خواتین کے تئیں معاشرے کے رویے اور خیال کومکمل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اس سمت بہت سارا کام کاج سرکاری سطح پر ہوا ہے اور عملی طور پر بھی معاشرے میں خواتین کے تئیں بیداری آئی ہے۔ لیکن دور دراز علاقاجات میں ابھی خواتین کے تئیںمعاشرے میں تبدیلی نہیں آرہی ہے اُس کی جہاں بہت ساری وجوہات ہیں اُس میں ایک اہم وجہ یہ بھی ہے سرکاری سطح پر سہولیات کا فقدان ہونا بھی ایک وجہ ہے دوردراز پہاڑی علاقاجات میںپانی دور ہونے کی وجہ سے آج بھی خواتین کو کئی کئی کلومیٹر دور سے جاکر پانی لاناپڑھتا ہے۔ اسی طرح ایک اہم پریشانی اس وقت گھریلو تشدد بھی ہے حلانکہ اس پر اس وقت بہت سارے سرکاری ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں بہت بہتر کام کرررہی ہیں لیکن اس میں جب تک ذہنیت تبدیل نہیں ہوگی اس سمت بہتری آنا محال ہے جموں وکشمیر کے ایل جی نے اپنے ماہنامہ ’’ عوام کی آواز‘‘ پروگرام کے 31 ویں قسط کو جموں کشمیریوٹی کی تبدیلی لانے والی خواتین کو وقف کیا۔ اُنہوںنے خواتین کی کاروباری صلاحیتوں کے لئے ایک سازگار ماحول پیدا کرنے اور ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے اِنتظامیہ کی کوششوں پر روشنی ڈالی۔اُنہوںنے کہا کہ سری نگر کی ایک کاروباری شخصیت اور’’کارپٹس‘ ‘انٹرپرائز کی مالک محترمہ رابعہ رسول یقین، عزم، لگن اور بے مثال حوصلے کی علامت ہیں۔وہ روایتی اردبیل طرز کے قالینوں کو بھی بحال کر رہی ہے جو دوسرے نوجوان کاروباریوں کو حوصلہ افزائی کرے گی۔جموں و کشمیر کے منفرد ثقافتی اور فنکارانہ ورثے کو مضبوط کرنے کے لئے سنچیتا پردھان کھجوریہ اور مانسی گپتا کی کوششوں کی بھی سراہنا کی۔ جموں وکشمیر میں خواتین نے پڑھائی لکھائی میں گزشتہ دور میں اہم کارکردگیاں انجام دی ہیںلیکن دوردراز علاقاجات میں بھی دو شیزائوں کو ایسا ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے جس سے وہ آزادانہ تعلیم حاصل کرسکیں اور ہر سیکٹر میں اپنی صلاحیتوں سے تبدیلی لانے میں اہم رول ادا کرسکیں گھریلوتشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے مردوں کی ذہنی نشودنماکرنے کی ضرورت ہے پورا معاشرہ خواتین کو الگ نظروں سے نہیں بلکہ خواتین کو معاشرے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرنے والی شخصیات کے طور پر دیکھے ہر ذی شعور کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے کی جانے والی کوششوں میں معاون بنیں کیونکہ جب جب معاشرہ ترقی کرکے گا معاشرے کی ترقی میں خواتین کا ترجیحی کردار ہوگا صنف نازک ہمارا اہم حصہ ہیںاس بات کو گائوں شہر کے تمام باشندوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔