کشمیری زبان ہماری شناخت: پروفیسر شاد رمضان
مادری زبان کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری: عبدالرحمان فدا
تنہا ایاز
پلوامہ؍؍ ہر سال 21 فروری کو عالمی سطح پر یوم مادری زبان کے طور منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد اپنے مادری زبان کی تحفظ کو یقینی بنانا اور اس کو فروغ دینا ہے۔مادری زبان کے عالمی دن پر وادی کے کئی سرکردہ شاعروں، ادیبوں اور قلمکاروں پروفیسر شاد رمضان، عبدالرحمان فدا، علی شیدا اور غلام محمد دلشاد نے کشمیری زبان کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔تفصیلات کے مطابق پوری دنیا میں آج 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن کے طور منایا جاتا ہے اس دن کی مناسبت سے جموں و کشمیر میں بھی ادبی تنظیموں کی جانب سے تقریبات کا اہتمام ہو رہا ہے۔
ساہتیہ اکیڈمی نئی دہلی کشمیری بورڈ کے کنویئنرپروفیسر شاد رمضان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہماری مادری زبان دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں ایک زندہ جاوید زبان ہے جس کا دامن کافی وسع ہے۔ یہ زبان ہماری شناخت ہے اور ہمارے لئے ایک بیش بہا خزانہ سے کم نہیں جس کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ ہم اس خزانہ کو اپنے آنے والی نسل کے لئے ورثے کے طور سنبھال کے رکھیں بالکل اُسی طرح جس طرح ہمارے اسلاف نے اس کو ہم تک پہنچایا ہے۔ ورنہ ہماری آنے والی نسل ہم سے سوال کریں گے اور گلہ بھی اگر ہم خدا نخواستہ غفلت شعاری سے کام لیں گے۔ کیوں کہ اگر کسی شخص کو اپنے قوم کی تاریخ کے بارے میں علمیت حاصل کرنی ہو تو اُسے چاہئیے کہ وہ اپنی زبان کے ادبی، ثقافتی تہزیبی منظرنامہ کا مطالعہ کریں۔
وادی کے نامور شاعر ادیب اور قلمکار عبدالرحمان فدا نے کہا کہ ہماری مادری زبان کشمیری بہت ہی قدیم ہے اور ہزاروں برسوں سے بولی جا رہی ہے اور ہماری وادی کی عظیم ہستیوں نے بھی مادری زبان کو ترسیلی اہمیت دیکر اپنا ناصحانہ اور عارفانہ کلام عوام تک پہنچایا ہے۔ اس بات کی طرف میں سب کا توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ جہاں پورے ملک میں سینکڑوں بولیاں بولی جاتی ہیں وہاں صرف بائیس زبانوں کو اُن کی اہمیت اور عظت تسلیم کر کے آٹھویں شیڈول کا درجہ دیا گیا ہے ان میں ہماری مادری زبان کشمیری بھی شامل ہے۔ لیکن ان 22 زبانوں میں چند ایک کو کلاسکل لنگویجزز کا درجہ دیا گیا ہے جب کہ ہماری زبان ابھی اس درجہ سے محروم ہے۔
عبدالرحمان فدا نے ساہتیہ اکاڈمی نئی دہلی جو کہ ایک ذمہ دار اور فرض شناس ادارہ ہے سے گزارش کی ہیں کہ کشمیری زبان کو بھی اس زمرے میں لایا جائے کیوں کہ اس زبان کی تاریخ بہت ہی قدیم ہے۔ اس دوران غلام محمد دلشاد نے مادری زبان کے دن موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری زبان’’مادری زبان کی حیثیت سے ہماری پہچان ہے۔ ایک قوم کی حیثیت اور حیت کاانصار اس کی مادری زبان کی قوت پر ہے۔ایک قوم کے زندہ ہونے اور رہنے کی دلیل اس کی مادری زبان ہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ علم حاصل کرنا اور مختلف زبانیں سیکھنا آپسی تال میل اور ترقی کے لیے ضروری ہے مگر اس کی بنیاد اپنی مادری زبان ہے۔ہمیں اپنی مادری زبان میں ہی گھروں میں بچوں کے ساتھ بات کرنی چاہیے اور جنون کی حد تک مادری زبان کی ترقی اور تجدید کے لیے کام کرنا چاہیے۔اسی احساس کو بیدار کرنے کے لیے یہ دن منایا جاتا ہے۔مراز ادبی سنگم کے صدر علی شیدا نے یوم مادری زبان کے عالمی دن کے موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مادری زبان ہی وہ ذریعہ ہے جو اسے دنیا بھر کے عوام تک رسائی فراہم کرتی ہے اور اپنے فکر و فن کو دوسروں تک پہنچانے میں مدد کرتی ہے اس اہمیت کے تناظر میں 21فروری کو مادری زبان کا دن منایا جاتا ہے۔ اس لئے ہمیں آج کے دن اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنی مادری زبان ”کشمیری” کی ترویج و تجدید کیلئے ہر سطح پر کوشاں رہیں