سنیتا بیروا
جے پور، راجستھان
گزشتہ ہفتے راجستھان حکومت نے 2024-25 کے لیے اپنا بجٹ پیش کیا۔ حال ہی میں مکمل ہونے والے اسمبلی انتخابات کے بعد ریاست کی نئی حکومت کا یہ پہلا کل وقتی بجٹ ہے۔ اس میں اگلے پانچ سالوں کے خاکے کی بنیاد پر روزگار اور ذریعہ معاش سمیت دیگر بنیادی ضروریات کی تکمیل کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں آئندہ پانچ سالوں میں سرکاری اور نجی شعبے میں تقریباً 10 لاکھ نئی ملازمتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ درحقیقت راجستھان ملک کی ان پانچ ریاستوں میں شامل ہے جہاں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ مرکزی وزارت برائے شماریات اور پروگرام کے نفاذ کے مطابق، راجستھان میں اس وقت بے روزگاری کی شرح تقریباً 20.6 فیصد ہے۔ نہ صرف دیہی علاقوں میں بلکہ شہری کچی آبادیوں میں بھی معاش کے بہت کم ذرائع دستیاب ہیں۔ معاشی اور سماجی طور پر کمزور خاندانوں کو روزی روٹی کے نام پر موسمی روزگار دستیاب ہے۔راجستھان کے کئی ایسے شہری علاقے ہیں جہاں کچی بستیوں (سلم علاقہ)میں لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے۔ ان میں سے ایک دارالحکومت جے پور میں واقع بابا رام دیو نگر کی کچی آبادی بھی ہے۔ جہاں لوگوں کے پاس مناسب روزگار نہیں ہے وہاں ان کی آمدنی بہت محدود ہے۔ جس کی وجہ سے خاندان کی کفالت کرنا بہت مشکل ہے۔یہ درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی اکثریت والی بستی شہر سے تقریباً 10 کلومیٹر دور گجر کی ٹھڈی علاقے میں واقع ہے۔500 سے زائد آبادی پر مشتمل اس کالونی میں لوہار، میراسی، بھنگڑے بیچنے والے، فقیروں، شادیوں میں ڈھول بجانے والے، باگڑیا برادری کے لوگ جو بانس سے چیزیں بناتے ہیں اور وہ لوگ جو یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔ اس کالونی میں شرح خواندگی بہت کم ہے۔ اس کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں۔ لیکن اس کی وجہ سے نئی نسل نہ تو اعلیٰ تعلیم حاصل کر پائی ہے اور نہ ہی انہیں روزگار کا کوئی خاص ذریعہ میسر ہے۔
اس کالونی میں رہنے والے باگڑیا برادری کے لوگ بانس سے بنی اشیاء تیار کرکے بازار میں فروخت کرتے ہیں۔ زیادہ تر یہ لوگ اس سے جھاڑو بناتے ہیں۔ لیکن وہ اس کام میں بہت کم کماتے ہیں۔ نسل در نسل اس کام میں ماہر ہونے کی وجہ سے یہ طبقہ روزگار کے دیگر ذرائع سے دور ہے۔اس حوالے سے 55 سالہ وشنو باگڑیا کا کہنا ہے کہ ان کی برادری خانہ بدوش ہے۔ کہیں کوئی مستقل رہائش نہیں ہے۔ وہ جگہ جگہ جھاڑو بنانے اور بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان میں چار افراد ہیں اور سب مل کر جھاڑو بنانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ سب ایک دن میں 50 سے 75 جھاڑو تیار کرتے ہیں۔ جسے بیچنے کا کام خاندان کی خواتین کرتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بہت سے بڑے تاجر ان سے جھاڑو خریدنے آتے ہیں۔ لیکن وہ ہمیں ایک جھاڑو کے صرف دس روپے دیتے ہیں، جبکہ وہ وہی جھاڑو اپنے اسٹور پر 40 سے 50 روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ وشنو کا کہنا ہے کہ وہ یہ کام نسل در نسل کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں کوئی اور کام نہیں آتا۔ 22 سالہ کملا باگڑیا کا کہنا ہے کہ جھاڑو بنانے کے لیے بانس اور دیگر سامان لانے کا کام گھر کے مرد کرتے ہیں جس کے بعد گھر کے تمام افراد دن بھر بیٹھ کر اس کی تیاری کا کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جہاں تاجر ان کا بنایا ہوا سامان خریدتے ہیں وہیں عورتیں خود بھی اسے گلیوں میں بیچنے جاتی ہیں۔ وہ ایک دن میں 20 سے 25 جھاڑو فروخت کرتی ہیں۔ کملا کے مطابق اس کام میں بہت اچھی آمدنی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان کے پاس روزگار کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ اس لیے وہ اس کام سے وابستہ ہیں۔
وہیں 35 سالہ سیتا باگڑیا کہتی ہیں کہ ان کی کمیونٹی میں تعلیم کے بارے میں زیادہ بیداری نہیں ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک طرف تو ان کی برادری کہیں بھی مستقل طورپر آباد نہیں ہے تودوسری طرف روزگار کے بہت محدود مواقع کی وجہ سے گھر کے بچے بھی پڑھنے کے بجائے اسے سیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آج تک اس نے اپنی برادری میں کسی کو کوئی نوکری کرتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی کو جھاڑو بنانے کے علاوہ کسی دوسرے پیشے میں ملوث دیکھا ہے۔ سیتا کے مطابق چونکہ ان کے پاس مستقل رہائش نہیں ہے، اس لیے خاندان کے کسی فرد کے پاس آدھار کارڈ یا کوئی اور شناختی کارڈ نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے خواتین اپنے بچے کوگھر پرہی جنم دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ بھی دستیاب نہیں ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا سکول میں داخلہ بھی نہیں ہوتا ہے۔ سیتا کے شوہر شیامو باگڑیا کا کہنا ہے کہ وہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ خاندان خانہ بدوش ہونے کی وجہ سے اس نے کبھی سکول نہیں دیکھا۔ جس کی وجہ سے اسے کوئی مستقل ملازمت نہ مل سکی۔ ان کا کہنا ہے کہ باگڑیا برادری میں تعلیم کے حوالے سے زیادہ بیداری نہیں ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم دینے کے بجائے انہیں جھاڑو بنانے کا آبائی کام سکھایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پڑھے لکھے نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں حکومت کی طرف سے دی گئی کسی اسکیم کا علم نہیں ہے۔اس سلسلے میں سماجی کارکن اکھلیش مشرا جو بابا رام دیو نگر کالونی میں گزشتہ کئی سالوں سے مختلف سماجی مسائل پر کام کر رہے ہیں، اس جگہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بستی 20 سال سے زیادہ عرصے سے آباد ہے۔ اس وقت یہ شہر کا مضافات سمجھا جاتا تھا۔ آج بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے یہ میونسپل کارپوریشن گریٹر جے پور کے تحت آتا ہے۔ اکثر لوگ اسے یوگا گرو بابا رام دیو کا نام سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا نام کالونی کے لوگوں کے پسندیدہ دیوتا کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بستی سے مرکزی سڑک گزرتی ہے۔ سڑک کے دائیں جانب جہاں مستقل بستی ہے،وہیں بائیں جانب خالی زمین پر عارضی بستی قائم ہوتی ہے۔ جس میں بنیادی طور پر دیگر خانہ بدوش اور خانہ بدوش برادریوں جیسے کالبیلیہ اور باگڑیا کے لوگ چند ماہ قیام کرتے ہیں اور شہر میں اپنا تیار کردہ سامان فروخت کرنے کے بعد واپس لوٹ جاتے ہیں۔
ان کے مطابق باگڑیا برادری میں تعلیم اور روزگار کی شدید کمی ہے۔ اس کمیونٹی کا کوئی فرد بانس سے بنی اشیاء بنانے کے اپنے آبائی کام کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتا ہے۔ تاہم پچھلے کچھ سالوں میں اس کام سے زیادہ آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے اب کچھ مرد اور نوجوان یومیہ اجرت پر کام کرنے لگے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ برادری کسی ایک علاقے میں مستقل طور پر آباد نہیں ہے، اس لیے انہیں فوری اجرت نہیں ملتی۔ اکھلیش کا کہنا ہے کہ باگڑیا برادری کو پہلے ریاستی حکومت نے شیڈول ٹرائب کے زمرے میں شامل کیا تھا، لیکن تین دہائیوں پہلے انہیں او بی سی کمیونٹی میں شامل کیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے یہ کمیونٹی ایس سی ایس ٹی کمیونٹی جیسی اسکیموں سے زیادہ فائدہ حاصل نہیں کر پائی ہے۔ تاہم سماجی حالات اور مختلف وجوہات کی بنا پر تعلیم تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کمیونٹی روزگار کے لیے ناقابل رسائی ہو چکی ہے۔ جس پر حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ معاشرے کا یہ حصہ ترقی کے دور میں پیچھے نہ رہے۔ (چرخہ فیچرس)