"غفلت میں سوئی ہوئی قوم”          

0
0
عارفہ مسعود عنبر
 کل ہم واٹس ایپ اسٹیٹس دیکھ رہے تھے کہ ایک ایسے اٹےٹس پر نظر پڑی جس نے دل کو انتہائی اذیت پہنچائی ، اس اسٹیٹس نے دل کو ایسی چوٹ پہنچائی کہ نا معلوم کیوں چشم نمدیدہ ہو گئیں ۔ اور دل  نے دو لفظ لکھنے پر مجبور کر دیا حالانکہ ہم نے امی کے انتقال کے بعد سے کچھ نہیں لکھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ اب ہم کبھی کچھ نہیں لکھ  پائیںگے ، اسٹے ٹس پر پرانے سال کے اختتام اور نئے سال کے آنے کی خوشی میں ایک خاندان کسی ہوٹل میں جھوم جھوم کر ناچ رہا تھا ، ماں۔ باپ جوان بیٹی اور دو چھوٹے بیٹے ، بیٹی ماں کی ناچتے ہوئے ریل بنا رہی تھی اور ماں بیٹی کی ، باپ بھی ناچ رنگ میں کسی سے پیچھے نہیں تھے ، حتیٰ کی پوری فیملی پورے جوش و خروش کے ساتھ اس ناچ رنگ میں مصروف تھی ، نہ معلوم کیوں یہ منظر دیکھ کر دل میں ایک ٹیس سی اٹھی قلب  درد سے کراہ اٹھا جبکہ اس خاندان سے نہ ہماری کوئی رشتہ داری ہے نہ قریبی مراثم ، بس اتنا ضرور ہے یہ ہماری قوم کی خواتین اور بچے ہیں جو مسلمان کہلانے کے مستحق تو ضرور ہیں لیکن بے حیائی میں غیر سے بھی آگے نکل گئے ہیں ،وہاں بھی شاید بیٹی کو باپ کا باپ کو بیٹی کا لہاز ہو ، آج دنیا بھر میں مسلمان تنزل کی طرف گامزن ہیں ملک عزیز میں مسلمانوں کی حالت سے ہر شخص آشنا ہے ، مسمان جگہ جگہ پٹ رہا ہے ، مسلمانوں کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے ، مسجدوں  کو مسمار کیا جا رہا ہے،  مسلمانوں کی جان جانور سے بھی سستی ہے، کیا جن کی یہ حالت ہے وہ حقیقتاً وہی دیندار مسلمان ہیں جنہوں دنیا بھر میں فتح کے پرچم لہرا دیے تھے ، اور آج بھی دین کے لیئے اپنی جانوں کی قربانی پیش کر رہے ہیں اور ہنستے ہنستے شہادت جام پی رہے ہیں ، یا پھر ایسے مسلمان جنہوں بے حیائی کی تمام حدود کو پار کر لیا ہے ، افسوس اس بات کا ہے کہ ہندستانی مسلمان بلکل احساس سے خالی ہو چکا ہے ،جہاں ایک طرف فلسطین میں ہمارے اپنے ہی بھائی اسرائیلی ظلم و ستم کے شکار ہیں دیگر مسلمان سال نو کی رنگ رنگیلیوں میں مصروف ہے ، بچوں کی تربیت میں ماں کا کردار کسی وضاحت کا محتاج نہیں ۔ بچے کے لیے پہلی درس گاہ اور پہلی تربیت گاہ ماں ہوتی ہے ، کیونکہ ماں ہی اسے دین و دنیا کی  تعلیم سے آراستہ کرتی ہے اور اپنے عالی کردار کی مثال بچے کے سامنے پیش کرتی ہے ، اسی لیے اللہ کریم نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے ،  میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کی ایک تاریخ موجود ہے جب بھی میانمار سے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی خبریں آتیں ہم نے اپنی امی کو نہ معلوم کتنی بار  روہنگیاں مسلمانوں کے  لئے آنسو بہاتے دیکھا ہے ، امی اور پاپا کو بوسنیا کے مسلمانوں کے لئے فکر مند دیکھا ، ملک میں ہندو مسلم فسادات میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے لئے روتے دیکھا ، اس وقت شاید اتنی سمجھ نہیں تھی اسی لیے  کبھی ہم امی سے جھنجھلا کر کہتے ” سارے جہاں کا ٹھیکا آپ نے ہی لے رکھا ہے پاپا ٹی وی  پر نیوز مت لگایا کرو ” امی ہفتوں  وہی ذکر کر کر کے روتی رہتی ہیں ، امی نے ہم سے کبھی نہیں کہا کہ تم بھی قوم کے لئے فکر مند ہو ، اللہ سے اپنے سے پہلے امت محمدیہ کے لئے دعائیں کرو ، لیکن اب سمجھ میں آیا یہ فکر تو ہمارے خون میں شامل ہے ، یہ تربیت تو ہمیں اپنی ماں سے وراثت میں ملی ہے ، لیکن اگر مائیں ہی بچوں کو دینی تنزلی کی طرف لے جائیں گی، بے حیائی اور ناچ رنگ کو اپنا اسٹیٹس سمبل تصور کریں گی تو اس قوم کی نسلوں کا مستقبل کیا ہوگا ، آج فلسطین سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ تمام امت محمدیہ کے لیے لمحہ فکر ہے غاصب اسرائیل کے حملوں میں 21 ہزار سے زائد بے قصور فلسطینی شہید ہو چکے ہیں 56 ہزار سے زیادہ زخمی اور 13 ہزار سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں اور بے حسی اور مردہ ضمیر مسلمان نئے سال کے جشن میں مصروف ہیں ،اخر انہیں فلسطینیوں کے معصوم بچوں کی چیخیں کیوں نہیں سنائی دے رہی ہیں ، زخمیوں کے درد کی کراہٹیں  ان بہروں کی سماعتوں سے کیوں نہیں ٹکرا رہی ہیں ، خون میں لت پت لعشیں ،غزہ کا کہرام کیوں نہیں دکھائی دے رہا ہے، حقیقت تو یہ ہے انہیں سب کچھ دکھائی بھی دے رہا ہے اور سنائی بھی دے رہا لیکن وہ شہید مر کر بھی زندہ ہیں اور یہ زندہ ہو کر بھی مردہ ہیں ، کیوں کہ ان کے ضمیر غفلت کی نیند سو رہے ہیں ، ہم اس قوم کے مفکرین اور مصلح سے التماس کرتے ہیں خدارا ان کی اخلاقی تربیت کا بیڑہ اٹھا لیں ،اگلی نسلوں تک اسلام اور اس کی تعلیمات کی صحیح شکل کو باقی رکھنے کے لیئے اس غفلت میں سوئی ہوئی قوم کو بیدار کرنا ہی ہوگا ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا