیلئے کیا کوششیں کی گئی: اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مزاکرات ۱۹۹۰ اور ۲۰۱۰ء کی دہایوں میں شروع اور معتل ہوتے رہے اس کا تعلق خطے میں تشدد کے پھیلنے سے تھا۔ابتدائی دنوں میں امن مذاکرات سے ،امن ممکن نظر آتا تھا۔ناروے میں خفیہ مذاکرات کا سلسلہ اوسلو امن عمل میںتبدیل ہوا جو ۱۹۹۳ء میں امریکی صدر بل کلنٹن کی صدارت میں وائٹ ہوس کے لان میںمنقد ہوا جو ایک اہم تاریخ کا حصہ بن گیا! اس تاریخی لمحے میں جہاں فلسطینیوں نے اسرائیل کو ایک ریاست تسلیم کیا وہاں اسرائیل نے بھی اپنے تاریخی حریف ،فلسطین لبریشن آرگنائیزیشن کو فلسطینی عوام کا واحد نمائندہ تسلیم کیا، اس معاہدے کے نتیجے میں ایک خود مختار فلسطینی اتھارٹی قائم کی گئی۔
اوسلو امن معاہدے کو اسرائیل نے اپنے لئے ایک جان لیوا خطرہ قرار دیا اسرائیلیوں نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کو بسانے کے اپنے منصوبے کو اور تیز کردیا جبکہ فلسطینی گروپ حماس نے اسرائیل میں لوگوں کو نشانہ بنانے کی کوششیں کیں،اسرائیل میں بھی ماحول بدلنے لگا جس کا نتیجہ ۴ نومبر ۱۹۹۵ء کو ایک یہودی انتہا پسند کے ہاتھوں اسرائیلی وزیر آعظم اسحق رابن کے قتل کی شکل میں نکلا۔۲۰۰۰ء کی دہائی میں امن کے عمل کوبحال کرنے کی کوششیں کی گئیں اور اس دوران ۲۰۰۳ء میں جب عالمی طاقطوں نے دو ریاستی حل کے حتمی مقصد کے ساتھ ایک نقشہ راہ وضع کیا ، لیکن اس پر کبھی عمل نہین ہوا ۔سنہ ۲۰۱۴ء میں واشنگٹن میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد قیام امن کی کوششیں رک گئیں!حالیہ امن منصوبے کو، جو رونالڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں تیار کیا گیا تھا، اسرائیلی وزیر آعظم نیتن یاہو نے صدی کا بہترین معاہدہ قرار دیا ، مگر فلسطینیوں نے اسے یکطرفہ قرار دیکر مسترد کردیا تھا اور اس معاہدے پر بھی کوئی کام نہ ہوسکا!
غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کا کارن: غزہ پر حماس کی حکومت ہے جو ایک ایسا گروہ ہے جس نے اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور اس کی تباہی کیلئے پرعزم ہے؟ حماس نے ۲۰۰۶ء میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، اور اگلے سال غرب اردن میں صدر محمود عباس کی حریف تحریک فتح کو بے دخل کرکے غزہ پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔اسکے بعد سے ،غزہ میں موجود عثکریت پسندوں نے اسرائیل سے کئی لڑائیاں لڑیں ہیں،اسرائیل نے مصر کے ساتھ ملکر حماس کو الگ تھلگ کرنے اورحملوں کو روکنے کی کوشش کی ،خاص طور پر اسرائیلی شہروں پر راکٹوں کی اندھا دھند فائرنگ کو روکنے کیلئے اسرائیل نے جزوی طور غزہ کی ناکہ بندی برقرار رکھی۔اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے حماس کیوں سر اٹھائے ’’ کھٹکتا ہوں دلے یزداں میں کانٹے کی طرح‘‘
غزہ میں فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی پابندیاں اور گنجان آبادی والے علاقے پر اجتمائی حملے سزا کے مترادف ہیں؟ اس سال مقبوضہ غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس میں سب سے مہلک سال رہا ہے۔ وہ اسرائیل پر اس کے حملوں کے جواب میں ان علاقوں پر کی جانے والی پابندیوں اور فوجی کاروایوں کی بھی شکائت کرتے ہیں۔یہی کشیدگی حماس کے تازہ حملے کی ایک وجہ ہوسکتی ہے اور یہ عسکریت پسند عام فلسطینیوں کیلئے اپنی مقبولیت بڑھانے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔جس میں یرغمالیوں کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل پر دبائو ڈالنا بھی شامل ہے کہ وہ اپنی جیلوں میں قید تقریبا ۴۵۰۰ فلسطینیوں کو رہا کرے۔
موجودہ تباہ کن جنگ میں اسرائیل کی حمائت امریکہ ،یورپین یونین اور دیگر مغربی ممالک نے اسرائیل پر حماس کے حملے کی مذمت کی ہے۔ امریکہ تو اسرائیل کا سب سے قریبی اتحادی ہے اور یہودی ریاست کو ۲۶۰ ارب ڈالر سے زیادہ کی فوجی اور اقتصادی مدد دے چکا ہے۔اس نے حماس کے حملے کے بعد اضافی سازو سامان ، فضائی ، دفائی میزائل، گائڈڈ بم اور گولہ بارود بھی اسرائیل کو مہیا کررکھاہے۔امریکہ نے اسرائیل کے دشمنوں بالخصوص لبنان کی حزب اللہ تحریک کو جنگ میں کوئی دوسرا محاز کھولنے سے روکنے کیلئے مشرقی بحیرہ روم میں طیارہ بردار جنگی بحری جہاز بھی بھیج رکھے ہیں۔ادھر روس اور چین نے حماس کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے۔اور کہا ہے کہ انہوں نے تنازے میں دونوں فریقین کے رابطے میں ہیں۔روس صدر پوتن نے مشرق وسطیٰ میں بد امنی کی فضا قائم کرنے کیلئے ساری زمعداری امریکہ کی اور اس کی غلط نیتیوں کو بتایا ہے۔ اس میں زبانی جمع خرچ کیلئے ایران محض اسرائیل کا دشمن تو ہے ! اس کے ساتھ ساتھ وہ حماس اور حزب اللہ کا کلیدی حامی بھی ہے۔جہاں ایک طرف اسرائیل نے غزہ پر توبڑ توڑ حملوں سے پورہ غزہ تحث نہس کردیا ہے اور دنیا بھر میں ان حملوں کی مزمت ہورہی ہے! وہاں دوسری جانب غزہ سے پی ایل او اتھارٹیز یہ بتا رہی ہیں کہ حماس پر محض حملوں کا الزام ہے یہ تو سب امریکہ کی پالیسی،سازش اور اسرائیل کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو غزہ میں جنوسائڈ کرنے کا ایک بہانا بنایا ہے۔آج سورت حال دنیا کے سامنے ہے کس بربریت اور بے رحمی سے فلسطیطیوں کا بالخصوص غزہ اور دیگر علاقوں پر بم باری کرکے لگ بھگ ۲۰۰۰۰ فلسطینی بچے، خواتین،بزرگ اور نہیتے عوام کو بمبار منٹ کے تحت قتل عام اور تمام غزہ مس مار کردیا ہے۔اس پر الگ سے ایک مضمون زیر تحریر ہے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ نہتے فلسطینیوں پر کرم کرے ! آمین۔
٭ڈاکٹر محمد بشیر ماگرے جغرافی کے پروفیسر اور ریٹائرڈ کالج پرینسیپل ہیں،ڈی سی کالونی راجوری میں رہائش پذیر ہیں۔

مسترد کرتاچلا آرہا ہے!

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا