صوفی ازم اور ہندوستانی تہذیبی مزاج

0
0

۰۰۰
میت کور اِرم
ایرو ویرا اپارٹمنٹ:، سیکٹر 3، چھنی، جموں
9797875324
۰۰۰

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تصوف ایک اسلامی تصور ہے اور  مسلمانوں کا  ایک بڑا طبقہ عملاً یا روایتاًاس  سے جڑا ہوا بھی ہے لیکن علمی مباحث میں  تصوف  کے تعلق سے  مسلمانوں میں عموماً  دو روئیے پائے جاتے ہیں۔ ایک مکتب فکر کے نزدیک یہ اسلام کی اصل روح ہے جب کہ دوسرا اسے دین میں در آئی  بدعت کے زمرے میں شامل سمجھتا ہے اور اسے اصل اسلام میں غیر ضروری بلکہ نقصان دہ آلائش کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ایک اور طبقہ(جس کے سرخیل  جاوید احمد غامدی صاحب ہیں  جو عہد حاضر کے معروف اور محترم اسلامی سکالر ہیں)اگرچہ بہت کم تعداد  میں ہے لیکن موجود ہے جو یہ رائے رکھتا  ہے کہ تصوف  کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں  بلکہ یہ ایک مساوی مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔  اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تصوف ایک اسلامی تصور ہے اور  مسلمانوں کا  ایک بڑا طبقہ عملاً یا روایتاًاس  سے جڑا ہوا بھی ہے لیکن علمی مباحث میں  تصوف  کے تعلق سے  مسلمانوں میں عموماً  دو روئیے پائے جاتے ہیں۔ ایک مکتب فکر کے نزدیک یہ اسلام کی اصل روح ہے جب کہ دوسرا اسے دین میں در آئی  بدعت کے زمرے میں شامل سمجھتا ہے اور اسے اصل اسلام میں غیر ضروری بلکہ نقصان دہ آلائش کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ایک اور طبقہ(جس کے سرخیل  جاوید احمد غامدی صاحب ہیں  جو عہد حاضر کے معروف اور محترم اسلامی سکالر ہیں)اگرچہ بہت کم تعداد  میں ہے لیکن موجود ہے جو یہ رائے رکھتا  ہے کہ تصوف  کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں  بلکہ یہ ایک مساوی مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔  اسلام کے  ابتدائی دور میں ہی اس کا تعارف ہندوستان  پہنچ چکا تھا۔ محمد بن قاسم کے ہاتھوں سندھ کے فتح ہونے سے بھی  پہلے  جنوبی ہندوستان اور جزیرہ نما  عرب  کے درمیان تجارتی تعلقات موجود تھے۔بتایا جاتا ہے کیرالہ کی چیرامن جامع مسجد  ، جو جنوبی ایشیا میں غالباً پہلی مسلم عباد گاہ رہی  ہو گی، 629میں بن گئی تھی(یہ مسجد آج بھی موجود ہے) ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رتن ہندی  اور چیرامن پیرومل(مذکورہ مسجد کے بانی) نے بہت  ابتدائی دور میں  اسلام قبول کر لیا تھا  اور دونوں  پیغمبر اسلام کے صحابیوں میں شامل تھے۔ملک بن دینار کیجنوبی ہند میں آمد تو تاریخٰی ریکارڈ کا حصہ ہے۔شمالی ہندوستان کے برہمنوں کی ایک ذات جو  اپنے آپ کو حسینی برہمن کہتی ہے یہ  دعوی  کرتی ہے کہ ان کے پُرکھ 680 میں ہوئی   کربلا کی جنگ  میں  امام حسین کی طرف سے لڑنے  والوں میں شامل تھے۔ مسلم فاتحین کو اگرچہ ہندوستانی سماج میں ہر سطح پرمزاحمت اور مخالفت  کا سامنا رہا اورکبھی  عوامی قبولیت نہ مل سکی لیکن اسلام کا پرامن پیغام لےکر آنے والے بزرگوں کو  یہاں ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ ہندوستانی تہذیب ،جس کی بنیاد اور صورت پذیری  کا سلسلہ ماضی میں   عیسی مسیح کی ولادت سے کوئی پانچ ساڑھے پانچ ہزار پیچھے تک چلا جاتا ہے،دنیا  کی عظیم اور قدیم ترین تہذیبوں میں  سے ہے۔ گندھارا(موجودہ پاک-افغانستان ) سے مالابار اور سندھ سے  برما تک بکھرے ہوئے   اجزائے ترکیبی سے تشکیل پانے والا تمدن بھی اتنا ہی   وسیع  اور متنوع ہے جتنے اس خطے کے جغرافیائی  اورثقافتی  عوامل۔  ۔اس تہذیب  کی ایک بنیادی خصوصیت یہ رہی ہے کہ اپنی اصل میں بالکل مقامی ہوتے ہوئے بھی اس نے بیرونی دنیا سے آنے والے تمدنی عناصر کا راستہ بند نہیں کیا بلکہ انھیں جذب کر کے اپنا  جزبنا لیا ۔ آریہ جنھوں نے اس تہذیب کو بام عروج تک پہنچایا اور ہندومت یا سناتن دھرم کو  منظم اور مستحکم کیا وہ بھی باہر سے  ہی آئے تھے ۔ ایک رائے تو بھی ہے  کہ آریہ قبائل  دراصل بنی اسرائیل  کے قبائل تھے اور ویدک لٹریچر کی دانش و حکمت دراصل حضرت موسیٰ  کی کتاب اور دوسرے صحائف سے ماخوذ ہے۔اس رائے کے خریدار بہر حال نہیں کے برابر ہیں البتہ موہنجو دڑو کے  روابط مصر اور  میسوپوٹامیہ کے ساتھ  تھے اس   کے قرائن  موجود ہیں۔  گیتا کے ایک قول ، "اچھے افکار کو ہر جانب سے آنے دینا چاہئے” کے مصداق ہندوستانی  قوم نے زمانہ  قدیم  سے اب تک  باہر سے پرامن طور پرآنے والوں کا نہ صرف استقبال کیا ہے بلکہ انھیں اپنا حصہ بنا لیا ہے۔ تاریخی اور تمدنی  حقائق  گواہی دیتے ہیں کہ  اس دھرتی کے امن پسند باسیوں نے بیرونی حملہ آوروں اور قابضوں تک  کے جبر واستبداد کو بیچ میں لائے بغیر ان کی اچھائیوں اور اچھی قدروں کو اپنے تہذیبی جثے میں جذب کیا ہے۔یونانی ، مصری یا  قدیم  ایرانی  روایات ہوں یا دوسری تہذیبوں کے عناصر ان کے اثرات کی نشان دہی  آج بھی بآسانی کی جاسکتی بلکہ قدیم ایرانی مذہب اپنی سرزمین سے  معدوم ہو کر بھی ہندوستان میں آج تک  زندہ ہے۔ چینی ، یونانی، ایرانی  اور دیگر تہذیبوں کے اثرات کی طرح ہی  اسلامی  اور عربی  اثرات کو بھی قبول کیا گیا۔ اس سرزمین کی   فراخ دلی کا لازمی فایدہ یہ ہوا کہ  فکر و فن  کی سطح پر اس  کا  دامن قیمتی اور نو بنوع   خزانوں سے بھرتا گیا  اور بالآخر ایک انوکھی اور عظیم  تہذیب   ابھر کر سامنے آئی۔ برصغیر میں  اسلام کا داخلہ اور سندھ میں مسلم راج   کا قیام اگر چہ  آٹھویں صدی میں ہوچکا تھا  لیکن  صوفیاء کرام کی آمد  کا  باقاعدہ سلسلہ   دسویں صدی میں خواجہ معین الدین چشتی کی آمد  کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ اس وقت تک بغداد اور ایران میں تصوف   ایک باقاعدہ نظام کی حیثیت سے فروغ پا چکا تھا جو مین اسٹریم اسلام کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اپنی الگ شناخت  رکھتا تھا۔جلد ہی  خواجہ معین الدین چشتی کے مریدوں اور مریدوں کے مریدوں  کی بڑی تعداد  ملک کے مختلف حصوں میں پھیل گئی جن میں بختیار کاکی، گنج شکر فرید الدین،  نظام الدین اولیا اورامیر خسرو، کچھ اہم نام   ہیں۔آج کی تاریخ میں  برصغیر کے طول و عرض میں صوفیا کے تمام بڑے سلسلے  جیسے قادری، چشتی ،سہروردی، نقشبندی، شاذلی وغیرہ موجود ہیں۔  ہندوستانی معاشرہ   ،  جو  عموما حد درجہ امن پسند، روادار اور صلح کلی مزاج کا حامل تھا، نے صوفی ازم کو  نہایت مثبت طور پرلیا اور پھلنے پھولنے کا  بھرپورموقع دیا  ۔ کشادہ دلی  اوراختلاف رائے کا احترام   ہمیشہ سے اس سماج کی سرشت کاحصہ  رہاہے۔ برصغیر میں  مسلمانوں کے سیاسی اقتدار  نے  صوفیا  کو یہاں آنے پر راغب ضرور کیا ہو گا لیکن  حکمرانوں  کے  ساتھ ان کا براہ راست  کوئی تعلق نہیں رہا ۔چوں کہ ان کا مقصد سیاسی  استحصال نہیں بلکہ انسانوں کی  اخلاقی اور روحانی تربیت  تھا اس لئے انھوں نے عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم کیا اور بے پناہ عوامی قبولیت حاصل کی۔صوفیوں کی تعلیمات   اپنی اصل میں اسلامی آئیڈیالوجی سے ہی ماخوذ تھیں  لیکن روایتی علما  اور مبلغین کے برعکس انھوں نے ہمیشہ  اعتدال پسندی  ،رواداری اور کھلی ذہنیت  کا مظاہرہ کیا اس لئے لوگ ان سے کترانے کی بجائے قریب آتے گئے اور متاثر ہو کر اسلام  بھی قبول کرتے رہے۔  صوفی ازم کی تعلیمات بنیاد ی طور  خدا کی   وحدانیت کے گرد گھومتی تھیں   جو مقامی تصورات سےبھی کچھ کچھ مناسبت رکھتا تھا۔ انھوں نے اپنی  تعلیمات کو  عوام کے سامنے پیش کرنے میں یہاں مروجہ   تصورات کا احترام بھی ملحوظ رکھا اور اپنے عقائد اور تصورات  ٹھونسنے  کی بجائے مقامی مزاج کی رعایت رکھتے ہوئے  سمجھانے  کی کوشش کی۔ صوفیا نے اپنی عربی  برتری کا پرچار یا غرورکرنے  کی بجائے مقامی  ثقافت کا حصہ بننے میں دل چسپی لی۔ اپنی تعلیمات کے  لئے عربی فارسی ترکی زبانوں کو مخصوص نہیں رکھا بلکہ مقامی زبانوں کو ترجیح دی۔    ان کے ہاں موسیقی،  جو ہندوستانی تہذیب کا ایک اہم جز تھی ، بھی باقاعدہ  جائز اور رائج  رہی   جس کے توسط سے ان کا روحانی پیغام   عوام میں زیادہ  پھیلا۔روحانی تربیت کا جو طریقہ صوفیا کے ہاں رائج تھا  وہ بھی   بالکل اچھوتا نہیں تھا اور یہاں کے رشیوں منیوں  کے ہاں اس سے ملتی جلتی روایت پہلے سے موجود تھی جسے عوام اور خواص میں  قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔  صوفیوں کے ہاں  روحانی تربیت کے لئے عبادت و ریاضت، مراقبہ،  چلہ کشی  اور گوشہ نشینی  وغیرہ  کا باقاعدہ اہتمام ملتا ہے جس کی مماثلت ہندوستانی سادھوں سنتوں کے ہاں بھی موجود تھی۔انسانی مسساوات ، اخلاقی اقدار، رواداری ، بھائی چارے، حق پسندی، راست بازی  وغیرہ صوفیا کی تعلیمات کا اہم  حصہ تھے جن کا کسی بھی سماج میں قبولیت پانا فطری تھا۔ مساجد و مدارس اور کچھ مقامی مندروں کے برعکس صوفی خانقاہیں رنگ و نسل،  امیر غریب،  مذہب و ملت  حتیٰ کہ مرد و زن کے امتیاز کے بغیر  سب کے لئے کھلی تھیں ۔سوسایٹی کے مختلف طبقوں  سے ہر طرح کے   لوگ ان خانقاہوں میں آتے اورانسانی  بھلائی اور خیرخواہی کی باتوں سے متاثر ہوتے، روحانیت کے  اسرار اور رموز  جانتے  اور اپنی مرادیں پوری کرواتے ۔  آنے والوں پر تبدیلی مذہب کے لئے کسی طرح کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا  تھا ۔یہی وجہ ہے کہ  اسلام سے شدید اختلاف  رکھنے والےغیر مسلم  بھی صوفیا کے درباروں اور مزاروں کے لئے نہ صرف نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ مذہبی وابستگی  سے اوپر اٹھ کر  پورے عزت و احترام کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ گویا ہندوستانی تہذیب نے  جہاں صوفی ازم کو پھلنے پھولنے کا  بھرپور موقع  فراہم کر کے  اپنے تمدنی اور فکری خزانے کو مزید وسعت دی   وہیں صوفی تحریک کو مقامی رنگ   و آہنگ بھی عطا  کیا ۔ صوفیوں نے یہاں کی روایتوں کو اپنایا، مقامی علم و فن سے  فیض اٹھایا اوریہاں کے تصورات اوراقدار کا احترام کرتے ہوئے جوں کا توں یا کچھ تبدیلی کے بعد اپنے ہاں جاری اور رائج کر لیا۔  صوفی ازم نے بھی  ہندوستانی تہذیب پر گہرے اثرات مرتب کئے۔یہاں کی رنگا رنگی میں مزید نکھار پیدا کیا۔ برداشت، رواداری، انسان دوستی  اور عدم تشدد کی بھولتی جارہی ہندوستانی اقدار کو نئی زندگی بخشی ۔علمی اور فکری خزانوں  میں بے پناہ اضافہ کیا اورروحانیت اور خدا کے متعلق  نئے تصورات سے آشنا کیا۔پندرھویں صدی کی  بھکتی تحریک اور سکھ دھرم  کا قیام  صوفی طرز فکر کے ہی مرہون منت ہے۔سنت  کبیر  نے ہندو دھرم اور اسلام دونوں کی مخالفت کر کے جس چیز کا پرچار کیا وہ  دراصل  صوفی ازم  سے ملتا جلتا تصور ہی تھا ۔ سکھ ازم کی بنیاد اور اس کی تنظیم پر صوفی ازم کے اثرات بہت گہرے اور صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔سکھوں کے پہلے   گورو  بابانانک کو بہت سے مسلمان ایک بلند پایہ ولی یا صوفی کے طور پر دیکھتے ہیں  ۔ ان کی شاعری پھر بابا فرید کی عارفانہ شاعری کا گہرا اثر ہے۔ گورونانک  کا "جپ جی صاحب” جو  گورو گرنتھ صاحب میں شامل ہے قرآن کی صورۃ اخلاص  کی  عین تفسیر لگتا ہے۔ پانچویں  سکھ گرو ارجن دیو جی نے گورو گرنتھ صاحب کی ترتیب و تنظیم کی تو دوسرے صوفی مزاج  بزرگوں کے کلام کے ساتھ بابا فرید شکر گنج کا کلام بھی شامل کیا ۔ہرمندر صاحب(گولڈن ٹیمپل) امرت سر جو سکھوں کا اہم ترین مقام ہے اس کی بنیاد ایک صوفی  میاں میرکے ہاتھوں رکھوائی گئی  تھی۔بعد کے دور میں سیاسی تحریک میں بدل جانے کے باوجود  بھی سکھ مت کی بنیادی   تعلیمات صوفی تعلیمات سے پوری طرح ہم آہنگ  ہیں۔سکھوں کا   واہے گرو یا ایک خدا کا تصور  ہندوستانی فلسفے سے زیادہ   صوفی عقیدے  سے  میل کھاتا ہے۔یہاں تک  کہ سمرن کرنے یا گرو کا  نام جپنے کی روایت بھی عین اسی طرز پر  قائم ہے جس طرح صوفی بزرگوں کے ہاں   تسبیح اور ذکر کیا جاتا ہے۔ یوں تو پورے بر صغیر میں صوفی ازم کی چھاپ دیکھی جاسکتی ہے لیکن شمالی ہندوستان خصوصا ً سندھ،  پنجاب  اور کشمیر  میں یہ چھاپ خاصی گہری اور چوڑی ہے۔ پنجابی معاشرہ مجموعی طور سے صوفی معاشرہ کہا جاسکتا ہے   جہاں صوفی ازم کی خوش بو مٹی سے اٹھتی ہے اور فن  اور فکر میں صاف جھلکتی ہے ۔یہی بات سندھ  کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے جہاں صوفی روایت کلچر کا لازمی حصہ ہے۔ کچھ سکالرز کے مطابق ، جنوبی ایشیا میں سب سے توانا  صوفی ازم کی  کشمیر میں رہی ہے ۔ سید علی ہمدانی  سے شروع ہونے والی روایت کو  مخدوم صاحب،  لل دید، نند ریشی اور  دوسرے صوفیا نے آگے بڑھایا۔یہاں کی صوفی روایت جسے مقامی طور پر ریشیت کا نام دیا جاتا ہے انتہائی جاندار روایت رہی ہے ۔ مقامیت کا گہرا اثر  لے کر یہ روایت ہندو اور مسلم دونوں طبقوں میں یکساں اہمیت کی حامل رہی ہے۔ صوفی روایت  نے کشمیری سوسائیٹی کو ایک اکائی کے طور پر باندھے رکھنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور شاید   یہی وجہ تھی کہ جب  47 میں پورا برصغیر مذہبی منافرت  کی آگ کی لپٹوں میں تھا کشمیر میں (جہاں ایک بھی ایسا  واقعہ نہ ہوا  تھا)گاندھی کو امید کی کرن نظر آئی تھی۔ خلاصہ بحث یہ کہ  صوفی فکر ہندوستانی اقدار سے ٹکراؤ نہیں بلکہ مماثلت رکھتی ہے اور اس کی آمد اور وسیع پھیلاؤ کے لئے پہلے سے ہی یہاں  سازگار تہذیبی ماحول موجود تھا ۔ جہاں صوفی ازم نے ہندوستانی فکر اور ثقافت کو مزید وسعت دی ہے وہیں صوفیا نے بھی مقامی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے  نئی صوفی روایت کی تشکیل کی ہے جس کی اپنی شناخت قائم ہے ۔ صوفی ازم اپنی  آفاقی تعلیمات، اعلیٰ انسانی اقدار کی  حمایت اور صلح کلی مزاج  کی وجہ سے ہندوستان کی ہی نہیں بلکہ پوری  دنیا کی ضرورت ہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا