انسانی زندگی میں شاعری کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ صرف جمالیاتی اورثالثی خصوصیات کی حامل نہیں ہے بلکہ اس کا رشتہ زندگی کے ساتھ اس لیے مستحکم ہوا ہے کہ سماجی ارتقا میں اس کا بھی اہم رول رہا ہے – یہی سبب ہے یونیسکو کے زیر ِ اہتمام /21 مارچ کو ہر سال شاعری کا عالمی دن منایا جاتاہے ۔ اس کا مقصد شاعروں اور شاعری کی پذیرائی کرنا اور اس کی ترویج کرنا ہے۔یونیسکو کو بھی احساس ہے کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے ۔ معروف شاعر و ادیب نصراللہ نصر کا کہنا ہے:
’’ قلم نے بڑے بڑے دشمنوں کے چھکے چھڑا دئیے ہیں۔ جنگیں فتح کی ہیں ۔ قلم نے ایسے نعرے دِئے ہیں جو دشمن کے دلوں کو دہلانے کے لیے کافی ہیں ۔ مگر ذہنی بلاغت اور بلند شعور نہ ہو تو قلمکار کے ہاتھ میں ایک کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ نہ اس میں شدت آسکتی ہے نہ تیغ سی دھار ۔‘‘
جس سماج میں شاعر کا ’’ قلم بولتا ہے ‘‘ وہاں ادب اور سماج کا رشتہ زیادہ مستحکم نظر آتا ہے ۔ بنگال کے شعری و ادبی منظرنامے پر ایک ایسی بے پناہ شخصیت کا نام ہے حشم الرمضان جنھیں ہم بلا شبہ شہر ِ سخن کا سلطان کہہ سکتے ہیں ۔
حشم الرمضان ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔وہ نہ صرف ایک اچھے شاعر تھے بلکہ ایک اچھے ناقد بھی تھے ۔اردو، فارسی اور انگریزی زبان پر عبور ہونے کی وجہ سے ان کی شاعری یا نثرنگاری میں ایک بیدار ذہن گامزن نظر آتا ہے۔جہاں تک ان کی شاعرانہ صلاحیت کی بات ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ اپنے وقت کے ایک ممتاز شاعر تھے اور فن ِ شاعری کے تمام رموز و علائم سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔
شاعری انسانی جذبوں کی اچھی ترجمان ہے بلکہ عکاسِ فطرت بھی ہے ۔ لیکن جذبوں کی صحیح ترجمانی کے لیے اس کا لطیف ہونا بہت ضروری ہے۔ ادب کا شائق اچھی طرح جانتا ہے کہ شاعری کی بنیاد احساسِ جمال اور تاثیر پر ہے۔ اس لیے ہر شاعر زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ اپنے آپ کو اس کا ہمنوا بنا لیتا ہے اور اپنے لب و لہجہ میں اسی انداز میں تبدیلی لاتا ہے تاکہ اس کی آواز عوام الناس تک پہنچ جائے۔ یہ ہنر حشم الرمضان کی شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کی شاعری میں نظمیں اور غزلیں دونوں شامل ہیں لیکن وہ اپنی پر اثر نظموں کی وجہ سے زیادہ مقبول ہیں۔ معتبر اور معروف شاعر علقمہ شبلی کا کہنا ہے:
’’ حشم الرمضان نظم کے شاعر ہیں۔ نظم جس تنظیم ِ خیال اور مرکزیت کی متقاضی ہے انھیں اس کا احساس ہے ۔ بیشتر نظموں میں انھوں نے اس کا لحاظ رکھا ہے۔ فارسی سے شغف ہونے کی وجہ سے الفاظ و تراکیب کا انتخاب بھی معنی خیز اور دل پذیر ہے ۔‘‘
نصراللہ نصر اپنی کتاب’’ بنگال میں اردو نظم نگاری‘‘ میں حشم الرمضان کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ فن ِ سخنوری میں مہارت رکھتے تھے۔سماج اور معاشرے کی منظر کشی میں کمال رکھتے تھے ۔ وہ معاشرے کے مزاج داں بھی تھے۔ وہ حسن و جمالیات کے گرویدہ تھے۔ ان کی نظموں میں نشاط انگیز لمحات اور کیفیات کا تذکرہ بھی ملتا ہے ۔ عورتوں کی بے بسی اور کرب انگیز زندگی کا محاسبہ ان کی نظموں میں جابجا ملتا ہے۔’ طوائف‘ اور’ طوائف کی بیٹی‘ ان کی شاہکار نظمیں ہیں۔ ان کی دیگر نظموں میں نہرو، اندرا گاندھی، ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتِ گرامی کے علاوہ’’مڑوڑ دو چینیوں کے پنجے ، ترانۂ امن ،برابر کے شریک،اور دیپ جلے دیوالی شامل ہیں ۔‘‘
حشم الرمضان نے جب شاعری شروع کی ، اس وقت ادبی منظرنامے پر جوش ملیح آبادی،مجاز ، جذبی اور جاں نثار اختر چھائے ہوئے تھے لہذا یہ بھی اسی ڈگر پر چل پڑے۔ اس سلسلے میں ان کی علمی و لسانی صلاحیت نے مزید تقویت بخشی۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس دور میں اکثر شاعروں کے مجموعے دو حصوں میں منقسم دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے حصے میں روایتی اور عشقیہ نظمیں ہیں یا پھر منظر نگاری ہے اور دوسرے حصے میں جو سماجی موضوعات اور انقلابی تصورات پر مشتمل منظومات شامل ہیں۔’’میری نظمیں میرے گیت ‘‘ میں جہاں روایتی اور عشقیہ نظمیں’ شہکار ‘، ’وہ نرس‘، اور’ نو عروس‘ جیسی نظمیں ہیں وہیں سماجی موضوعات پر مبنی نظمیں ’ ٹیڈی گرل‘،’ طوائف‘،’ طوائف کی بیٹی‘ اور ’ بانجھ‘ جیسی اہم نظمیں ہیں جو اس بات کی غماز ہیں کہ وہ زندگی کے تمام پہلوؤں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ بقول عشرت ظفر:
’’ حشم الرمضان ایک درد مند انسان ہیں ۔ ان کی تخلیقات عظیم و بسیط آئینہ ہیں جو اپنے گرد و پیش کے تمام مناظر سمیٹتی ہیں لیکن یہ آئینہ تمام تصویروں کو محفوظ رکھتا ہے گویا آئینہ نہیں بلکہ ایک طرح کا محافظ خانہ ہے جہاں تمام عکس و تصویریں بے حد تحفظ کا احساس کرتی ہیں ۔‘‘
حشم الرمضان اقبال و غالب سے حد درجہ متاثر تھے لہذا ان دو عظیم شعرا پر ان کی شاندار نظمیں ہیں۔ انھوں نے حالاتِ حاضرہ سے متاثر ہوکر نہرو، اندراگاندھی اور بھٹو جیسی شخصیات پر کامیاب نظمیں کہی ہیں ۔ پابند نظم کہنے والے شاعر خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آج کے شاعر سہل پسند ہوگئے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ زیادہ تر فارسی زبان سے ناواقف ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آج کی نسل اردو زبان کے نشیب و فراز سے واقف نہیں ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ حشم الرمضان پابند نظموں کے ایک صاحبِ طرز شاعر تھے اور اپنے ہم عصر شاعروں میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے ۔
آئیے اب ذرا ان کی غزل گوئی پر نظر ڈالیں۔ نظم کی طرح حشم الرمضان کی غزلیہ شاعری میں فکر و فن کی گہرائیاں ہیں جو ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں ۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں روایت کی پاسداری کی ہے لیکن ان میں اسلوب کی چاشنی ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان کی غزلیہ شاعری کا لہجہ و آہنگ بدلا ہے جس کا اثر انھوں نے بھی قبول کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں روایت کی پاسداری بھی ہے اور عصر ِ حاضر کا درد بھی۔ غزل کا مزاج جن باتوں کا متقاضی ہے وہ اس کا پورا دھیان رکھتے تھے بقول معروف شاعر و ادیب ایم علی (ہوڑہ)
’’حسن و عشق کی باتیں ، حکایت ِ دل، شیخ و برہمن کی تکرار، دیر و حرم کا تضاد، وفا و جفا کے میلانات، رند و توبے کا التزام، تصوف کا رنگ اور ایسے ہی دوسرے روایتی افکار حشم صاحب کی غزلوں کی آماجگاہ ہیں ۔‘‘
لیکن ان کے یہاں روایتی اشعار بھی کافی دلکش ہیں ۔ وہ غزل کی نازکی ، لطافت اور رموز و نکات سے کس قدر واقف ہیں مندرجہ ذیل اشعار پڑھ کر اندازہ ہو جائے گا:
غم کی لذت سے وہ کہاں واقف
جس کو آزارِ عشقِ یار نہ ہو
مستی بھری فضائیں ، بادل یہ کالے کالے
ایسے میں دل مچل کر توبہ نہ توڑ ڈالے
پرشش ِ حال وہ جو کرجائے
نبض ڈوبی ہوئی ابھر جائے
کوئی دیکھے تو سہی ان کی کرم فرمائی
کاٹ کر میرے پر و بال رہا کرتے ہیں
بندہ پرور کم سے کم سائل ہی مجھ کو جان کر
گاہے گاہے حسن کے صدقے اتارا کیجئے
داغِ دل زینت ِ دل ہے تجھے احساس بھی ہے؟
حسن چہرے کا بڑھا دیتا ہے اِک تِل تنہا
اللہ رے ترے عارض، اللہ ترے گیسو
اک صبح درخشاں سی ، اک شام سہانی سی
عرضِ تمنا پر میری ان ہونٹوں پہ مسکان تو ہے
چاہے لاکھ نہ برسے بادل، بارش کا امکان تو ہے
مندرجہ بالا اشعار میں کیا غضب کی سادگی و برجستگی ہے۔ تراکیب میں بھی حسن ہے جو ہمارے دل کو بے اختیار اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ۔ شاعری کے لیے حس ِ لطیف کا ہونا ضروری ہے اور یہ خوبی شہرسخن کے اس سلطان کے یہاں بدرجہ اتم موجود ہے۔ ہر شاعر اپنے دور سے متاثر ہوتاہے اور اس کا اثر اس کی شاعری میں ضرور جھلکتا ہے ۔یہ بھی اپنے اردگرد کے حالات سے بے تعلق نہیں تھے۔ لہذا ان کی شاعری میں عصری حسیت نمایاں ہے۔ اپنی بات کی دلیل میں مندرجہ ذیل اشعار پیش کرتا ہوں۔ ملاحظہ کریں ؎
ہم تک نہ آسکی جب بھولے سے اک کرن بھی
کیا صبحِ نو دمیدہ کس کام کے اجالے
تیشہ ٔ کوہکن جب اٹھے لے کے ہم
ریزہ ریزہ ہر اک سنگ خارا ہوا
کتنی جانکاہ ثابت ہوئی تیز رفتار اس دور کی
وقت کی سانس چڑھنے لگی سارے عالم میں پھیلی گھٹن
لب پرقفل، شکستہ بازو، پیروں میں زنجیر
برسوں کے خوابوں کی نکلی کیا الٹی تعبیر
مکر و ریا کی اس بستی میں کون سنے اے دل
چاہے وہ انصاف نہ بانٹیں، ہاتھوں میں میزان تو ہے
اب تو پل بھر میں چہرے بدلنے لگے
آدمی پر یقیں آدمی کیا کرے
شاعر، ادیب، صاحب ِ نقد و نظر ملے
دیکھا قریب سے تو سبھی پیشہ ور ملے
جانے کس جنت میں آپہو نچی ہماری زندگی
جس کو بھی دیکھو نئی حوا، نیا آدم لگے
مختصر یہ کہ شہر ِ سخن کے اس سلطان کے یہاں لطفِ زبان کے ساتھ فنکاری بھی ہے جو براہ راست ہمارے دلوں کو چھو لیتی ہے۔ یہی اندازِ بیان کسی بھی شاعر کو بلندی عطا کرتا ہے۔ ان کی غزلوں میں جہاں کلاسیکی رچاؤ زبان کو شگفتہ بناتی ہے وہیں جذبے کا والہانہ پن ہمیں چونکاتا ہیاور ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ ان کی غزلیں تعداد میں زیادہ نہ سہی لیکن معیار کہیں مجروح ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ ان کا سرمایہ سخن قلیل ضرور ہے لیکن گنجینہ ٔ سخن کا حکم رکھتا ہے اور آخر میں انھیں کی آراء سے اپنی گفتگو کا اختتام کرتا ہوں۔
’’ میں شاعر ہوں۔ ایک فری لانس شاعر، میں نے کسی ازم کی پابند ی نہیں کی ۔ تجربے اور مشاہدے کے روپ میں زمانے نے جو کچھ مجھے دیا اورجن باتوں سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا ان کے خدو خال اور قدو قامت کے مطابق جو جوڑے انھیں سج رہے تھے میں نے انھیں وہی شعری جوڑے عطا کردئے ۔‘‘
مغربی بنگال، انڈیا ، واٹس ایپ: 9163194776