ہمہ گیر ہڑتال کی واپسی، معمولاتِ زندگی کی نبض رُخ گئی
تاریخی جامع مسجد سرینگر 16 ویں ہفتے بھی مقفل
جملہ کاروباری و عوامی سرگرمیاں متاثر سرینگر؍
:کے این ایس
غیر یقینی و تذبذب کی صورتحال کے11 1ویں روز جمعہ ،23نومبر کو کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں ہمہ گیر غیر اعلانیہ شٹر ڈائون اور پہیہ جام ہڑتال سے معمولاتِ زندگی کی نبض رخ گئی۔اس دوران مسلسل16ویں ہفتے کو بھی تاریخی جامع مسجد سرینگر مقفل رہی جبکہ یقین دہانی کے باوجود اب بھی انٹر نیٹ کی خدمات منقطع ہیں ۔ دریں اثناء امن وقانون کی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے پورے شہر میں غیر معمولی سیکیورٹی بندوبست کئے گئے تھے ۔ کشمیر نیوز سروس ( کے این ایس ) کے مطابق دفعہ370کی تنسیخ کے بعد وادی کشمیر میں پیدا شدہ غیر یقینی صورتحال نے جمعرات کو اُس وقت کروٹ بدلی جب شہر میں افراتفری اور سرا سیمگی و چمہ گوئیوں کے فضاء میں غیر اعلانیہ ہڑتال میں اچانک شدت دیکھنے کو ملی ۔یہ شدت مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بدھ کے روزپارلیمنٹ کے ایوان بالا(راجیہ سبھا ) میں دئے گئے اُس بیان جس میں، انہوں نے کہا تھا ’کشمیر میں حالات پوری طرح سے معمول پر ہیں اور 5اگست کے فیصلہ جات کے بعد پولیس کی فائرنگ میں ایک بھی جان نہیں گئی‘۔جمعہ کو مسلسل دوسرے اور مجموعی طور110ویں روزکشمیر کے دارلحکومت سرینگر میں ہمہ گیر غیر اعلانیہ ہڑتال کا اثر دیکھنے کو ملا ۔جمعہ کو صبح سے ہی سرینگر کے قلب وتجارتی مرکز لالچوک سمیت سبھی بازار بند رہے ۔لالچوک میں سبھی بازاروں میں دکانات کے شٹر نیچے رہے ،تاہم بعض ادویات اور دیگر اکا دکا دکانات کے آدھے شٹر دوپہر تک اوپر رہے ۔ہمہ گیر غیر اعلانیہ ہڑتال کے نتیجے میں سرینگر کے قلب وتجارتی مرکز لالچوک میں جمعہ کو دن بھر ہو کا عالم دیکھنے کو ملے ۔بازاروں میں مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا جبکہ یہاں فورسز اہلکاروں کے سوا کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ہڑتال کے باعث لالچوک اور سیول لائنز کے دیگر بازاروں میں کوئی چہل پہل نظر آئی جبکہ چھاپڑیاں اور ریڑھیاں لگا نے والے بھی جمعہ کو سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے غائب ہی تھے ۔شہر خاص کے سبھی بازار بھی جمعہ کو بند رہے ۔شہر خاص میں واقع قدیم تاریخی مہاراج بازار سمیت تمام بازاروں میں جمعہ کو بند رہے جسکی وجہ سے یہاں چہار سو ہو کا عالم دیکھنے کو مل رہا تھا ۔تاہم شہر خاص میں صبح کے وقت اشیاء ضروریہ کی اکا دکا دکان چند گھنٹوں کیلئے کھلے رہے ،البتہ نو بجے سے قبل وہ بھی دوبارہ بند ہوگئیں ۔ادھر مسلسل16ویں ہفتے کو بھی شہر خاص کے نوہٹہ علاقے میں واقع تاریخی جامع مسجد سرینگر مقفل رہی جسکی وجہ سے یہاں نماز جمعہ کی ادائیگی ممکن نہ ہوسکی ۔نامہ نگارو کے مطابق جامع مسجد سرینگر کے سبھی چار دروازے جمعہ کو بند رہے جبکہ اس کے گرد ونواح میں پولیس وسی آر پی ایف کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی ۔ نماز جمعہ سے قبل نوہٹہ علاقے سے گذر نے پر کوئی پابندی نہیں تھی ،تاہم جامع مسجد کو چاروں اطراف سے پولیس وفورسز کی بھاری نفری تعینات رہی ۔مقامی لوگوںنے بتایا کہ جامع مسجد سرینگر 5اگست سے فورسز نرغے میں ہے اور یہاں نماز جمعہ کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔مقامی لوگوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ جامع مسجد کی طرف کسی کو جانے کی اجازت نہیںدی گئی اور مقصد کیلئے جہاں فورسز کی بھاری نفری جامع مسجد کے گرد ونواح میں تعینات رہی ،وہیں خار دارتاروں کا استعمال کرکے راستوں کو سیل کیا گیا تھا ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 5اگست سے میر واعظ عمر فاروق اپنی رہائش گاہ واقع نگین حضرتبل میں خانہ نظر بند ہیں ۔میر واعظ عمر فاروق ہر جمعہ کو تاریخی جامع مسجد سرینگر میں واعظ وتبلیغ دیتے ہیں ۔تاہم سرینگر کی دیگر سبھی چھوٹی بڑی مساجد بشمول درگاہ حضرتبل سرینگر میں نماز جمعہ ادا کی گئی ۔اس دوران غیر اعلانیہ ہمہ گیر ہڑتال کے باعث جمعہ ٹرانسپورٹ سرگرمیاں بھی متاثر رہیں ۔جمعہ کو پبلک ٹرانسپورٹ کیساتھ ساتھ نجی گاڑیوں کی آوا جاہی میں کافی کمی نظر آئی ۔شہر کی سڑکوں پر اکا دکا نجی گاڑیاں اور آٹو رکھشا چلتے ہوئے دیکھئے گئے جبکہ مسافر ٹیکسیاں بھی جمعہ کہیں نظر آئیں ،البتہ سیول لائنز کے چند ایک روٹوں پر یہ گاڑیاں چل ہوئی دیکھی گئیں ۔حالیہ دنوں معمولات زندگی میں بحالی کے آثار نظر آرہے تھے ،جس دوران پبلک ٹرانسپورٹ سے جڑی دو اہم گاڑیاں (ٹاٹا میٹاڈار اور مسافر بسیں ) شامل تھیں ،سڑکوں پر دوبارہ چلنی شروع ہوگئی تھیں ،تاہم جمعہ کو یہ گاڑیاں مکمل طور غائب رہیں ۔شہر میں گذشتہ دنوں لمبے لمبے ٹریفک جام کے مناظر بھی دیکھنے کو مل رہے تھے ،لیکن جمعہ کو شہر کی مصروف سڑکوں ، سرینگر ۔ ائرپورٹ روڑ ،مولانا آزاد روڈ اور ریذیڈنسی روڑ پر کہیں کوئی جام نظر آیا بلکہ سڑکیں زیادہ تر سنسان اور ویران نظر آرہی تھیں ۔ جنوبی کشمیر کے نا مہ نگار کے مطابق پلوامہ اور شوپیان میں جمعہ کو مکمل بند رہا ،البتہ اننت ناگ اور کولگام میں معمول کے مطابق کارو باری وعوامی سرگرمیاں دن بھر جاری رہیں ۔وسطی کشمیر کے دو اضلاع بڈگام اور گاندربل میں جمعہ کو کہیںکہیں جزوی طور ہڑتال کا اثر دیکھنے کو ملے ۔شمالی کشمیر کے کپوارہ ،بانڈی پورہ اور بارہمولہ میں جمعہ کو معمول کے مطابق ہر طرح کی سرگرمیاں جاری رہیں ۔تینوں اضلاع میں دکان کھلے تھے اور بازاروں میں غیر معمولی چہل پہل دیکھنے کو مل رہی تھی جبکہ نجی وپبلک ٹرانسپورٹ کی آوا جاہی بھی جاری تھی ۔ اس دوران شہر سرینگر سمیت وادی کے دیگر حساس قصبوں میں امن وقانون کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے سیکیورٹی کے کڑے بندوبست کئے گئے تھے ۔جمعہ کو شہر سرینگر کے حساس علاقوں کیساتھ ساتھ دیگر حساس قصبوں میں پولیس وسی آر پی ایف کی بھاری نفری جگہ جگہ تعینات کی گئی تھی ۔دریں اثناء وادی کشمیر میں5اگست انٹر نیٹ خدمات مسلسل منقطع ہیں جبکہ پری ۔پیڈ موبائیل سروس بند رہنے کیساتھ ساتھ’ ایس ایم ایس‘ سروس پر پابندی برقرار ہے ۔انٹر نیٹ کی مسلسل بندش کی وجہ سے صحافیوں ،تاجروں اور طلبہ کو شدید ترین ذہنی کوفت کا سامنا ہے ۔میڈیا اداروں کے نمائندوں کوہر روز محکمہ اطلاعات کے صدر دفتر میں قائم کئے گئے میڈیا سہولیاتی مرکز کا چکر کاٹنے پڑتے ہیں جبکہ مقامی اخبارات کے نمائندوں کو بھی خبروں اور دیگر مواد کیلئے سردیوں کے ان ایام میں ہر شام یہاں کادورہ کرنا پڑتا ہے ۔ انٹر نیٹ کی مسلسل بندش کی وجہ سے آن لائن ،لین دین مکمل طور ٹھپ ہے جبکہ تاجروں کو جی ایس ٹی ریٹرن اور دیگر ٹیکسوں کی ادائیگی میں بھی مشکلات درپیش ہیں ۔انٹر نیٹ کی مسلسل معطلی سے طلبہ کی پڑھائی بھی متاثر ہورہی ہے ۔یاد رہے کہ بدھ کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں کشمیر کی صورتحال پر بحث کے دوران مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ جموں وکشمیر کی مقامی انتظامیہ کیساتھ معاملے پر غور وخوض کرنے کے بعد ہی اس حوالے سے حتمی فیصلہ لیا جائیگا ۔ادھر پری ۔پیڈ موبائیل فون سروس بند رہنے سے قریب40لاکھ افراد مواصلاتی رابطے سے محروم ہیں ،تاہم پوسٹ ۔پیڈ موبائیل فون خدمات بحال ہونے کے بعد کئی افراد نے پوسٹ سم کارڈ حاصل کئے ،البتہ انکی تعداد قلیل ہے ۔پوسٹ ۔پیڈ موبائیل خدمات بحال ہونے کیساتھ ہی وادی کشمیر میں ’ایس ایم ایس‘ سروس پر پابندی عائد کی گئی ،جو تاحال جاری ہے ۔