شرم مگر تم کو نہیں آتی

0
0

محمد اعظم شاہد
عالمی انسانی حقوق کا تجزیہ کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس واچ Human Rights Watch نے 12 /جنوری 2023 کو 712 صفحات پر مشتمل اپنی 33 ویں سالانہ رپورٹ پیش کی ہے۔ دنیاکے تمام ممالک میں وہاں کی حکومتوں کی جانب سے انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کئے گئے اقدامات اور کوتاہیوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ہندوستان کے حوالے سے جو انکشافات کئے گئے ہیں وہ باعث حیرت ہرگز نہیں ہیں کیونکہ ملک کے حالات کا گہرائی کے ساتھ مشاہدہ کرنے والے اربابِ نظران حقائق سے راست معلومات رکھتے ہیں۔ ان انکشافات کے حوالے سے اطمینان اس لحاظ سے بھی محسوس ہوتا ہے کہ HRW تنظیم نے ہندوستان میں مرکزی حکومت اور بر سر اقتدار بی جے پی کے زیر اثر ریاستی حکومتوں میں پسماندہ طبقات اور اقلیتوں میں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ان حکومتوں کا جانبدارانہ اور نفرت آمیز رویہ کے مختلف پہلووں کو آشکار کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بی جے پی نے ملک میں اکثریتی تسلط کے ذریعہ مسلمانوں کو ہراساں کیا گیا ہے۔ ملک میں مسلمانوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لییہے جب بھی مزاحمت یا احتجاج کیا گیا ہے اس کی پاداش میں مسلمانوں کو سبق سکھانے اور جتماعی طور پر سزا دینے حکومتیں اپنے اقتدار کی بالادستی کے زیر اثر احتجاج اور اختلاف رائے کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ دہلی، اتر پردیش، گجرات اور مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا کر منہدم کرتے ہوئے ان ریاستوں کی حکومتوں نے اپنے دفاع میں کہا ہے کہ غیر قانونی تعمیرات کے انہدام سے نظم ونسق اور قانون کے مراعات لاگو کیا گیا ہے۔ یوپی کے وزیراعلیٰ ہوگی آدتیہ ناتھ نے (جنہیں بلڈوزر بابا بھی کہاجاتا ہے) کہاہے کہ بلڈوزر چلا کر معاشرے میں انصاف اور سکون کے بحالی کی کوششیں کی گئی ہیں۔ امریکہ میں قائم اس غیر سرکاری تنظیم نے رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ہندو اکثریتی آئیڈیالوجی (طرز ِفکر) کے تحت ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ بی جے پی نے اپنی حکومتوں کی جانب سے ناروا سلوک اختیار کیا ہوا ہے، جو حقوق انسانی کے تحفظ کے معاملے میں سراسر کو تا ہی ہے۔ سرکاری ادارے جیسے عدلیہ اور آئینی ادارے جیسے NHRC نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی کار کردگی بھی بی جے پی حکومتوں کے ہندوتو ا نظریات کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں جو افسوسناک پہلو ہے۔ حکومتوں کی جانب سے منصوبہ بند طور پر کو ششیںکی گئی ہیں کہ حقوق انسانی کے لییکام کرنے والی تنظیمیںاور حقائق پر مبنی صحافت کے طرفدار صحافیوں کو فرضی مقدمات میں جکڑ کر انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل کر یہ پیغام دینے کی کوششیں کی گئی ہیکہ اپنی آواز بندر کھو،یا پھر مصیبتوں کا سامنا کرو۔حق پرست آوازوں کو بے آواز کیا جارہا ہے۔
بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری مقدمہ میں ملوث گیارہ مجرمین کی رہائی، وادی کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے تین سال بعد بھی عام شہریوں میں خوف کا ماحول، آزادی اظہار پر پابندیاں، تیستا سیٹلوار اور محمد زبیر جیسے جہد کار اور صحافیوں پر فرضی مقدے، کیرلا کے صحافی رشید کپن پر مقدمہ بازی، اہانت رسول اور دیگر ایسے کئی معاملات ہیں جو سال 2022 کے دوران در پیش آئے ہیں۔ واضح ہوتا ہے کہ حکومت اپنے اقتدار کا غلط استعمال کرتے ہوئے بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ انتقامی کارروائی کرنے جانبدارانہ رویہ برتا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں مسلمان لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ کے لیے حجاب کا تنازعہ کرناٹک میں بی جے پی حکومت کا افسوسناک موقف رہا ہے۔ ساتھ میں کرناٹک ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا اس پورے معاملے پر غیر سنجیدہ اور جانبدارانہ سی نظر بھی مسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکامی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
جون 2022 میں اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم ہیومن رائٹس کونسل نے ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ہورہی زیادتیوں سے متعلق مداخلت کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو لکھے اپنے ایک مکتوب میں توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی تھی کہ بگڑتے حالات کے بحالی کے لیے فوری اقدامات کئے جائیں۔ اقوام متحدہ کی اس ذیلی تنظیم کے ارکان ممالک نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت ہند سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لییاپنے آئین کے تحت کار گر اقدامات کے لیے آواز بلند کی۔ بی جے پی کے حامیوں نے سوشیل میڈیا پر HRW ہیومن رائٹس واچ (عالمی حقوق انسانی کی نگرانی کرنے والی تنظیم) کی رپورٹ کو بے بنیاداور مبالغہ آمیز قراردیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اس رپورٹ کے انکشافات پر حکومت کا ردِعمل صرف خاموشی روایتی خاموشی ہے۔ ابھی پانچ دن قبل 13 /جنوری 2023 کو ملک کے سپریم کورٹ نے نفرت آمیز تقاریر اور اشتعال انگیزی پر ایک مقدمے کی شنوائی کے بعد فیصلہ سنایا کہ اظہار خیال کی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے مذہبی منافرت بڑھانے Hate Speaches روکنے مرکزی اور ریاسی حکومتیں اپنے قانون کے توسط سے سماج میں بگاڑ روکنے متعلقہ اقدامات کریں۔ گذشتہ سال 21/ اکتو براسی نوعیت کا فیصلہ سپریم کورٹ نے سنایا تھا۔ حالیہ اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ نفرت آمیز تقاریر کے مرتکب کسی بھی مذہب کے مانے والے ہوں ان پر بلا تاخیر قانونی کاروائی کی جائے۔ بتایا گیا ہے کہ نفرت بھڑ کانے والی تقاریر ملک کے لیے مصیبت ہیں۔ ان پر روک لگائی نہیں گئی تو یہ مصیبت اور آفت شیطانی شکل اختیار کر کے معاشرتی امن و سکون کو تباہ و تاراج کر دے گی۔ بی جے پی سے وابستہ ار کان اسمبلی، ارکان پارلیمان، مرکزی وزراء اوراس کے چھوٹے بڑے نام نہاد لیڈران اشتعال انگیز تقاریر کرتے آرہے ہیں اور بی جے پی کے زیر اثر مرکز میں یا ریا ستی حکومتیں کسی بھی طرح کی قانونی کارروائی کرتے نظر نہیں آئیں۔ ایسا تاثر دیا جاتا ہے جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔ اب جبکہ انسانی حقوق کا جائزہ لینے والی عالمی تنظیم کے انکشافات اور سپریم کورٹ کا نفرت آمیز تقاریر پر روک تھام کا فیصلہ اور مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو انتباہ پر کس سنجیدگی سے ان معاملات کو حکومتیں دیکھیں گی وقت ہی بتائے گا۔ مگر تاحال بی جے پی حکومتوں کی روایتی خاموشی بتاتی ہے کہ انہیں اپنی کارستانیوں پر ذرہ برابر بھی شرم محسوس ہوتی نظر نہیں آتی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا