نگارش قلم : مقصوداحمدضیائی
آج سے نصف صدی قبل بنجر اور غیر مانوس ماحول میں ناپختہ کمروں میں ایک مدرس اور چند طلبہ سے جس چھوٹے سے مدرسے کی بنا ڈالی گئی تھی ؛ کون کہتا تھا کہ وہ ایک جامعہ کی شکل اختیار کر لے گا اور اطراف و اکناف کی نسلیں بدل جائیں گی۔ لیکن تا صبح قیامت اس کی سرزمین اور جامعہ ضیاء العلوم پونچھ جموں و کشمیر اس کے بے لوث امت پر قربان اور جاں سپار معمار کی انتہائی قابل قدر تاریخ ساز اور دیدنی خدمات بھلا تو کیا پائیں گی اپنے شعور و آداب کے حوالے سے ہمیشہ ان کی رہینِ منت رہیں گی اور امید واثق ہے کہ قیامت اور بروز جزاء بھی عنداللّٰہ یہ کوہ و چمن اس سب پر شاہد عدل ہوں گے۔ کیونکہ
کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کر چلا تھا
صدیوں مجھے گلشن کی فضاء یاد کرے گی
جامعہ ضیاء العلوم پونچھ محراب علم و عرفاں اور ترجمان علوم و معرفت ہونے کے ساتھ ساتھ خطہ جموں و کشمیر کا ایک ایسا عظیم دانش کدہ ہے ، جس میں تہذیب و تمدن اور اسلامی ثقافت کی انوکھی تعمیر ہوتی ہے ، یہاں علم و فکر کے بے شمار سرچشمے اور اسلامی فکر کی ترویج و اشاعت کے شیریں اور فیض رساں آبشار اور دانش و بینش کے سوتے مسلسل رواں دواں ہیں ، حسن انتظام ، تعمیر دین و ملت ، منصف مزاجی ، اعتدال پسندی ، اخوت و محبت اور باہم روا داری ادارے کا وصف خاص رہا ہے ، یہاں کی نورانی مجالس اور روحانی حلقہائے ذکر و فکر قلوب کی رنجیدگی و پڑمردگی کے لیے حیات بخش سامان ہیں ، اس موقع پر اللّٰہ رب العزت کے فضل و کرم سے جامعہ کا عرصہ خدمات نصف صدی کو مکمل ہوا اور کاتب حروف کو جامعہ کی چہار دیواری میں پینتیسواں سال مکمل ہوا چاہتا ہے۔ اس مرکز علم و عرفاں کے دامن میں شیخ الجامعہ استاذ گرامی قدر حضرت مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ العالی اور حضرات اساتذہ کرام کے زیر سایہ ہم نے بہت کچھ پایا ، یہ تاریخی بات ہے کہ ہر کامیاب تحریک کو چیلجنز کا سامنا رہتا ہے جامعہ کو بھی ابتدا ہی سے مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا رہا بلکہ آج بھی یہ مرکز علم و عرفاں مختلف چیلنجوں اور تقاضوں میں سربکف روبہ عمل ہے ، جامعہ کی علمی ، دینی ، دعوتی اور فلاحی خدمات کسی تعارف و تعریف کی محتاج نہیں ہیں ، ویسے تو جامعہ کا ہر پروگرام یادگار اور مثالی رہا ہے ، تاہم 14/ شعبان المعظم 1445ھ مطابق 25/ فروری 2024ء بروز اتوار بموقع شب براء ت جامعہ کا 50 واں سالانہ جلسہ عام و دستار بندی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قدرت نے اس سالانہ پروگرام کو ایسی مقبولیت بخشی ہے کہ بن بلائے ہر سال عوام الناس کا جم غفیر امنڈ آتا ہے ، اسٹیج کی ذمہ داری حسب روایت عاجز کی ہی رہی , پروگرام کے اہمیت کے پیش نظر اگلے روز ہی تیاری کا کام شروع کر دیا گیا اور قبل از وقت ہی خوبصورت اسٹیج سجا دیا گیا ، بروز اتوار بعد نماز عصر جامعہ کے مؤقر استاذ مولانا ایازاحمد صاحب ضیائی مدظلہ کی نظامت میں طلبہ جامعہ کا پروگرام شروع ہوا۔ پہلی دونشستوں میں طلبہ جامعہ نے تلاوت قرآن مجید فرقان حمید اور نعتہائے رسول مقبول اور مختلف قیمتی موضوعات پر بہترین تقاریر پیش کیں اور سامعین کی سماعتوں پر نقش رقم کرنے میں کامیاب رہے۔نشست ثالث جو کہ اس پروگرام کی اہم نشست ہوتی ہے ، بانی جامعہ حضرت مولانا غلام قادر صاحب زیدہ مجدہ کے اسٹیج پر لگی نشست پر براجمان ہوتے ہی حضرت مولانا سعیداحمد صاحب مدظلہ نائب مہتمم جامعہ ہذا نے نظامت سنھبالی ، نعت و تقریر کے بعد حاضرین کا جم غفیر دعوت نظارہ دے رہا تھا ، وسیع مسجد تنگ دامنی کا شکوہ کر رہی تھی ، اہل ایمان کے ہجوم بیکراں میں جامعہ ضیاء العلوم کے علم و ایثار کے پچاس سالہ سفر کے حوالے سے مولانا سعید احمد حبیب صاحب کی برسراسٹیج برجستہ گفتگو نے سماں باندھ دیا ، حاضرین و ناظرین کی طرف سے ماشائ اللّٰہ … سبحان اللّٰہ … وصلی اللّٰہ … کی آواز سے فضا حسین اور حاضرین پر کیف طاری نظر آیا۔ مسرت و شادمانی کے ان پر بہار ساعتوں میں مندوب خصوصی حضرت مولانا رحمت اللّٰہ میر قاسمی صاحب زیدہ مجدہ کی تشریف آوری ہوئی ناظم پروگرام موصوف نے مہمان مکرم کی آمد پر اپنی گفتگو روک کر اولا سامعین کے روبرو حضرت والا کی مشغولیات اور گراں بہا خدمات اور خصوصیات پر عمدہ پیرایہ میں تعارفی باتیں ذکر کیں۔ ناسپاسی ہوگی اگر اس مقام پر میں عزیزالقدر مولانا حافظ محمد اعجاز ضیائی صاحب سلمہ کا ذکر خیر نہ کروں ، میری دانست کے مطابق آں موصوف جامعہ کی تاریخ میں فن نعت گوئی میں زمانہ طالب علمی ہی سے سکہ رائج الوقت کی حیثیت کے حامل رہے ہیں ، موصوف کی شیریں اور رس بھری ، پْر حلاوت اور دل کش و سحرانگیز نعت خوانی نے ماضی کی یادوں کو تازہ کر دیا۔ ماشاء اللّٰہ مدت بعد بھی آواز کو سلامت پایا۔ "اللّٰہم زد فزد صلاحًا وَّ فلاحًا” بعینہ حافظ محمد عرفان سلمہ متعلم جامعہ ہذا جن کی مترنم کاوشوں کو خطہ میں مقبولیت حاصل ہو رہی ہے حق جل مجدہ مزید کامرانیاں مقدر کرے۔ چنانچہ دیر رات فارغینِ دورہ حدیث شریف کے سات طلبہ اور چودہ حفاظ کی دستار بندی کا عمل شروع ہوا ، جس میں خاص بات یہ رہی کہ تکمیل حفظ کرنے والے طلبہ میں سے سات خوش نصیب طلبہ نے تین دن میں قرآن مجید سنایا۔ اس بات کے اظہار سے مقصد فقط طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے اور بس! لاریب یہ سب خدا وندِ کریم کے فضل و احسان ہی کا ثمرہ ہے ، اس کامیاب پیش رفت پر نفسیاتی سرور اور طبعی نشاط و انبساط کا اس قدر عجیب عالم ہے کہ اس کے بیان کے لیے الفاظ و تعبیرات میرے پاس نہیں ہیں۔ دعا ہے اللّٰہ رب العزت طلبہ عزیز کے علم و عمل اور عمر میں خوب خوب برکت دے ، نظر بد اور تکبّر سے بچائے اور عمر بھر قرآن مجید یاد رکھنے کی توفیق دے ، طلبہ عزیز کے ماں باپ اور اساتذہ کرام اور منتظمین اور خادمین اور معاونین مدرسہ نیز شعبہ عالمیت و دینیات کے ہمارے ہر دلعزیز اور مؤقر اساتذہ کرام جنہوں نے طلبہ کا قرآن مجید سنا ؛ کو دارین میں شایان شان بدلہ عطا کرے۔ اللّٰہ کرے ان طلبہ عزیز کا یہ عمل دوسرے طلبہ کے لیے نشانِ راہ ثابت ہو اور وہ بھی قرآن مجید حفظ کرنے میں مطلوب محنت کریں ، اللّٰہ رب العزت پڑھنے اور پڑھانے اور کام کرنے والوں کی ریا کاری اور نام و نمود سے حفاظت فرمائے ، اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق دے۔ ہر ادارے میں ایسے طلبہ اور اساتذہ کی بھرپور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے عوام و خواص کو اس طرف اپنی ذات سے توجہ لینی چاہیے حوصلہ افزائی سے بلاشبہ یہ عظیم الشان کام مذید بڑھے گا۔ ان شاء اللّٰہ العزیز … اس موقع پر شعبہ علوم عصریہ ہائی اسکول کے دو حفاظ طالب علموں کی دستار بندی بھی ہوئی اور تیرہ ابنائے قدیم جو اعلی سرکاری عہدوں پر فائز ہیں ان میں سے اکثریت تو حاضر نہ ہوسکی متعلقین کے ذریعہ ان تک انعامات پہنچائے گئے۔ دستار بندی کے عمل سے فراغ پر بانی جامعہ مدظلہ کے پچاس سالہ شاندار خدمات پر بطور خراج عقیدت ابنائے قدیم جامعہ کی طرف سے حضرت والا کی خدمت میں سپاس عقیدت اور قیمتی تحفہ اور رداء تکریم پیش کی گئی۔ اور پھر نمونہ اسلاف حضرت مولانا رحمت اللّٰہ میر القاسمی مدظلہ العالی مہتمم دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ و رکن شوریٰ ام المدارس دارالعلوم دیوبند و مؤقر صدر جموں و کشمیر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے خطاب کا آغاز ہوا۔ جاننا چاہیے کہ حضرت والا زیدہ مجدہ دینی مدارس کی ایک دردمند شخصیت ہیں ، ریاست بھر میں آپ کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگرچہ کاتب السطور کی حضرت والا کی بالمشافہ کوئی قابل ذکر ملاقات کبھی نہیں رہی ہے اور نہ ہی دارالعلوم رحیمیہ کبھی جانا ہوا ہے۔ البتہ اجتماعی پروگراموں میں روبرو اور سوشل میڈیا کی وساطت سے استفادہ کا شرف پاتا رہا ہوں اور دیگر دینی ، علمی ، دعوتی اور تعمیری سرگرمیاں علم میں آتی رہی ہیں۔ میرے نزدیک عظمت و وقار کے پیکر ، سلیقہ میں منفرد و بے مثال ، شائستگی میں باکمال ، تقویٰ میں اسلاف کی یادگار ، طہارت میں بزرگوں کا تذکار ، سادگی میں حسن فطرت ، صفائے باطل میں جمال قدرت ، ایک معقول ، معتبر ، محترم ، مؤقر ، باعظمت ، بارعب ، ہردل عزیز اور دل پذیر شخصیت کہیں نظر آئے تو آپ اسے بے تکلف ” مولانا رحمت اللّٰہ میرقاسمی صاحب زیدہ مجدہم ” کا نام دے سکتے ہیں۔ آپ ایک دل دردمند اور فکر ارجمند کی حامل شخصیت ہیں۔ پیرانہ سالی کے باوجود سورج کی گردش کے ساتھ محو گردش ، صاحب بصیرت اور باخبر شخصیت ، اس دور پر فتن میں جب کہ قدم قدم پر بلائیں ، مخالفتوں کا سیل رواں ، مصائب کی کوندتی بجلیوں ، مخالفتوں اور مخاصمتوں نے بار ہا اس مرد آہن کا راستہ روکنا چاہا ، مگر مولانا موصوف حوصلے اور ہمت کے ساتھ اپنے فریضے کو انجام دیتے رہے اور ضعیف العمر ہونے کے باوجود مستعدی سے قوم و ملت کی ترجمانی اور مدارس و مساجد کے تحفظ کے لیے کھڑے رہے ، آپ کے اوصاف کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بزرگان دیوبند کیسے ہوتے ہوں گے؟ علم و عمل میں ، اخلاق و اخلاص میں ، دقیقہ رسی و دوراندیشی میں ، قوت فیصلہ و اصابت رائے میں ، اتباع سنت اور وضع قطع میں ، سادگی و شرافت میں ، وقار اور شانِ تربیت میں ، بے مثال و باکمال۔ حضرت والا ضعف و علالت کے باوجود دوسری بار جامعہ کے اس پر وقار پروگرام میں تشریف فرما ہوئے اور ہزاروں کی تعداد کے رو برو نہایت جان دار و شان دار ، مؤثر اور ایمان افروز خطاب فرمایا دوران خطاب محسوس ہوا کہ حاضرین کی نبضیں حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ کے ہاتھ میں آگئی ہیں ، مجمع پر سکوت طاری رہا ، دل نے شہادت دی کہ اسلاف کی علمی و کتابی صحبت کا ایسا فیض یافتہ مقرر و مدبر ، خال خال ہی اٹھا ہے۔ بہر حال حضرت مولانا رحمت اللّٰہ میر قاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور استاذ گرامی قدر حضرت مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ العالی عبقری شخصیات کی موجودگی نے جامعہ ضیائ العلوم کے علم و ایثار کے پچاس سالہ سالانہ اجلاس عام کو جاوید بنا دیا ، اخلاص و عمل کے ان عظیم پیکروں کا وجود انعام خداوندی ہے۔ دعا ہے اللّٰہ تعالی ہمارے اکابر کے سائے کو تا دیر سروں پر قائم و دائم رکھے فیض کو جاری و ساری اور عام و تام فرمائے۔
اختتامیہ : مادرعلمی جامعہ ضیاء العلوم پونچھ علم و ایثار کے شاندار پچاس سالہ سفر پر بانی جامعہ استاذ العصر حضرت مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ کی خدمات جلیلہ اور آپ کے قابل قدر رفقاء جماعت کے پر خلوص تعاون کو یاد کرتے ہوئے اس علمی و دینی تحریک کی بقاء کے لیے بارگاہ ایزدی میں دعا ہے کہ خدا کرے یہ مرکز توحید و سنت ماضی کی طرح حال اور حال کی طرح مستقبل میں بھی اسی طرح کامیابی کے مراحل طے کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچے کہ جو بانی جامعہ و جماعت کے سپہ سالار کی نگاہوں کا مرکز و محور ہو ؛ اور پچاس سالہ تقریبات جن کی تمہید یہ عظیم الشان اجلاس عام تھا بخیر انجام پائیں۔
یکے از ابن قدیم و خادم التدریس جامعہ ضیاء العلوم پونچھ