غزل

0
0

الجھتی ہے کرب سے ملاقات اکثر
بکھیرتے ہیں میرے خیالات اکثر
کبھی چھیڑ دے دل جلا بھی ہمارا
ذرا دیکھ پھر تو کمالات اکثر
ترے دین میں اب رکھا کیا ہے زاہد
ہر ایک باب میں ہے خرافات اکثر
زمیں بھی ہماری کہ تعمیر نو میں
کٹے بس میرے ہی نباتات اکثر
تیری وحشتوں کے یہ پتھر ہے جاناں
گھری ہے یہ گھر پر بھی برسات اکثر
ابھی بھی میں تنہا نہیں ہوں کہ ہے اب
مرے دامنِ دل میں ہیہات اکثر
مری شاعری گُل بدن کیا ہے آخر
ترے ہجر کے ہیں یہ صفحات اکثر
ذرا پھونک کر رکھ قدم اس سفر میں
ہے اس دشت میں تو خطرات اکثر
یہ جنت مبارک ہو تجھ کو تو عارف
یہاں روز ہوتی ہے اموات اکثر

علائی عارف سندی پورہ ،بڈگام
9149495401

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا