فرعون اور فرعونیت پر استوار معاشرے

0
0

رشید پروینؔ سوپور

(اذانِ مرد ِمومن سے لرزتا ہے شبستانِ وجود) فرعون اور فرعونی حکومتیںاپنے حرب و ضرب ، فوجی سازو سامان ، انتہائی خطر ناک تینکنالوجی، کیمیکل اور اٹامک ویپن کے ساتھ کسی بھی ملک کی زمین کو تحس نحس کرسکتے ہیں ، گلستانوں اور سر سبز و شاداب سر زمینوں کو ریگستانوں میں تبدیل کرسکتے ہیں ، سبزہ زاروں اور کہساروں کو ہیرو شیما اور ناگاسا کی ، شہروں کی طرح جہنم زار بناسکتے ہیں ،ایک خاص مدت تک انسانی آبادیوں کو اپنے سامنے سجدہ ریز رکھ سکتے ہیں ، وقت کے کئی فرعونوں اور مغرور و متکبر فرعونی خصائل کے شہنشاہ جنہیں ا یک سٹیج پر آکر یہ بھی گماں ہوا کہ وہ خدا ہیں اس لئے ان کی عبادت کی جائے اور اپنے معبود ہونے کے ثبوت میں بہت ساری حماقتیں بھی کر ڈالی ہیں آج بھی دنیا کی تاریخوں میں نشانِ عبرت ہیں ، انسان نے اگرچہ اس دور میں سائنسی لحاظ سے چاند ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی شروعات کی ہے اور اس دوڈ میں سب سے آگے امریکہ ہے لیکن افسوس کہ یہ امریکی معاشرہ اخلاقی ، انسانی اور بلند اقدار کے لحاظ سے دنیا کا پست ترین ملک ہے ،اور اپنے منظر اور پس منظر میں اس کے۔ دورِ حاضر کا فرعو ن ہونے میں کوئی شک نہیں۔ کیونکہ نفسیاتی طور در پردہ ان کے ہاں بھی وہی جذبہ فرعونیت ہے، ۔جس کا ساری دنیاسے تقاضا ہوتا ہے کہ ہماری دہلیز پر سجدہ ریز ہوں ، ساری دنیا کے عوام روٹی روزی کے علاوہ ہر ضرورت کے لئے بھی ان کے دست نگر ہوں اوریہ کہ صرف اسی سنگ آستان پر سر تسلیم خم کئے ہوں ۔اصل میں فرعونیت اور کیا ہے ؟ تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک نے اپنی بے پناہ ترقی کو انسانی اقدار کے لئے نہیں بلکہ انسانی بلند و بالا روشن میناروں کو اندھیروں میں ڈبو نے کے لئے استعمال کیا ہے ، یہی ملک ہے جس نے اپنی انا اور گھمنڈ میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی ۔پر دو اٹم بم گرا کر انسانی تاریخ میں ایک انتہائی گھناونے باب کا نہ صرف ا ضافہ کیابلکہ اپنے لئے ہمیشگی کی رسوائی کا سامان بھی کیا جس کی وجہ سے ا مریکہ کو آج بھی انسانیت کے کٹہرے میں ایک بے رحم اور وحشی مجرم کی مانند کھڑا کیا جاسکتا ہے ، لیکن اس کی معاشی ، سائنسی اور ملٹری پاور نے انصاف اور عدل کی میزان کو فی الحال اپنی طرف جھکا کے رکھا ہے، اپنے اپنے ادوار میں بہت سارے فرعونوں کا طرز طریق یہی رہا ہے ،اگر ماضی بعید کی بات نا کریں تب بھی ماضی قریب کی تاریخ سے طالب علم اور عام طور پر تھوڑے سے پڑھے لکھے لوگ بھی آشنا ہیں ،، اور انہیں معلوم ہے کہ ہٹلر سے بھی نفسیاتی طور پر یہی حماقت ہوئی تھی کہ وہ اپنی قوم کو دنیا کی تمام اقوام پر فوقیت دینے کی غلطی کر بیٹھا اور اپنے گماں کی پر چھائیوں میں اپنے وجود کو تحلیل کر کے سمجھ بیٹھا کہ جرمن ایک بر تر قوم ہے اور وہ اس قوم کا رہنما و رہبر ہے ،، اور اس لئے ساری دنیا پر حکمرانی کا حق اس سے حاصل ہے ، ،، اور ساری دنیا کے لئے عبرت کا نشان بن گیا ، یہاں تک کہ اس قوم کی عورتوں اور دوشیزاؤں کو اپنے گھروں کے باہر مدت تک یہ بورڈ آویزاں رکھنے پڑے کہ ’ ایک رات کے لئے مہماں کی ضرورت ہے ‘‘عزازیل نے بھی فرشتے سے شیطانیت تک کا سفر اسی ایک جذبے کی وجہ سے طئے کیا تھا حالیہ دور میں/ 11۹ ، ۲۰۰۱؁ئواقعے کے پردے میں جو افغانستان پر بیتی ہے اور جس انداز میں امریکی قوت کے ساتھ ساتھ یورپی اتحادی افواج نے پورے ملک کو صفحہء ہستی سے مٹانے کی قسم کھاکر ، بھر پور مادی ،فوجی اور الیکٹرانک میڈیا کی طاقت سے اس سر زمین کو اپنی بے انتہا بمباری سے ر وئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا وہ اپنی مثال آپ ہے اور جس رعونت ، گھمنڈ اور غرور کے ساتھ امریکی فرعونیت نے ساری دنیا کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھ کر کہہ دیا کہ جو اس جنگ میں ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتا وہ دہشت گرد ہے اور اس دھمکی نے دور بیٹھے ہوئے تمام دنیا کے ممالک اور انصاف پسندوں کوبھی نہ صرف لرزہ بر اندام کیا بلکہ ’صم بکم ‘‘ اور خوف و ڈر سے اپنے ہونٹ سینے پر مجبور کردیا ، ،، لیکن افغانی قوم نے صرف اللہ کی ذات پر ایمان کامل رکھ کر اتنی بڑی قوت ہی نہیں بلکہ ساری یورپی طاقت کے خلاف اپنا جذبہ جہاد جاری رکھا اور آخر دنیا نے دیکھا کہ امریکی غرور ویت نام میں بھی چکنا چور ہوا تھا ، اور افغانستان میں بھی امریکی گھمنڈ اور تکبر کے شیش محل ٹوٹنے کی صدائے باز گشت اس وقت ابھی تک امریکی فرعونیت کو کچوکے لگا رہی ہے ۔ بہت زیادہ ترقی یافتہ اور مادی وسائل کے باوجود آخری مر حلے میں امریکی افوج ، امریکی لوگ اور ان کے وفادار ائر بسوں سے لٹک ،لٹک کر ہلاک ہوئے ، ( ہم،(یعنی اللہ) مشرکین کے دلوں میں خوف ڈالتا ہے، القرآن ) ،، تمام ممالک اور امریکی افواج کے لئے افغانستان سے یہ فرار آج بھی معمہ بنا ہواہے کیونکہ یہ سب ممالک طاقت اور مادی وسائل کے لحاظ سے فربہ ،انتہائی مظبوط اور مستحکم تھے اور ان سب ممالک کی ملٹری پاور کے مقابلے میںبے سرو ساماں افغانوں کی بساط اور ظاہری قوت رائی کے دانے سے زیادہ حثیت نہیں رکھتی تھی ا سی لئے یہ ناکامی آج بھی مادی قوتوں پر انحصار اور ایمان رکھنے والوں کے لئے حیران کن ، ناقابل یقین ا ور تعجب خیز ہے،،؟ امریکہ میں’’ کوسٹ آف وار پراجیکٹ‘‘ نے انہی دنوں اپنی رپورٹ شائع کی ہے اور کہا ہے کہ ، افغانستان کی جنگ میں بیس برس کے دو لاکھ اکتالیس ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں ، جن میں اکہتر ہزار تین سو چوالیس شہری ، ۲۴۴۲ امریکی فوجی ،۷۸۳۱۴افغانی سیکورٹی ،۸۴۱۹۱طالبان،شہید ہوئے، اس رپورٹ کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بلکل درست ہے براون یونیورسٹی امریکہ کے ’’واٹسن ا نسٹیٹیوٹ ا ور بوسٹن یونیورسٹی کے پارڈی سنٹر نے ایک مشترکہ رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس لایعنی اور لاحاصل جنگ پر امریکہ نے ۲۲کھرب ڈالرز خرچ کئے ہیں ، ان اخراجات کو بھی حتمی نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ امریکی سرکار شروع سے ہلاکتوں اور اخراجات کو گھٹا کر پیش کرتی رہی ہے ، ظاہر ہے کہ وقت کے فرعون اور فرعونی ممالک یہ سارے وسائل انسان اور انسانیت کی بہتری پر خرچ کرتے تو دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ، امریکیوں نے اپنے اس بہترین اور سائنسی لحاظ سے عروج کے دور میں اپنی انا ، خود پرستی اور تکبر و غرور کی وجہ سے دنیا کے کئی کمزور ممالک کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھرپور لیکن لا حاصل کوششیں کی ہیںاور تاریخ گواہ ہے کہ بہت جلد زمانہ ان وقت کے فرعونوں کا بھی محاسبہ کرکے زمانوں کے گردو غبار میں پنہاں کرد ے گا ، اپنے وقت اور ماضی بعید کے فرعون نے بے دریغ بچوں کا قتل صرف اس خوف کی وجہ سے کیا تھا کہ ایک ایسا بچہ پیدا ہونے ہی والا ہے جو نہ صرف میری خدائی کو چلینج کرے گا بلکہ بالآخر مجھے ،اور میری فرعونیت کو بھی دفن کرنے میں کامیاب ہوگا ، امریکہ کا بھی بلکل یہی خیال ہے کہ افغانستان میں طالبان کی جہاد ی کامیابی سے نزدیکی مسلم ریاستوں میںاس خیال کو تقویت حاصل ہوسکتی ہے کہ مسلم دنیا کی منزل اسی جہادی راستے سے ہوکر گذرتی ہے سامان عیش و عشرت اور ڈر و خوف اور۔ سرنڈر سے نہیں۔ ،، اصل تحفظات جنہیں کئی ممالک الگ الگ انداز اور نریٹیو سے بیان کر رہے ہیں ، یہی ہے کہ ان کے اپنے بنائے ہوئے خدا بیزار معاشرے جن میں وہ خود خدائی کے دعوے دار ہیں ، خدائی رنگ کے معاشروں میں گم ہوسکتے ہیں افغانستان کی کامیابی بر صغیر ہند و پاک اور خطہء جنوبی ایشیاء پر ہی نہیں بلکہ ساری دنیا پر اپنے اثرات یقینی طور پر مرتب کرے گی ، پاکستان میں بھی شرعی نظام کے نفا ذکا مطالبہ زور پکڑ سکتا ہے ، اور بھارت خود سیکولر اور سوشلزم جیسی اصطلاحات کا مذاق اڑاکر ’’ہندوتوا ‘‘کی جانب گامزن ہوچکا ہے ، روسی سرحدوں کے ساتھ مسلم ریاستیں ، اور شاید آگے بنگلہ دیش میں بھی شرعی نظام حیات کا مطالبہ کوئی بڑی بات نہیںہوگی ،،،،فرعونیت اور فرعونی معاشرے مادی قوت ، شخص پرستی ، اور احساس برتری ہی کی پیداوار ہوتے ہیں جب کہ اللہ کے معاشروں کے خدو خال ان بنیادوں پر مستحکم ہوتے ہیں ، ’’کسی گورے کو کالے پر ، کسی عربی کو عجمی پر ، کسی قبیلے کو کسی دوسرے قبیلے یا شخص پر ، اور کسی شخص کو کسی بھی لحاظ سے دوسرے پر۔ کوئی فوقیت نہیں سوائے پر ہیز گاری اور تقویٰ کے ۔۔۔ اور یہ محظ ایک مفروضہ نہیں بلکہ صرف پندرہ سو برس پہلے ساری دنیا نے ایسے معاشرے ، ایسے سماج، ایسی مملکت کو دیکھا ہے جس کی مثال ساری دنیا کی تاریخ میں اب تک کہیں نہیں ،، جو ان بنیادوں پر استوار تھی ۔، عدم مساوات ,،گھمنڈ ، غرور اور احساس بر تری پر مبنی بڑی تہذیبیں اور قوتیں مٹتی رہی ہیں اور تاریخ کے اوراق تک محدود ہوچکی ہیں اور امریکی فرعونیت ۔تہذیب و قوت اس سے مستنثیٰ نہیں ، ، rashid,parveen48@gmail,com ..cell 9419514537

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا