۰۰۰
ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
۰۰۰
سوشیل میڈیا کے ذریعہ یہ اطلاع گشت کر ہی ہے کہ ایک فلم آنے والی ہے جس کا عنوان ’ہم دو اور ہمارے بارہ‘ ہیںجس میں بتایا گیا کہ مسلمان خواتین پر ظلم کرتے ہیں۔ دوسری طرف ان متعصب ذہنیت رکھنے والوں کا یہ بھی دعوی ہے کہ مسلمانوں میں حلالہ کا چلن عام ہے جس سے خواتین کی عصمت و عفت عزت و پاکیزگی تار تار ہوتی ہے۔ فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے مخالفین اسلام کے ان دونوں دعووںمیں زبردست تضاد پایا جاتا ہے کیونکہ اگر واقعی مسلمان حلالہ کرواتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوی اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ دوبارہ زندگی گزارنا پر راضی بلکہ بے چین اور بے قرار ہے تو ایسی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلمان خواتین پر ظلم کررہے ہیں تو مسلم خواتین مخالفین اسلام کے دعوی کے مطابق روح فرسا حلالہ کرواکر اسی شوہر کے پاس واپس کیوں جانا چاہ رہی ہیں جو ان پر ظلم کرتے ہیں؟ اس فلم کے کلیدی اداکار نے ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس فلم کا اصل مقصد بڑھتی ہوئی ابادی کو کنٹرول کرنے کا پیغام دینا ہے۔اگر واقعی ابادی اس قدر اہم مسئلہ بن گیا ہے تو پھر CAA کا متنازعہ قانون بناکر دیگر ممالک کے لوگوں کو شہریت کیوں دی جارہی ہے ؟کیا اس سے ابادی میں اضافہ نہیں ہوگا؟ کیا CAA سے بڑھتی ہوئی ابادی کا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ کیا ابادی کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی مذہب کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے اور اس مذہب کے ماننے والوں کی دل ازاری کی جائے؟ جب فلم کا مقصد لوگوں میں ابادی سے متعلق شعور بیداری پیدا کرنا ہے تو انصاف کا تقاضہ تھا کہ تمام مذاہب کا ذکر کیا جاتا۔خیر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ فلم کا اصل مقصد شعور بیداری نہیں بلکہ اسلام کی مخالفت، مسلمانوں کی تذلیل اور ہندوستانیوں کے درمیان نفرت و عداوت کے جذبات بھڑکانا اور قومی یکجہتی و ہم اہنگی کی پرامن فضا کو مکدر کرنا ورنہ قرا?ن مجید کی ایات کا غلط مفہوم پیش نہ کیا جاتا۔ پہلے سفر میں محرم کے مسئلہ کو غلط طور پر اچھال کر پھر بعد میں تین طلاق کے مسئلہ پر قانون بنواکر مسلم خواتین بالخصوص ناخواندہ خواتین کو اکساکر اور ان کے قلوب و اذہان میں خلفشار پیدا کرکے فرقہ پرستوں نے یہ سمجھا تھا کہ مسلم خواتین کی اکثریت مذہب برحق کو چھوڑ دیں گی۔ گڑوڈ پرانا جسے ہندواٹھارہ پورنوں کا ایک حصہ مانتے ہیں، کے ایک شلوک میں بتایا گیا کہ جس خاتون کو بچے نہ ہوں اس سے اٹھ سال بعد علاحدگی اختیار کرلینی چاہیے، جس سے صرف بیٹی ہو اس سے 11 سال بعد علاحدگی اختیار کرلینی چاہیے یعنی اسے طلاق دے دینی چاہیے۔ رگ وید میں بتایا کہ عورتوں کا کام بچے پیدا کرنا ہے۔ کیا اس سے ظاہر نہیں ہوتا کہ عورت صرف بچہ پیدا کرنے والی مشین ہے؟ پھر ان پر مباحث کیوں نہیں ہوتے؟ ان پر فلم کیوں نہیں بنائی جاتی؟ جب فرقہ پرستوں کی اسلام کے خلاف کی جانے والی کذب بیانی، چھوٹے پروپگنڈے، گھنائونے حربے اور باطل عزائم بری طرح سے ناکام ہوگئے تو اب ازدواجی تعلقات کے نازک ترین مسائل پر فلم بناکر مسلم خواتین کو دوبارہ نشانہ بنانے کی ناپاک کوشش کی گئی ہے جس میں بتایا گیا کہ دین اسلام میں خواتین کی کوئی عزت و قدر نہیں ہے وہ تو صرف جنسی خواہشات کی تکمیل کا ایک ذریعہ ہے اسی لیے تو قران مجید نے بیویوں کو کھیتی کہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ منوسمرتی کے نویں باب میں بھی عورت کو زمین اور مرد کو بیج سے تشبیہ دی گئی ہے پھر اس پر فلم کیوں نہیں بنائی جاتی؟ جہاں تک قران مجید کا بیوی کو کھیتی سے تعبیر کرنے کا سوال ہے تو ہمیں یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اس تشبیہ میں ایک باریک نکتہ یہ پنہاں ہے کہ عورت کوئی کھلونا یا صرف ہوس پرستی کو پورا کرنے اور اتش شہوت کو سرد کرنے کا ذریعہ نہیںہے تاکہ تم لیو ان ریلیشن شپ جیسے غیر اخلاقی اور حیا سوز رشتے میں رہ کر اس کی عزت و ناموس سے کھلواڑ کرو اور سے بے یار و مددگار اسے چھوڑ دو بلکہ خواتین بقاء نسل کا ایک اہم ذریعہ ہے ان کی عزت و قدر کرو۔ جس طرح انسانی زندگی کا مدار بڑی حد تک زمینی پیداوار پر ہے اسی طرح بقاء نسل انسانی کا اہم ذریعہ خواتین ہیں۔ خواتین کو کھیتی سے تعبیر کرنا خواتین کی تذلیل و حقارت کے لیے نہیں ہے بلکہ اس تشبیہ کے ذریعہ مباشرت کے ایک اہم اصول کو احسن پیرایہ میں بیان کرنا مقصود ہے۔ جس طرح زمین دو طرح کی ہوتی ہیں ایک زرخیز اور دوسری بنجر۔ زرخیز زمین پر کسان محنت کرتا ہے تو کسان کو فائدہ حاصل ہوتا ہے اسی طرح اگر شوہر عورت کے ساتھ سامنے کی طرف سے مباشرت کرتا ہے تو ان دونوں کے صاحب اولاد ہونے کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس کے برخلاف بنیادی معلومات رکھنے والا کسان بھی بنجر زمین میں کھیتی کرنا نہیں چاہے گا چونکہ اس سے اس کا وقت، سرمایہ اور محنت سب برباد ہوگا اسی طرح اگر کوئی شوہر بیوی کی پشت کی طرف سے مباشرت کرتا ہے تو اس طرح کے جنسی عمل سے بھی بچہ کی نشو و نما نہیں ہوتی جو نکاح کا اصل اور اہم مقصد ہے۔ دین اسلام میں نکاح کا مقصد بقاء نسل ہے اور لذت جنسی محض حصول مقصد کے لیے مقدمہ و تمہید ہے۔ چونکہ مشت زنی، لواطت(یعنی مرد کا مرد سے بدکاری کرنا) اور ایسے دیگر افعال بھی دین اسلام میں ممنوع ہیں چونکہ ان افعال قبیحہ میں مقصد نکاح مفقود ہوتا ہے۔ رحم میں جو نطفہ یعنی مادہ تولید ڈالاجاتا ہے وہ بمنزلہ تخم کے ہے اور اولاد بمنزلہ پیداوار کے ہے اسی لیے قران مجید نے بیوی کو کھیتی سے تعبیر کرکے دراصل مرد کو پشت کی جانب سے عورت سے مباشرت کرنے سے منع کیا۔ علاوہ ازیں اس طرح کی تعبیر سے خواتین کی تحقیر مقصود نہیں ہے جیسا کہ مخالفین اسلام سمجھ رہے ہیں بلکہ لوگوں کو اغلام بازی یا بچہ بازی (یعنی ہم جنس پرستی) سے منع کرنا بھی ہے چونکہ اس عمل سے بھی اولاد کا تولد ناممکن ہے۔ اغلام بازی دراصل قوم لوط کا عمل تھا جس کی پاداش میں وہ قہر خداوندی کے مستحق بنے تھے۔ بیوی کو کھیتی سے تعبیر کرنے میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اللہ تعالی نے صحبت کی اجازت صرف جسمانی خواہشات کی تکمیل کے لیے نہیں دی ہے بلکہ دین اسلام میں نکاح کو سنت قرار دیکر عبادت اس لیے بنایا گیا تاکہ مسلمان نکاح کی لذت کو اخرت کو سنوارنے کا ذریعہ بنائیں یعنی نکاح نیک اولاد کی نیت کے ساتھ کریں تاکہ اخرت کی کھیتی بنے اور اولاد والدین کے لیے دعا و استغفار کرے اور قیامت کے دن ان کے کام ائے۔ قران مجید کی ایت پاک جس میں بیوی کو کھیتی سے تعبیر کیا ہے ، اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے جسٹس حضرت پیر کرم شاہ ازہری رقطراز ہیں : ’’اگر غور کیا جائے تو اسلامی ازدواج کا سارا فلسفہ سمیٹ کر ان دو لفظوں میں رکھ دیا گیا ہے۔ شادی کا مقصد صرف لذت طلبی نہیں بلکہ حصول اولاد ہے۔ اس لیے اپنے لیے بیوی ایسی منتخب کرو جو نیک اور پاک باز ہو کیونکہ اگر ردی زمین میں تخم ریزی کروگے تو اچھی کھیتی کی توقع عبث ہے۔ نیز جس طرح کسان کی ظاہری خوشحالی بلکہ بقا کا انحصار اس کے کھیت کی حفاظت و نگہداشت اور خدمت پر ہے اور اس کے لیے دلی وابستگی ضروری ہے۔ اِسی طرح تمہارا تعلق اپنی رفیقہ حیات سے ہونا چاہیے۔ غرضیکہ اپ جتنا غور کرتے جائیں گے شادی کے مقاصد اور فرائض نکھر نکھر کر سامنے اتے جائیں گے۔ علاوہ ازیںماہواری ظاہری و باطنی پلیدی و گندگی کے علاوہ مضر و ایذا رساں کا مجموعہ ہونے کے باعث خواتین کے لیے تکلیف دہ چیز ہے جس میں خواتین کی طبیعت نڈھال ہوتی ہے اس کے باوجود نصاری خواتین کی تکلیف کو بالائے طاق رکھ کر بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کرلیتے تھے جبکہ کوئی بھی سلیم الطبع انسان ان ایام میں مقاربت کو پسند نہیں کرتا۔ چونکہ ان ایام میں جماع کرنے سے عاقدین بانجھ ہوسکتے ہیں، زوجین اتشک اور سوزاک جیسی امیزشی بیماریوں سے متاثر ہوسکتے ہیں، میاں بیوی کے درمیان نفرت پیدا ہونے کے قوی امکانات پیدا ہوجاتے ہیں جس کا ازالہ بھی بعد میں ممکن نہیں ہوتااسی لیے حائضہ عورت سے جنسی ملاپ سے منع کیا گیا ہے۔ قابل غور بات یہاں یہ ہے کہ ماہواری کے ایام میں اللہ تعالی نے خواتین پر نماز معاف کردی ہے تو کیا بندہ اپنا حق معاف نہیں کرسکتا۔ اسی لیے دین اسلام نے مسلمانوں کو صحبت سے منع کردیا اور مجامعت کو حرام قرار دے دیا اس کی حکمت کو واضح کرنے کے لیے بیوی کو کھیتی سے تعبیر کیا تاکہ انسان اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لے کہ تخم ریزی کے لیے زمین کا زرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ نرم اور سازگار ہونا بھی ضروری ہے۔ واضح باد کہ قران مجید میں زمین میں بیج ڈالنے کے لیے لفظ حرث یعنی کھیتی مستعمل ہوا ہے جبکہ بیج کی حفاظت اور اس کو اگانے کے لیے لفظ زرع (یعنی زراعت) استعمال ہوا ہے۔ اکثر لوگ شادی ہونے کے بعد صاحب اولاد نہیں ہوتے تو اکثر بیوی کو مورد الزام ٹہراتے ہیں اس باطل خیال کا قلع قمع کرنے کے لیے قران مجید نے بیوی کو کھیتی سے تعبیر کیا ہے تاکہ انسان کو یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ میں اجائے کہ بیوی اولاد کی پیدائش کا صرف ایک ذریعہ اور سبب ہے اور اولاد کی نعمت سے سرفراز کرنے والی ذات تو صرف اللہ تعالی ہی ہے جس کے دست قدرت میں ہر چیز کا تصرف ہے۔ لہٰذا جب انسان اولاد کی نعمت سے محروم ہو تو بیوی کو الزام نہ ٹہرائے بلکہ یہ یقین کامل رکھے کہ صاحب اولاد ہونا اللہ تعالی کا خاص عطیہ ہے وہ جسے چاہے اس نعمت سے نوازتا ہے اور ہم بندوں پر لازم ہے کہ اس کی مرضی کے اگے سرتسلیم خم کردیں۔قران مجید اس حقیقت کو تفصیل سے اس طرح بیان کرتا ہے اللہ تعالی وہ ذات ہے جو بعض والدین کو صرف بچیاں دیتا ہے، بعض والدین صرف بچے دیتا ہے، بعض والدین کو بچے اور بچیاں دونوں دیتا ہے اور بعض والدین کو بے اولاد بنادے۔اج کے سائنسی اور ترقی یافتہ دور میں بھی کسی شخص کو اس بارے میں انتخاب کی قدرت حاصل نہیں ہے۔ یہ قران مجید کی بیان کردہ ایسی حقیقت ہے جس کو انسان پوری توانائی و صلاحیت کا استعمال کرنے کے باوجود کبھی جھٹلانہیں سکے گا۔ لہٰذا حقیقی مومن وہ ہے جو اولاد کی نعمت سے محروم ہوجائے تو ایک دوسرے کو ہدف تنقید بناتے ہوئے افعال رذیلہ اور خصائص ذمیمہ کا ارتکاب نہیں کرتا بلکہ رب کی رضا میں راضی رہتا ہے اور ازدواجی زندگی کو خوشحالی کے ساتھ گزارتا ہے۔ اخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے۔