غزہ اپنی تباہی معاف نہیں کرے گا

0
0

 

محمد اعظم شاہد

ایک سو دس دن بعد بھی غزہ پر صیہونی اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملے جاری ہیں، جنگ زدہ غزہ میں حماس سے انتقام لینے کی آڑ میں بے قصور نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل نے اپنی بربریت سے مستقل طورپر تباہی مچا رکھی ہے ، اسرائیل اور حماس کے درمیان سابقہ جنگوں کے موازنے میں یہ وحشت ناک جنگ انتہائی تباہ کن ثابت ہوئی ہے ۔ فلسطینیوں کی نسل کشی سے اسرائیل کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں، تا دم تحریر پچیس ہزار سے زائد فلسطینی غزہ میں شہید ہوچکے ہیں، جن میں سولہ ہزار خواتین اور بچے شامل ہیں۔
رپورٹس کے مطابق دس ہزار بچے یتیم ہوچکے ہیں اور تین ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہوچکی ہیں۔ اسرائیلی حملوں میں زخمی افراد کی تعداد 63 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے ۔ 7؍ اکتوبر کو اس خونخوار جنگ کا آغاز ہوا تھا، پینسٹھ ہزار ٹن بم غزہ پر اسرائیل نے داغے ، 23 لاکھ فلسطینی باشندے غزہ پٹی کے تنگ چار سو اسکوائر کلو میٹر کے علاقے میں بے کسی کے ماحول میں جنگ بندی کے منتظر ہیں، اسرائیل کی بربریت اورجنگ اب بھی جاری ہے ، ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ دو سو فلسطینی شہید اور تین سو سے بھی زیادہ اسرائیلی حملوں میں زخمی ہوتے رہے ہیں، فوت ہونے والوں کی تدفین اور زخمیوں کا علاج یہ دونوں سنگین مسئلے بنے ہوئے ہیں،ہیبت ناک جنگ سے متاثر غزہ میں دس لاکھ سے زیادہ فلسطینی اپنے مکانوں اور زمین سے محروم ہوکر محفوظ علاقوں میں پناہ گزین ہیں، ان میں خواتین اور بچوں کے حالات بہت مایوس کن ہیں، آدھے سے زیادہ موجودہ آبادی غزہ میں بھوک اور پیاس سے بے حال ہے ، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے انسانی تقاضوں کے تحت فوری جنگ بندی کا اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے اور حماس سے کہا گیا ہے کہ تمام یرغمال اسرائیلی شہریوں کو رہا رکردیں ، مگر دونوں فریقین نے عالمی اداروں کے مطالبہ کو ان سنا کر دیا ہے ، غزہ میں تباہ کاریاں اور اسرائیل کے جنگ بندی سے انکار نے امن کے خواہاں افراد اور اداروں کو مسلسل بے چینی سے روبرو کیا ہواہے ۔
اسرائیل کی بربریت اور حملوں کی مذمت پوری دنیا میں ہوتی رہی، مگر اسرائیل کا دوغلہ موقف کہ غزہ پر حملے اور جنگ محض اپنے دفاع کے لیے ناگزیر کارروائی ہے ، اسرائیلی ظلم و ستم اور مظلوم فلسطینی عوام کی زبوں حالی پر پڑوسی عرب ممالک اور دیگر مسلم ممالک کی مصلحت پسندی اور پراسرار خاموشی افسوسناک ہے ۔ امریکہ کی تاناشاہی کے اثر میںیہ سب ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ کی تائید ہی سے اسرائیل کا فلسطین پر قبضہ ہوا تھا، یہ دونوں ممالک جاری جنگ میں بھی اسرائیل کی مسلسل حمایت میں لگے ہیں، گویا یہ مغربی ممالک کی نام نہاد انسانیت نوازی اور جمہوری اقتدا رکی بقاء کے لیے دکھاوے کی کاوشوں کا بھی کھلا مذاق ہے ۔
نسلی امتیازات Apartheid کا جنوبی افریقہ نے جس طرح خاتمہ کیا، وہ اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے ۔ فلسطین پر اسرائیل کی اجارہ داری اور ان کی سرزمین پر قبضہ کی کڑی مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کی آواز بلند کرنے والے جنوبی افریقہ نے اقوام متحدہ کے قانونی ادارے آئی سی جے عالمی عدالت برائے انصاف میں اسرائیل کے خلاف غزہ میں مچی نسل کشی کے خلاف دو ہفتے قبل مقدمہ دائر کیا تھا، جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرنے والے وکلاء نے مدلل طورپر اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی مذموم تباہیوں کا پانچ ابواب میں تجزیہ پیش کیا۔فلسطینیوں کی نسل کشی کے ذمہ دار اسرائیل کے پانچ اہم جرائم پر عالمی عدالت سے عبوری جنگ بندی اور پھر بہ عجلت ممکنہ مکمل فیصلہ سنانے کی درخواست کی ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کیلئے اسرائیل کی ظالمانہ حرکتوں کا انکشاف کرتے ہوئے عالمی عدالت میں جنوبی افریقہ نے ان امور پر توجہ مبذول کروائی ہے ۔ ( ۱) فلسطینیوں کا قتل عام ( ۲) جسمانی ونفسیاتی مظالم کی بربریت ( ۳) جبراً نقل مکانی کے لیے مجبور کرنا اور ضروری اشیاء کی فراہمی پر پابندی لگانا ( ۴) غزہ میں طبی سہولتوں کو تباہ کرنا ( ۵) بچوں کی ولادت میں طبی سہولتوں کی عدم دستیابی سے مشکلات پیدا کرنا اور علاج کی سہولتوں سے محروم کیا جانا۔ ان واضح وجوہات کے باعث اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کا مجرم ہے ، جنوبی افریقہ کے دائر مقدمہ کو بے وقعت کرنے اسرائیل کے نمائندے وکلاء نے اپنی بے شرمی اور بے حسی کا جارحانہ مظاہرہ کرتے ہوئے بتایاکہ وہ حماس کی جانب سے یہودیوں کی نسل کشی کے جواب میں ان کے حملے ان کے تحفظ اور دفاع کا مظاہرہ ہیں، وہ نسل کشی کا کسی بھی طرح کا ارادہ نہیں رکھتے اور ان کی کوششیں ممکنہ حد تک عام شہریوں کو نقصان سے بچانا ہے ، اپنے کہنے اور کرنے میں نمایاں فرق ظاہر کرنے والے اسرائیل نے جنگ کی نئی تباہ کاریوں میں اپنے لیے سیاہ تاریخ مرتب کرلی ہے۔
عالمی عدالت کا فیصلہ ضابطے کے مطابق تاخیر سے سنایا جاتا ہے مگر اُمید کی جا رہی ہے کہ اگلے ماہ فروری میں عبوری جنگ بندی کے لیے یہ اسرائیل کو پابند کار بنائے گی ۔ ویسے انصاف میں تاخیر ایک طرح سے انصاف سے محرومی بھی ہے ۔ غزہ کے حالات اور اسرائیلی جنگی حملوں کی تفصیلات اور خبریں اب اخبارات میںاندرونی صفحات تک محدود ہوکر رہ گئیں۔ ٹیلی ویژن چینلس میں ’الجزیرہ‘ کے علاوہ کہیں بھی کوریج پر توجہ ہی نہیں ہے ، غزہ میں ایک سو دس دن سے جاری اسرائیل کے حملوں کے باعث حالات تشویشناک رُخ اختیار کر رہے ہیں، پینے کے صاف پانی اور غذا کی قلت، بیرونی ممالک کی امداد اور رسد پر پابندیاں ، اسپتالوں کی تباہی ، علاج کی مشکلات نے غزہ میں دائرہ حیات تنگ کردیا ہے۔ بھوک اور قحط سالی کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں، لگتا ہے کہ غزہ اپنی تباہی کبھی معاف نہیں کر پائے گا۔
[email protected] cell: 9986831777

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا