شاہ ہلال
اسلام آباد(اننت ناگ)//عید الفطر کے روز جنوبی قصبہ اننت ناگ میں بھڑک اٹھے تشدد کے دوران براکپورہ سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ نوجوان شیراز احمد ڈار کی موت نے علاقہ کے لوگوں کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔ 30سالہ شیراز احمد ڈار ولد مرحوم غلام محی الدین ڈار پوسٹ گریجوٹ تھا اور بی ایڈ میں داخلہ لے چُکا تھا ،مہلوک اپنے پیچھے معزور والدہ بھائی و تین بہنوں کو چھوڑ گیا ہے ۔ بھائی الگ مکان مین رہائش پزیر ہے جبکہ بہنوں کی شادی ہو چُکی ہے ۔شیراز ایک منزلہ مکان میں اپنی ناتواں ماں کے ساتھ رہائش پزیر رہتا تھا ۔ماں جسمانی طور ناتواں ہونے کے سبب مہلوک کا زیادہ تر وقت گھر کے کام کاج میں ہی صرف ہوتا تھا جس کے سبب گاﺅں کے کم لوگ ہی انکو جانتے تھے ۔غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے شیراز ڈار کے قریبی دوست نے نمائندے کو بتایا کہ شیراز کافی ہونہار و شریف لڑکا تھا ،والد کے انتقال کے بعداُنہوں نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر کی ساری زمہ داریاں سنبھالی ، اور ماں کا ہاتھ بھی بٹا رہے تھے ۔ شیراز ٹیچر بننے کا خواہاں تھا جس کے لئے اُنہوں نے کہی بار فارم بھی بھرے تاہم اُنکی خواہش پوری ہونے سے پہلے ہی شیرازموت کی آغوش میں چلے گئے ۔ شراز کو کرکٹ سے کافی لگاﺅ تھا اور اُنہیں گیند بازی میں کافی ماہرت تھی تاہم گھر کی زمہ داریوں کے سبب اُنہوں نے ایک سال قبل کھیل کود سے بھی کنارہ کشی اختیار کی ۔دوست نے مزید کہا کہ شیراز آزادی کا حامی تھا اور دنیا میں مسلمانوں پر ہورہے ظلم و ستم سے کافی مایوس رہتا تھا ۔وہ اجتماعیت میں دلچسپی رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے نماز عید عیدگاہ اننت ناگ میں پڑھنے کو ترجیحی دی ۔اُنہوں نے کہا کہ نماز کے فورََ بعد بھڑک اُٹھے تشدد کی وجہ سے اُس نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ جائے وقوع سے نکلنے میں ہی دلچسپی رکھی تاہم فورسز اہلکاروں نے براہ راست پیلٹ چھرے داغے جس کے زد میں شیراز آگیا اور وہ خون میں لت پت زمین پر گر گیا اگر چہ اُس سے اسپتال پہنچانے کی کوشش کی گئی تاہم فورسز اہلکاروں نے اس کی اجازت نہیں دی اور قریباََ10منٹ تک شیراز سڑک پر سر راہ پڑا تھا جس کے سبب اسکے جسم سے کافی خون ضائع ہوگیا بعد میں چند نوجوانوں نے جرائت کا مظاہرہ کر کے اُس سے اسپتال کے عقبی سمت سے دیوار کے اُوپر سے اسپتال پہنچایا تاہم وہ اسپتال پہنچنے سے قبل ہی شیراز زخموں کی تاب نہ لاکراس دار فانی سے چل بسے، اگر چہ لوگوں نے جواں سال نوجوان کی موت کی زمہ دار فورسز اہلکاروں کو ٹھرایا تھاتاہم پولیس نے لوگوں کے الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کیا کہ مہلوک نوجوان گرنیڈ پھینکنے کے تاک میں تھا جس دوران گرنیڈ انکے ہاتھ میں پھٹ گیا اور گرنیڈ کے آہنی ریزوں سے انکی موت واقع ہوئی ہے ،انکی موت سے پورا علاقہ غم میں ڈوبا اور اسطرح عید کی خوشیاں ماتم میں تبدیل ہو گئی ۔ شیراز کو ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں مقامی مزار شہدا میں نم آنکھوں سے سپرد خاک کیا گیا۔