شہر بھی پانی کو ترس رہا ہے سرکاری اسکیمیں لاپتہ

0
0

دنیش کمار
جے پور، راجستھان

ملک میں مسلسل بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے پینے کے پانی کا مسئلہ بھی بڑھ گیا ہے۔ دارالحکومت دہلی اور دیگر میٹروپولیٹن شہر بھی اس سے اچھوتے نہیں ہیں۔ ایسے میں دیہی علاقوں اور شہری علاقوں میں کچی آبادیوں کی حالت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ جہاں آج بھی خاندانوں کو پینے کے صاف پانی کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ تاہم، مرکزی حکومت کی اہم اسکیم ــ’’ہر گھر تک نل کا پانی‘‘، جو 2019 میں شروع ہوئی تھی، نے اس مسئلہ کو کافی حد تک کم کر دیا ہے۔ جل شکتی کی وزارت کی ویب سائٹ کے مطابق، اس اسکیم کے ذریعے ملک کے 19 کروڑ سے زیادہ گھروں میں سے تقریباً 15 کروڑ گھروں میں نل کنکشن لگائے گئے ہیں۔ جو گھروں کی کل تعداد کا 77.10 فیصد ہے۔وزارت کی ویب سائٹ کے مطابق ملک کی 34 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں سے گوا، انڈمان اور نکوبار، دادرا اور نگر حویلی اور دمن اور دیو، ہریانہ، تلنگانہ، پڈوچیری، گجرات، پنجاب، ہماچل پردیش، اروناچل پردیش اور میزورم ایسی ریاستیں ہیں جہاں اس اسکیم کے تحت 100 فیصد گھروں کو نل کا پانی فراہم کیا گیا ہے۔ وہیں راجستھان ملک کی دوسری ریاست ہے جہاں اس اسکیم کی رفتار بہت سست ہے۔ یہاں 01,07,04,126 گھروں میں سے صرف 53,63,522 گھروں کو نل کنکشن ملا ہے۔ یہاںنہ صرف دیہی علاقوں بلکہ شہر کی کچی آبادیوں میں بھی پینے کے پانی کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔
اس کی ایک جھلک دارالحکومت جے پور میں واقع بابا رام دیو نگر کی کچی آبادی ہے۔ شہر سے تقریباً 10 کلومیٹر دور یہ کالونی بنیادی طور پر گجر کی ٹھڈی کے علاقے میں آباد ہے۔نیو آتش مارکیٹ میٹرو اسٹیشن سے 500 میٹر کے فاصلے پر واقع اس بستی کی آبادی 500 سے زیادہ ہے۔ یہاں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والی برادریوں کی اکثریت ہے۔ جس میں لوہار، میراسی، کچرا اٹھانے والے، فقیروں، ڈھول بجانے والوںاور یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کالونی میں پینے کے صاف پانی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے خاندانوں کو آئے روز مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے کالونی کی 60 سالہ یشودا لوہار کا کہنا ہے کہ ’’میرے خاندان میں 8 افراد ہیں، جن کے لیے روزانہ بڑی مشکل سے پینے کے پانی کا انتظام کیا جاتا ہے
، اتنی بڑی کالونی میں صرف ایک نل کی سہولت ہے،۔جس میں صبح صرف آدھے گھنٹے کے لیے پانی کی سپلائی ہوتی ہے، اس لیے ہمیں ہر روز ٹھڈی کے علاقے سے پانی لانا پڑتا ہے، جہاںگھنٹوں قطاریں لگی رہتی ہیں اور کبھی پانی بھرنے پر جھگڑے بھی ہوتے ہیں۔
28 سالہ سبیتا گراسیا کہتی ہیں،’’چار سال پہلے وہ اپنے شوہر اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ اچھی اجرت کی تلاش میں جودھ پور کے ایک دور افتادہ گاؤں کرانی سے بابا رام دیو نگر بستی آئی تھی۔ لیکن یہاں کوئی سہولیات نہیں ہیں۔ یہاں سب سے زیادہ ہمیں پینے کے صاف پانی کے حصول کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے، ہم بیمار ہوتے ہوئے بھی پانی کے لئے بھاگ دور کرنی پڑتی ہے۔اکثر بچے گندہ پانی پی کر بیمار ہو جاتے ہیں۔‘‘ جبار، جو سمڈیگا، جھارکھنڈ سے پانچ سال پہلے کام کی تلاش میں اپنے خاندان کے ساتھ آئے تھے، ایک سکریپ ڈیلر کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس کالونی میں بنیادی سہولتیں بھی نہیں ہیں۔ یہاں نہ بجلی کا کنکشن ہے اور نہ ہی پینے کا پانی۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ بستی غیر قانونی طور پر آباد ہے، اس لیے یہاں سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔ ہمیں ایسے حالات میں رہنا پڑے گا۔‘‘وملا کہتی ہیں کہ اکثر کالونی کے لوگ آپس میں چندہ جمع کرتے ہیں اور پانی کا ٹینکر حاصل کرتے ہیں۔ جس کی قیمت 700-800 روپے فی ٹینکر ہے۔ لیکن مالی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے وہ ہر روز یہ کام نہیں کر پاتے۔
اس سلسلے میںسماجی کارکن اکھلیش مشرا جو بابا رام دیو نگر کالونی میں گزشتہ آٹھ سالوں سے صحت کے مسائل پر کام کر رہے ہیں، اس جگہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بستی 20 سال سے زیادہ عرصے سے آباد ہے۔ اس وقت یہ شہر کا مضافات سمجھا جاتا تھا۔ آج بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے یہ میونسپل کارپوریشن گریٹر جے پور کے تحت آتا ہے۔ اکثر لوگ اسے یوگا گرو بابا رام دیو کا نام سمجھتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا نام کالونی کے لوگوں کے پسندیدہ دیوتا کے نام پر رکھا گیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مرکزی سڑک اس بستی سے گزرتی ہے۔ سڑک کے دائیں جانب جہاں مستقل بستی ہے،وہیں بائیں جانب خالی زمین پر عارضی بستی قائم ہوتی ہے۔ جس میں بنیادی طور پر کالبیلیہ اور دیگر خانہ بدوش برادریوں کے لوگ چند ماہ قیام کرتے ہیں اور شہر میں اپنا تیار کردہ سامان فروخت کرنے کے بعد واپس لوٹ جاتے ہیں۔ دونوں بستیوں میں ہر قسم کی سہولیات کا فقدان ہے۔ یہاں پینے کا صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے خواتین اور بچوں میں کئی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اکھلیش مشرا کے مطابق جس طرح میونسپل کارپوریشن نے لوگوں کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے بیت الخلاء کا انتظام کیا ہے، اگر اسی طرح پانی کی بھی مناسب فراہمی کی جائے تو یہاں کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
کمپوزٹ واٹر مینجمنٹ انڈیکس (CWMI) کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر سال دو لاکھ افراد پینے کے صاف پانی تک ناکافی رسائی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ راجستھان میں جل جیون مشن کی رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بابا رام دیو نگر جیسے معاشی اور سماجی طور پر کمزور خاندانوں کو جلد سے جلد پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل ہو سکے تاکہ اس بستی کے لوگ بالخصوص بچوں کو بہتر طریقے سے صحت کی سہولت میسرہو سکے۔ آخرصحت سب سے بڑی نعمت ہے اور ملک کے ہر ایک شہری کو اچھی صحت پانے کا بنیادی حق ہے۔(چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا