آفتاب سمستی پوری
گل تو گل ہے جو کبھی خار نہیں ہو سکتا
جیسے مومن کوئی غدار نہیں ہو سکتا
ہے مقدر میں جسے آج بھی سوئے رہنا
خواب غفلت سے وہ بیدار نہیں ہو سکتا
کیوں نہ مٹی میں ملائے گا زمانہ اسکو
وقت رہتے جو خبردار نہیں ہو سکتا
قتل کرتا ہے اگر کوئی کسی انساں کا
شخص جنت کا وہ حق دار نہیں ہو سکتا
لوگ کہتے ہیں اسے آدمی اچھا لیکن
خوبصورت ہے وفادار نہیں ہو سکتا
اسکی مرضی وہ اگر چاہیتوکچہ بھی کہلے
زر نہیں جسکو وہ زردار نہیں ہو سکتا
رہنما خود کو کہے لاکھ یہ سچ ہے لیکن
آدمی جھوٹا تو سردار نہیں ہو سکتا