عہدِعالمگیری میں مندروں کے اوقاف

0
0

انس مسرورؔانصاری

ہندوستان کے مسلم سلاطین میں مغل بادشاہ محی الدّین اورنگ زیب عالمگیرکوکئی زاویوں سے مخصوص اورانفرادی حیثیت حاصل ہے۔اسی بادشاہ کے عہد میں ہندوستان کوسونے کی چڑیاکہاگیا۔اس کادورِ حکومت سب سے زیادہ طویل رہاہے۔اُس نے پچاس سال حکومت کی اورہندوستان کوجنت نشان بنایا۔پنڈت ایشوری پرشاداپنی ’’تاریخِ ہند‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’اورنگ زیب اپنی لیاقت،قابلیت، عدل وانصاف ،مذہبی عصبیت سے پاک،نیک دل ہونے کی وجہ سے ’’عالمگیر‘‘کے لقب کامستحق تھا۔وہ بہت اچھاانسان اوربہت اچھابادشاہ تھا۔رعایااُسے پسندکرتی تھی۔اُس نے مغل سلطنت کوبڑی وسعت دی۔وہ بہت عقل مند اوربہت بہادرتھا۔‘‘
اورنگ زیب کازیادہ وقت میدانِ جنگ میں گزرا۔شیواجی اوردوسرے سرداروں سے معرکہ آرائی کے باوجودانتظامِ سلطنت سے کبھی غافل نہیں رہا۔ان باغی سرداروں سے محاذآرائیوں کی وجہ سے متعصب اورغیرحقیقت پسنداپنوں اورپرائے لوگوں نے اورنگ زیب کوبہت بدنام کیا۔حالانکہ ان لڑائیوں کامذہب سے کوئی تعلق نہ تھا۔وہ خالص سیاسی لڑائیاں تھیں۔جنھیں مذہب کارنگ دے کراُسے ظالم وجابر،ہندوؤں کادشمن۔زبردستی مسلمان بنانے والا۔ہندوؤں کوقتل کرنے والااورمندروں کولوٹنے اورگرادینے کاالزام لگاکرخوب بدنام کیا۔اِن دشمنیوں کی کئی وجوہات ہیں جن کابیان کافی تفصیل طلب ہے۔انصاف پسند مورخین بھی بہت ہیں جنھوں نے اورنگ زیب کی تعریف کی ہے۔
ہماراموضوع ’’عہد عالم گیر میں مندروں کے اوقاف‘‘ہے،اس لیے ہم اُسی پرگفت گوکریں گے۔اس سے اورنگ زیب کی اصل شخصیت اُبھرکر، نکھرکرسامنے آئے گی۔
قصبہ’’چترکوٹ‘‘کے ایک چھوٹے مگر خوب صورت مندرکے مہنت کے پاس دوبیش بہااورنایاب چیزیں ہیںجن کی وجہ سے یہ مندرکافی مشہورہے۔ایک توسونے کی مورتی ہے جسے مہنت نا رائن داس ’’بالاجی یاٹھاکرجی‘‘ کی مورتی کہتے ہیں۔دوسری چیز جوبہت زیاد ہ اہمیت اختیارکرچکی ہے وہ مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیرکے عہدِ حکومت کاایک شاہی دستاویزہے جس کی حفاظت مندرکے مہنت اپنی جان سے بھی زیادہ کرتے ہیں۔ بہت ہی معتمداورکم لوگ ہیں جن کواس دستاویزکے دیدارکاشرف حاصل ہے۔قصبہ چترکوٹ میںیہ د ستاویزہندومسلم ایکتاواتحادکی علامت بن چکاہے۔دونوں فرقے اس دستاویز پر فخرکرتے ہیں۔کئی اعتبارسے اس کی خصوصی اہمیت ہے۔اس دستاویزکی ابتداء ’’ا للہ اکبر‘‘ اور’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘سے ہوتی ہے۔دستاویزکے نیچے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیرکی شاہی مہرثبت ہے۔دستاویزمیں تحریر شاہی فرمان کے مطابق ’’بالاجی مندر‘‘اوراس عہدکے مہنت بالک داس جی کے لیے شاہی سرپرستی و حفاظت کی یقین دہانی ہے۔یہ دستاویزاورنگ زیب کے عہد حکومت کے پینتیسویں (۳۵)سال میں اُنیس رمضان المبارک کے دن ۱۶/جون ۱۶۹۱؁ء میں لکھاگیاہے۔شاہی حکم نامے میں چترکوٹ کے حاکم کویہ حکم ہے کہ مہنت بالک داس کومندرکے انتظام واخراجات کے لیے دی جانے والی زمینوں(آٹھ گاؤں)کی حدودمقررکریں۔شاہی فرمان میں یہ بھی حکم ہے کہ انتظام مستقل ہو اورمندر کودی جانے والی زمینوں پرمال گزاری اورہرطرح کاٹیکس معاف ہے۔فرمان کے مطابق یہ حقوق نسل درنسل منتقل ہوں گے۔پھراُن آٹھ گا ؤوں کاتفصیلی جائزہ ہے جن سے ہونے والی آمدنی مہنت بالک داس کوملتی تھی۔دستاویزپراورنگ زیب عالمگیرکے وزیرِ مال سعادت حسن خاں کی مہرہے اوربہرمندخاں نام کے کاتب نے اس دستاویزکولکھاہے۔
عرصۂ درازسے روزانہ مندر میں حاضری دینے والے دواریکاپرشادسینی کہتے ہیں۔’’ایودھیاکے لوگوں کوجاکربتاؤ کہ ہمارے ٹھاکرجی ایک ایسے مندرمیں رہتے ہیں جس کواورنگ زیب عالمگیر نے بنوایاتھا۔‘‘
ریاست رام نگر،ضلع بارہ بنکی (اتّرپردیش)کے ایک معززشہری بابوست نرائن نے برٹش حکومت کے ایک اعلاعہدہ سے سبکدوشی کے بعدلاہورکے مشہوراخبار’’سیاست‘‘(۱۹۲۴ئ) میں ایک مضمون شائع کرایا۔اس اخبارکے مدیرسیّدحبیب جلاپوری تھے۔بابوست نرائن لکھتے ہیں۔
’’ضلع سیتاپورمیں’’سرکہ‘‘نامی ہندوؤں کاایک مشہورمندرہے جس کے مہنت کے پاس اورنگ زیب عالمگیرکی ایک سندہے جس کی روسے بہت سے مواضعات عالمگیرنے اس ہندوعبادت گاہ کے مصارف کے لیے عطاکیے تھے۔اُس نے متھرامیں بلدیوجی کے مندرکے لیے بہت سے گاؤوں وقف کیے جس کی سند(شاہی فرمان)موجودہے۔ا لہٰ آبادمیں جمناکے کنارے اُس کے دادامغل سمراٹ اکبرِاعظم نے ایک قلعہ تعمیرکرایاتھاجس میں ایک عالی شان مندربھی ہے جس میں قدیم نایاب اورقیمتی مورتیاں بھی رکھی ہوئی ہیں لیکن اورنگ زیب انھیں نقصان توکیاپہنچاتا،ان کی طرف توجہ بھی نہ کی۔‘‘
عہدِعالمگیری میں مندروں کے اوقاف کی ایک طویل فہرست ہے۔یہ فہرست محکمہ وقف بورڈ کے پاس موجود ہے۔اس کے باوجوداورنگ زیب کے دامن کوداغدارکیاگیا۔
اسے مطعون کیاگیا۔حیرت ہوتی ہے ۔یہ کیساتعصب کااندھیرا ہے کہ جس نے حقیقت کوچھپادیا۔جانب دارمورخین کی عقلوں پرکیسے اتنے دبیز پردے پڑگئے کہ جوکچھ سامنے تھااُسے دیکھ کربھی ان دیکھاکردیا۔اگرکسی نے دکھاناچاہاتودیکھنے سے انکارکردیااورفرضی کہانیوں کے زہر یلے اثر ات کوخوب پھیلایا۔ان سب باتوں کاجو اب موجود ہے مگرکیاکریں۔اُنگلیاں فگاراپنی،خامہ خوں چکاں اپنا۔وقت کی برف لمحہ لمحہ پگھلتی جارہی ہے اورزندگی کاسرمایہ جونقد جاں دے کرلائے تھے،کم سے کم ترہوتاجارہاہے۔جب آشوب کامحشربرپاہوتوفرصت کسے جو دل کے ٹوٹے ہوئے آئینہ کی ریزہ ریزہ کرچیں سمیٹ کر،اُنہیں جوڑ جوڑکے ایک ایساآئینہ بنائے جس میں بے چہرہ لوگوں کواپناچہرہ نظرآسکے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا