فصلوں کے ایم ایس پی پر راجیہ سبھا میں حکمراں پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان ٹکراو

0
0

نئی دہلی، 26 جولائی (یو این آئی ) زراعت اور کسانوں کی بہبود کے وزیر شیوراج سنگھ چوہان نے جمعہ کو راجیہ سبھا میں بتایا کہ کسانوں کو فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت دینے کے سلسلے میں تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی ہے اور اس رپورٹ کے آنے کے بعد اس سمت میں قدم اٹھائے جائیں گے لیکن حکومت زراعت کو منافع بخش کاروبار بنانے کے لیے مسلسل اقدامات کر رہی ہے۔
کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن ارکان نے اس کی سخت مخالفت کی اور ایم ایس پی کے مسئلہ پر حکومت سے براہ راست جواب کا مطالبہ کیا جس سے حکمراں پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان گرما گرم نونک جھونک ہوئی اور ایوان کی کارروائی میں خلل پڑا۔
وقفہ سوالات کے دوران ضمنی سوالات کے جواب میں مسٹر چوہان نے کہا کہ حکومت نے ایم ایس پی کے مسئلہ پر ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس مسئلہ پر غور کر رہی ہے اور اس کمیٹی کی اب تک چھ میٹنگیں ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی کی رپورٹ آتے ہی حکومت اس پر مزید اقدامات کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت رپورٹ کے نام پر غیر فعال نہیں بنی ہوئی ہے اور کسانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں مسلسل لگی ہوئی ہے۔ ایم ایس پی کی شرح میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت پیداوار کی مناسب قیمتوں کی فراہمی، پیداوار میں اضافے، لاگت میں کمی، نقصانات کی تلافی اور قدرتی کاشتکاری کو فروغ دینے کے لیے چھ نکاتی پالیسی پر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فصلوں کی قیمتوں میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جا رہا ہے۔ فصلوں کی قیمت کا تعین فصل کی پیداواری لاگت میں 50 فیصد منافع ملا کر کیا جاتا ہے اور اسے خریدا بھی جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ حکومت کھاد پر 1 لاکھ 68 ہزار کروڑ روپے کی سبسڈی بھی دے رہی ہے۔
کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن ارکان نے کہا کہ حکومت کو ٹال مٹول کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے اور ایم ایس پی پر سیدھا جواب دینا چاہئے۔ اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں سے اٹھ کر وزیر کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ حکمراں جماعت کے ارکان نے اس پر شدید احتجاج کیا جس پر دونوں جماعتوں کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی۔
چیرمین جگدیپ دھنکھڑ نے دونوں پارٹیوں سے تحمل سے کام لینے اور ایوان کی کارروائی کو خوش اسلوبی سے چلنے دینے کی اپیل کی۔ انہوں نے کانگریس کے رکن رندیپ سرجے والا کو بار بار خبردار کیا کہ اگر وہ کارروائی میں خلل ڈالتے رہے اور چیئر کی نافرمانی کرتے رہے تو وہ ان کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چیئرمین نے اپوزیشن ارکان سے کہا کہ کسانوں کے معاملے پر ایوان میں سنجیدگی سے بحث کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں کسانوں کی حالت زار جانتا ہوں۔ اگر آپ کو کوئی اعتراض ہے تو مناسب طریقہ اختیار کریں۔ حکومت روزانہ کام کر رہی ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار نہیں۔ آپ سیاست کر رہے ہیں۔ وہ کسانوں کے خیر خواہ نہیں ہیں بلکہ کسانوں سے دشمنی دکھا رہے ہیں۔ آپ کو کسان سے کیا نفرت ہے؟ آپ بحث کیوں نہیں ہونے دے رہے؟‘‘
اپوزیشن کے شور شرابے کے درمیان مسٹر سنگھ نے کہا کہ حکومت کسانوں کی طرف سے تیار کی جانے والی تور، دال اور اُڑ کی پوری پیداوار خریدے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایک کروڑ سے زیادہ کسانوں کی فصل ایم ایس پی پر خریدی جا رہی ہے جبکہ کانگریس کی قیادت والی حکومت کے دوران صرف 68 لاکھ کسانوں کو اس کا فائدہ مل رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کے دور میں صرف چھ لاکھ ٹن دال خریدی جاتی تھی لیکن اب حکومت 25 گنا زیادہ یعنی 1.5 کروڑ ٹن سے زیادہ خرید رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپوزیشن پر کسانوں کے نام پر سیاست کرنے اور مگرمچھ کے آنسو بہانے کا الزام لگایا۔ وزیر زراعت نے کہا کہ جب سوامی ناتھن کمیشن کی رپورٹ میں فصل کی لاگت میں 50 فیصد اضافہ کرکے ایم ایس پی دینے کی سفارش کی گئی تھی تو کانگریس کی قیادت والی حکومت نے اس سفارش کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔ اس وقت کی حکومت کے کابینی نوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت کہا گیا تھا کہ اگر اس سفارش کو مان لیا جائے تو مارکیٹ میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے، اس لیے اسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اپوزیشن صرف کسانوں کے نام پر سیاست کرکے ملک کو انتشار میں ڈالنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت زراعت کو منافع بخش کاروبار بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
چائے اور کافی کے لیے بھی ایم ایس پی کی فراہمی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ اس جذبے کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ چائے اور کافی ان 23 فصلوں میں شامل نہیں ہیں جن پر ایم ایس پی دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت تجارت اس سلسلے میں کارروائی کر سکتی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا