غبارے والا

0
0

کسی کی سالگرہ ہو یا شادی، یا کے نئے سال کا جشن، محبتوں سے پردلوںکی ویلنٹائن ڈے پارٹی ہو یا اسکول کی گیدرنگ ، پکنک جارہی بس ہویا جسٹ میرج کی کار یا کے سمندر کے کنارے کی رنگین شام، میلا ہو یا عرس ، یوم آزادی ہو یا یوم جمہوریہ ان سب خوشیوں میں مہمانوں اور بچوں کے ساتھ ساتھ خوشیوں کو دوبالا کرتے ہیں ہمارے گھر کو سجاتے ہیں یہ رنگ برنگے غبارے۔۔۔ بچپن ہو یا جوانی یا آے بڑھاپا۔۔۔غبارہ جس کے ہاتھ آئے وہ کھیل ہی لیتا ہے۔۔۔شان بڑھاتا ہے ہر محفل کی کبھی دیواروں کی تو دروازوں پر جھالروںکی طرح سج جاتا ہے پر کبھی آپ نے سوچا ہے یہ غبارے جو بیچتا ہے وہ کہاں ہوتا ہے؟ جی ہاں ان غبارے والوں کو تو ہم ان خوشیوں میں کبھی یاد بھی نہیں کرتے یہ دو روپے سے دس روپے تک کے غبارے بیچنے والا غریب شخص کبھی کسی کی نظروں میں نہیں آتا شاید میری نظر میں بھی نہیں آتا… میں نے بھی رنگین غباروں کے پیچھے کھڑے میلے کپڑے اور اداس چہرے والے اس شخص پر کبھی دھیان نہیں دیا۔۔۔ نگاہیں ان غباروں سے بنے لولی پوپ، گڑ یااور بندر پر ہی رہی۔۔۔پہلے صرف غبارے پھلائے جاتے تھے رنگین نقطوں والے غبارے ۔۔۔ پر اب ان غباروں کو الگ الگ شکلوں میں ڈھالتا ہے وہ غبارے والا۔۔۔ سب کی نظر اسکے بنائے ان غباروں پر ہوتی ہے۔۔۔ پھولے ہوئے گالوں پر سوکھے آنسو والے اس کے بچے پر ہمارا دھیان کبھی نہیں جاتا ۔۔۔
اس دن بھی کچھ ایسا ہی ہوا ٹریفک سگنل پر گاڑی رکتے ہی بچے بھیک ما نگنے یا گجرے بھیجنے یا گاڑی پوچھنے کا کپڑا لے کر آ جاتے ہیں یہ عام بات ہے۔۔۔ر آج خلاف توقع ایک غبارے والا شیشہ کھٹکھٹانے لگا۔۔۔ایک دم مرجھائے انداز سے غبارے لینے کا اشارہ کیا۔۔۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا بابا میرے بچے اتنے چھوٹے نہیں کے غباروں سے کھیلیں میں لے کر کیا کروں اس نے روہانسی آواز میں صرف اتنا کہا ایک ہی لیلو میڈم جی دس روپے کا ہے میرا بیٹا بھوکا ہے وہ وڈا پاؤ کھا لے گا ۔۔تبھی میرا دھیان اس کے پیروں سے لپٹے اس بچے پر گیا جو شاید رو رو کر تھک گیا تھا اور ہچکیاں لے رہا تھا۔۔۔اُف !
میرے دل میں درد ابھر آیا۔۔۔ میں نے جھٹ پرس کی سامنے کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو 20 روپے کا ایک نوٹ ہاتھ لگا میں نے وہ نوٹ اس کی طرف بڑھایا اور کہا یہ رکھ لو اسے کچھ کھلا دو۔۔۔سگنل ہرا ہو گیا اب دھیرے دھیرے گاڑی آگے بڑھنے لگی میں نے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا مگر اس نے پیسے لیئے نہیں زیادہ دور نہیں تھا ہاتھ بڑھا کر پیسے لے سکتا تھا مگر اس نے ان کی طرف دیکھا بھی نہیں مگر میں نے دیکھ لیا تھا اسکی ڈبڈبائی آنکھوں کو اور سسکتے بچے کے رونے میں بدلتے چہرے کو اور میری گاڑی نے فراٹے بھرنے شروع کردئیے او پیچھے چھوٹ گیا مگر اس کی آنکھوں کا درد میرے پیٹ میں مروڑ کی طرح اٹھنے لگا۔۔۔ کتنی سیلف رسپیکٹ تھی اس شخص میں کے ان 20 روپے پر اس نے اپنے بچے کی بھوک کو ترجیح دی اور میں شرمندہ ہو گئی اگر وہ بھیک کی طرح دینے کے بجائے دو غبارے لے لیتی تو کیا ہوتا اس کا بیٹا شاید اپنی پیٹ کی جلن کچھ کم کر پاتا۔۔۔ مگر ہم لوگوں کو ان کی تڑپ اور مجبوری کہاں دکھتی ہے ۔۔۔وہ دس بیس روپئے ہمارے لیے تو کچھ اہمیت نہیں رکھتے مگر اس سے کسی کے گھر کا چولہا جلتا ہے میری اداسی کو بچوں نے پہچان کر وجہ جاننا چاہی۔۔ ۔بس پھر کیا تھا اب کوئی غبارے والا پاس سے گزرے دوچار غبارے گھر میں آہی جاتے ہیں۔۔۔
اس قصے کو بھی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ ایک شادی میں جانا ہوا یہ شادی ایک کارپوریٹر کے بیٹے کی تھی۔۔۔ بہت بڑے سے لا ن میں۔۔۔ خوبصورت سجاوٹ، اعلی معیار کا کھانا سبھی لوگ کھانے کے بعد آئس کریم اور پان کے مزے لے رہے تھے کی اچانک میرا دھیان کچھ کھیلتے بچوں پر گیا سبھی کے ہاتھوں میں رنگ برنگے غبارے تھے اور وہ انہیں اچھال اچھال کر خوش ہو رہے تھے ہوا میں لین ٹن اڑا کر اسے دور جاتا ہوا دیکھ کر نوجوان جوڑے بھی مزے لے رہے تھے غبارے والا بھی مسکرا مسکرا کر بچوں کو پیارے پیارے گڑیا بندر آئینہ تو لولی پاپ دے رہا تھا آج وہ بھی خوش تھا شاید اس لیے کہ اس کا دھندا آج کچھ زیادہ اچھا ہو رہا تھا وہ بھی بچوں کو کھیلتا دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔۔۔ اس کے پیروں کے پاس اک ننھی بچی بیٹھی دھیرے دھیرے غبارے میں پمپ سے ہوا بھر رہی تھی… کھیل کھلونے کھیلنے کی عمر میں وہ اپنے والد کے ساتھ ان کے کام میں مدد کر رہی تھی ساتھ ساتھ اس کی نظر آئس کریم کھاتے بچوں کی طرف بھی تھی ۔۔۔ آنکھوں میں اداسی تھی سوچتی ہوں تو لگتا ہے کہ کتنی بے بس ہیں زندگیاں۔۔۔ شاندار پارٹیوں اور لزیز کھانوں اور ضائع ہوتے اناج کے ڈھیروں میں ان غریبوں کے لیے ایک آئس کریم کپ بھی نہیں۔۔۔ جتنا ہم ضائع کرتے ہیں اس کے بدلے میں اس کے گھر کا پورے سال کا خرچہ نکل آئے شاید۔۔۔وہ باپ اپنی بیٹی کا دل کیسے رکھتا ہوگا۔۔۔ وہ خود کتنا صبر کرتا ہوگا۔۔۔جب بچوں کی آنکھوں سے بھوک سے آنسو ٹپکتے ہوںگے۔۔۔مٹھائی کھانے کوللچائے دل کو کیسے مناتا ہوگا۔۔۔ وہ لان کی جگمگاتی روشنی، وہ اجالے اورقیمتی ملبوسات،وہ اعلی قسم کے کھانے آج مجھے بے ذائقہ لگے۔۔۔ گیس کے غبارے کی طرح میرے اندر کابھی گھمنڈ پھس ہو کر ہوا میں اڑ گیا۔۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا