ڈاکٹر سیّد احمد قادری
: 8969648799
ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ حکمراں، اقتدار اور حکمرانی کے دوران اعتدال کے ساتھ وقت اور حالات کے تقاضوں اور اپنی ذمّہ داریوں کو سمجھتے ہیں ۔ یہ اقتدار کا نشہ ہی ہے جو بعض حکمرانوں کو ضرورت سے زیادہ خوش فہمی یا احساس برتری میںکر دیتا ہے اور وہ خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگتے ہیں ۔جس کے نتیجہ میں عوام الناس کو سکھ چین اور سکون نصیب نہیں ہو پاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال اس وقت ہمارے ملک کی ہے ۔
ہندوستان میں اس بار پہلی بار عام انتخابات نہیں ہو رہے ہیں ۔اس سے قبل 17 بار ملک کے اندر لوک سبھا کے انتخابات ہو چکے ہیں ۔ لیکن اس بار جس طرح کا منظر نامہ دیکھنے کو مل رہا ہے ، ایسا کم ہی دیکھنے کو ملا ہے ۔ اس بار کا انتخاب کُل سات مرحلوں میں ہونا ہے ۔ جن میں تین مرحلے طئے ہو چکے ہیں اور چار مراحل ابھی باقی ہیں ۔ انتخابات کے قبل سے ہی 370 اور 400 کے پار کا نعرہ شروع ہو گیا تھا ۔370 کے نعرہ کے پیچھے دراصل نفسیاتی اور پولرازیشن کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ دیکھو کشمیر سے ہم نے ( سارے قوانین اور اصولوں کو طاق پر رکھتے ہوئے) 370 ختم کرکے کشمیری مسلمانوں کو ملنے والی مراعات اور سہولیات کو ختم کر دیا ہے۔حقیقت یہ کہ اس سے قبل کی کسی حکومت نے ایسی ناانصافی کرنے کی ہمت نہیں کی تھی ۔اس لئے ملک کے ووٹرس بی جے پی کو 370 سیٹوں اور بی جے کی حلیف پارٹیاں اس ہندسہ کو بڑھا کر 400 پار کریں ۔ یہ بھی عجیب خوف کا عالم ہے کہ جس کشمیر سے 370 کی ختم کرنے پر اپنی پیٹھ تھپتھپائی جا رہی ہے اس کشمیر میں خود بی جے پی نے الیکشن لڑنے کی جرأت نہیں کر سکی اور وہاں کی تینوں سیٹوں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔ 370 اور 400 کا یہ نعرہ اتنی شدّت سے ہورڈنگوں ، بینروں ، ریڈیو، ٹی وی کے مختلف چینلوں ، سوشل میڈیا ، گودی میڈیاوغیرہ پر دیکھا اور سنا گیا کہ لوگوں کو ایسا لگا کہ 400 پار کا یہ ہدف’ مودی ہے تو ممکن ہے‘ ۔ اس لئے کہ پچھلے دو انتخابات میں جس طرح مودی کا’ کرشمہ‘ دیکھنے کو ملا ،ایسا ہی’ کرشمہ‘ اس بار بھی یعنی 2024 ء میں بھی دیکھنے کو ملے گا اور 400 کے پار نہیں تو کم از کم 400 کے آس پاس ہو سکتا ہے ۔ اس ہدف کو پانے کے لئے ملک کے کروڑوں نہیں اربوں روپئے پانی کی طرح بہا کر رام مندر کی ( آدھی اھوری)تعمیر کر مودی نے ووٹ حاصل کرنے کے لئے مودی کے مطابق پانچ سؤ سال سے جو خواب ادھورا تھا ، اسے پورا کیا اور رام کولاکر اس میں روح (پران پرتیسٹھا) پھونکی ۔ ایسے میں اس حکومت کو اس کا بھرپورصلہ ملنے کی پوری توقع تھی ۔ لوک سبھا کا انتخاب جیتنے کے لئے مودی حکومت نے حزب مخالف کے سرکردہ لیڈروں یہاں تک وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ تک کو پہلے ای ڈی ، سی بی آئی ، انکم ٹیکس وغیرہ سے ڈرانے دھمکانے کی کوششیں کی گئیں ،جو نہیں ڈرے انھیں خریدنے کی کوششیں کی گئیں کہ ہم سے مقابلہ کرنے کی ضد چھوڑ دو ، ہماری این ڈی اے کے مقابلے نئے تشکیل شدہ اتحاد ’انڈیا‘ میں شامل ہو کر اسے مضبوط نہ کرو ۔لاکھ کوششوں کے باوجود حزب مخالف کے کئی لیڈران رضامند نہیں ہوئے اور ان لوگوں نے ملک کی سا لمیت ، آئین و جمہوریت کی حفاضت کے لئے جیل کی صعوبتوں کو ترجیح دی ۔ ’انڈیا‘ اتحاد کے لئے ابتدائی کوشش کرنے والے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو اپنے پالے میں کرنے میں مودی ضرور کامیاب ہو ئے ۔ کانگریس کے کئی رہنماؤں کو بھی خوف و دہشت میں مبتلا کر انھیں اپنی پارٹی میں شامل کیا گیا۔لیکن مودی حکومت کی یہ خوش فہمی ہی رہی کہ وہ کانگریس کے نوجوان لیڈر راہل گاندھی جنھیں کنیا کماری سے کشمیر تک کے’ بھارت جوڑو نیائے یاترا ‘کے بعد ان کی اور کانگریس کی بڑھتی مقبولیت کو جس طرح حکومت کی ایمأ پر گودی میڈیا کے ذریعہ حقیر بتا نے کی منظم کوششوں کو کامیابی نہیں ملی ۔ ان سب حالات کے باوجود ا س بار کے انتخابات میں بھی سیاسی پنڈتوں کے ساتھ ساتھ عوامی طور پر بھی ایسا مانا جا رہا تھا کہ مودی کسی طرح حکومت بنالینگے لیکن اس بار جہاں بی جے پی اور مودی کمزور ہونگے وہیں کانگریس اور کئی علاقائی پارٹیوں کی پوزیشن مضبوط ہوگی ۔لیکن کہا جاتا ہے کہ گناہ کا گاگر جب بھر جاتا ہے تو چھلکنے لگتا ہے یا پھر ضرورت سے زیادہ خوش فہمی لے ڈوبتی ہے اور شاید مودی کے ساتھ یہی ہوا ۔ پئے در پئے حالات مودی حکومت کے خلاف ہوتے چلے گئے ۔ مودی اور ان کی حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعددس برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ایسا کوئی بڑا عوامی فلاح کا کام انجام نہیں دیا ، جن پر وہ ناز کرتے ہوئے ملک کے عوام کے سامنے جا کر اپنی حصولیابیوں کو بتاتے۔ غربت، افلاس،بھوک ،بے روزگاری،مہنگائی،صحت، تعلیم،تحفظ،رواداری،بدعنوانی،ذخیرہ اندوزی، صنعتی و تجارتی انجماد، اقتصادی مساوات، سماجی انصاف، جمہوری قدروں کی حرمت اور آئین و دستور کی اہمیت کو، اس حکومت نے سمجھنے اور ان مسائل کے تدارک کی کبھی کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔ ہمیشہ ہندو مسلم درمیان خلیج پیدا کرملک میں منافرت اور دہشت پھیلا کر ملک کی برسہا برس کی گنگا جمنی تہذیب کو عملی طور پر ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔ عوام کے بنیادی مسئلے حاشیہ پر ڈال دئے گئے کہ انھیں اپنی منافرت اور فرقہ واریت پر زیادہ یقین تھا۔ مسئلہ رہا تو بس یہ کہ کیسے ظلم وستم ، بربریت ، تشدد، خوف و سراسیمگی پھیلا کر کس طرح برسراقتدار رہیں اور ـ ’ ہندوتوا‘ کے اپنے ایجینڈے کو نافذکریں ۔ غریبوں ، مفلسوں ، کسانوں، دلتوں اور اقلیتوںپر کبھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ انسانی ہمدردی سے بے نیازاس حکومت کا عالم یہ ہے کہ تغزیہ سے مرنے والے بچوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے ، اربوں روپئے کے قرض میں ملک ڈوب چکا ہے ، غربت کا یہ عالم ہے کہ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کو عوام کے دئے گئے ٹیکس کے پیسے سے ہر ماہ پانچ کیلو اناج دے کر ان کی بھوک مٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ، ڈالر کے مقابلے مسلسل روپئے کی قیمت گر رہی ہے۔ لیکن ان مسئلوں پر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ۔ ٹھیک الیکشن سے پہلے جس طرح عدالت عظمیٰ کی منصفانہ کوششوں سے انتخابی بونڈکا معاملہ اجاگر ہو اہے ۔اس نے عالمی سطح پر حکومت کے ذریعہ ہونے والے گھوٹالے کا پردہ فاش کر دیا ہے۔اتنا بڑا گھوٹالہ حکومت کے ذریعہ کیا گیا جسے دنیا کا سب سے بڑا گھوٹالہ کہا جا رہا ہے اور جسے حکومت کے ذریعہ ہفتہ وصولی کا نام دیا جا رہا ہے ۔ واضح رہے کہ ابھی پی ایم کئیر فنڈ کے گھوٹا لہ کا اجاگر ہونا باقی ہے ۔
اس بڑے عالمی پیمانہ کے گھوٹالہ کے بعد مودی کی بد نصیبی دیکھئے کہ جس کورونا وبا کے درمیان کووی شیلڈ ویکسن ہر حال میں لوگوں کو لئے جانے پر زور تھا اور ویکسن لینے والوں کو جاری کئے جانے والے سرٹیفکیٹس پر بڑے فخر سے اپنی تصویرآویزاں کئے ہوئے تھے اس ویکسن کے سلسلے میں برٹش اخبار ’ڈیلی میل‘ کی رپورٹ کے مطابق برطانوی دوا ساز کمپنی ایسٹر زینیکا نے ایک بڑے مقدمہ کے بعد اپنے عدالتی دستاویز میں یہ قبول کیا ہے کہ اس ویکسن کو لینے والوں میں ہارٹ اٹیک ، شریانوں میں خون جمنے ، پلیٹ لیٹس کم ہونے وغیرہ جیسی بیماریوں کا خطرہ بڑھ گیاہے ۔ کووی شیلڈ سے نقصانات کی باتیں لوگوں کے درمیان چرچہ میں پہلے ہی سے تھیں اور لوگ تشویش کا اظہار کر رہے تھے لیکن اب جب کہ عالمی سطح پر یہ بات سامنے آ گئی ہے تو لوگوں کا مودی حکومت پر غصہ فطری اور واجب ہے ۔ اسی خوف کا یہ نتیجہ ہے کہ ویکسن لینے والوں کے سرٹیفیکیٹس سے مودی کی تصویر ہٹا دی گئی ہے ۔ لیکن لوگوں کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ مودی کی ناعاقبت اندیشی اور ضرورت سے زیادہ مقبولیت کی خوش فہمی کی وجہ کر ملک کے کروڑوں لوگ مختلف طرح طرح کی بیماریوں میںمبتلا ہو چکے اور مسلسل ہو رہے ہیں ۔ کئی جگہوں سے اموات کی بھی خبریں بھی موصول ہو ئی ہیں ۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ کووی شیلڈ بنانے والی کمپنی سے بھی مودی حکومت انتخابی بونڈ کے نام پر کئی کروڑ روپئے کا چندہ بھی لے چکی ہے ساتھ ہی ساتھ دیگر کئی دواساز کمپنیوں سے بھی بڑے پیمانے پر چندہ وصولا گیا ہے ، جس کے بعد ہی دواؤں کی قیمت آسمان چھو رہی ہے ۔
اس وقت بھارت کا سیاسی منظر نامہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے ۔ خاص طور پر ادھر سپریم کورٹ کے دو ایک فیصلوں اور ووٹوں کے پولرازیشن کی ہر ممکن کوشش کی ناکامی نے ملک کے سیاسی منظر نامہ کو بدل دیا ہے اور مودی حکومت بری طرح بیک فٹ پرآ گئی ہے۔ اب جبکہ لوک سبھا کے عام انتخابات کے تینوں مرحلوں میں جس طرح خلاف توقع کم پولنگ ہوئی ہے اور اس کے بعد ہونے والی پارلیمانی سیٹوں کے جو رجحان سامنے آ رہے ہیں ۔ ان رجحانوں نے مودی حکومت کی نیند اڑا دی ہے ۔
ایسے مشکل حالات میں مودی کی بوکھلاہٹ اور بے چینی کابڑھ جانا فطری ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت تقریباََ ہر محاذ پر بری طرح ناکام ہے ۔اب بس نّیا پار کرانے کے لئے ہندو ، مسلمان ، قبرستان ، شمشان ، مسجد ، مندر ، منگل سوتر ، گائے ، بھینس ، گھس پیٹھئے ، زیادہ بچے پیدا کرنے والے جیسے بے تکے اور جھوٹ و فریب سے بھرے جملوں کا ہی سہار ا ہے ۔ لیکن ایسے بے تکے بیانات سے ملک کے عوام اس قدر اوب چکے ہیں اور جھوٹ ، فریب اور سبز باغ کی قلئی پوری طرح کھل گئی ہے اس لئے اب کوئی ان کے جھانسے میں آنے کو تیار نہیں ہے۔ جس کے باعث مودی حکومت زبردست ٹینشن میں ہیں جس کے نتیجے میں’ بک رہا ہوں ، جنوں میں ۔۔۔۔۔ والی کیفیت ہو گئی ہے ۔ ان حالات ڈوبتے کا تنکے کا اگر سہارا ہے تو بس الیکشن کمیشن کا ، جسے مودی حکومت نے سپریم کورٹ کے مشورہ کے باوجود گود لیا ہوا ہے ۔ ٭٭٭