قیصر محمود عراقی
پندرہ شعبان کی رات جسے عام طور سے ’’شبِ برأت‘‘کہا جاتا ہے، برِ صغیر ہند وپاک میں مسلمان عوام کی جانب سے اسے ایک خاص مقام حاصل ہوگیا ہے، جہاں دین سے بے خبر افراد اس موقع پر آتش بازی چھوڑتے ، قبروں پر چراغاں کرتے اور مشہور تابعی اویس قرنیؒ کی طرف ایک بے بنیاد واقعے کو غلط طور سے منسوب کرکے اس کی یاد میں خصوصی طور سے حلوہ پکاتے کھاتے ہیں، وہیںعام دیندار افراد اس رات کو مغفرت وبخشش کی خصوصی رات قرار دیتے ہوئے پوری رات نماز وغیرہ میں گذاردیتے ہیں اور دن میں روزہ رکھتے ہیں۔ حلوہ مانڈہ والے مولوی جھوٹی اور من گھڑت حدیثیں اس رات میں بڑے بے باکانہ اندازمیں بیان کرتے ہیںاور نماز سے غافل نعت خواں خوش لحانی کے ساتھ نعت نبیؐ جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے عید وتہوار کا سماں بندھ جاتا ہے، بہت سے مدارس جامعات اس کی خاطر بند کردیئے جاتے ہیں، انواعے اقسام کے لوازمات تیار کئے جاتے ہیں، کچھ نادان دکانوں ، مکانوں ، محلوں ، مسجدوںاور قبرستانوںکو چکاچوندھ کردینے والے رنگ برنگ کے برقی قمقموں اور قندیلوں سے جگمگادیتے ہیں۔ پوری رات محلے سے لیکر قبرستان تک لوگوں کا تانتا بندھ جاتا ہے، کچھ نوجوان اپنے اپنے محلے کی مسجد کے سامنے یا چوراہوں پر کھڑے یا بیٹھے رہتے ہیں اس انتظار میں کہ علاقے کی مسجد سے جب مولوی اپنی ٹولی لیکر نکلتاہے تو اس کارواں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ جی ہاں: چند مولوی حضرات رات کے بارہ کے بعد اپنی مسجد کے حجرے سے نکل کر ایک ٹولی بناتے ہیں اور آگے آگے مولوی اور پیچھے ان کے مقتدی سلام پڑھتے ہوئے قبرستان جاتے ہیں۔ اس رات میں حلوہ لازمی طور پر پکایا جاتا ہے، گذرے لوگوں کے روحوں کی آمد کے استقبال میں گھروں کو مزین اور معطر کیا جاتا ہے اور روحوں کوروحوںکے ساتھ ملانے کا رسم ادا کیا جاتا ہے۔ محلے کی اکثر مسجدوں میں شب کو ہزاری نماز کا اہتمام اور اجتماعی ذکر واذکار سے مسجدیں گونجنے لگتی ہیںاور اسے سعادت مندی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ دن میں بوڑھے ، جوان ، مرد ، عورت جنہوں نے شاید رمضان میں کبھی روزہ نہ رکھا ہوگا اہتمام کے ساتھ لازمی طور پر روزہ رکھتے ہیں۔
قارئین محترم! اگر یہ رات فضیلت والی ہوتی تو صحابہ کرامؓمیں اس کا عام چرچہ ہوتا اور ثقہ ومشہور راوی اس کو روایت کرتے، کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ اتنی عظمت والی شب کی خبر تمام ضعیف ، مجہول و منکرراوی ہی دیتے ہیںاور ثقہ راوی خاموش ہیں۔ آپ کی جانکاری کیلئے بتادوںکہ پندرہوی رات کے بارے میں ’’لیلتہ البرأت‘‘شب برات کا لفظ حدیث وقرآن میںبھی نہیں ہے۔ پندرہوی شب میں نہ کوئی مخصوص عبادت ہے اور نہ کوئی خاص نماز، یعنی اس رات میں کوئی مخصوص عمل نبی پاکﷺسے ثابت ہے نہ صحابہ کرامؓ سے ، اس بارے میں جتنی روایتیں آتی ہیںسب موضوع اور جھوٹی ہیں۔ ماہِ شعبان کے روزہ سے متعلق یہ ثابت ہے کہ آپ ؐ کا روزہ رکھنے کا طریقہ کار رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ پندرہویں شعبان کا خصوصی روزہ کیسا ہے؟ کیا اس سلسلے میں کوئی روایت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو روایت کیسی ہے؟ پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہیکہ اس بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں ہے ، اس دن روزے سے متعلق کوئی مرفوع صحیح یا حسن یا کم درجے کی ضعیف روایت بھی نہیں ہے اور نہ ہی کسی صحابی ؓکا قوی یا ضعیف اثر وقول ہے ۔ ہاں ایک روایت ہے جس کو صاحبِ مشکوٰۃ المصابیح نے بحوالہ ابن ماجہ بروایت علی بن ابی طالب نقل فرمایا ہے:’’علیؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیںپندرہویں شعبان کی شب عبادت میں گذارواور دن کو روزہ رکھو‘‘۔مگر یہ روایت بیحد ضعیف ہے، کیونکہ اس روایت کے سلسلہ اسناد میں ایک راوی ابوبکربن عبداللہ بن محمدبن ابوبرہ القرشی العامری المدنی ہے، جس کو تقریب میں حدیث وضع کرنے (گھڑنے والا )کہاگیا ہے۔ ابن معین ؒ، ابن مدینیؒ، جوزجانیؒاور امام بخاریؒنے اس کو ضعیف وکمزور قرار دیا ہے اور امام نسائیؒ نے متروک الحدیث کہا ہے اور کبھی کبھی امام بخاریؒ اور علی بن مدینیؒ نے منکر الحدیث بھی کہا ہے اور امام احمدؒ نے فرما یا کہ یہ حدیث گھڑنے والوں میں سے ہے، اور ابن حبانؒ اور حاکمؒنے فرمایاکہ یہ موضوع حدیثوں کو ثقہ راویوں کے اسناد سے بیان کرتا ہے، لہذا یہ روایت قابل احتجاج نہیں ، جیسا کہ ابن حبانؒ نے فرمایا ، یعنی اس روایت کے پندرہویں شعبان کے خصوصی روزے کے جواز کیلئے دلیل پکڑنا صحیح نہیں ہے۔
اسی طرح ماہِ شعبان کی پندرہویں شب کو عید الاموات (مردوں کی عید رات)سمجھ کر روحوں کی آمد کا عقیدہ رکھا جاتا ہے اور (سورہ قدر آیت نمبر۴)سے اس غلط اعتقاد کی دلیل لی جاتی ہے، حالانکہ یہ آیت شب قدر کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور روح سے مراد روح القدس ، روح الامین یعنی جبرئیل ؑلہذا اس آیت کو پڑھ کر عوام کو پندرہویںشب میں مردوں کی روحوں کے آنے کا یقین دلانا صحیح نہیں ہے بلکہ اس آیت کی تکذیب ہے جو سورہ المومنون آیت نمبر۱۰۰میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’یعنی مرنے کے بعد روح قیامت تک عالم برزخ میں رہتی ہے‘‘، موت کے بعد روحیں جہاں منتقل کی جاتی ہیں وہ دنیا وآخرت کے درمیان کا عالم ہے، یہ ایک روک اور پردہ ہے، اسی کا نام عالم برزخ ہے۔ عالم برزخ میں روحوں کی منتقلی اس بات کی کھلی تردید ہے کہ کسی کی روح مرنے کے بعد دوبارہ دنیا میں آتی ہے نہ نیک روح آتی ہے اور نہ بد روح، کیونکہ نیک روحیں مقام ’’علیین ‘‘میں عزت واحترام ، تعظیم وتکریم اور مرحبا اور خوش آمدید کی صدائوں کے ساتھ بحفاظت رکھ دی جاتی ہیںجو وہاں کی راحت وسکون ، عیش وعشرت ،زیب وزینت اور باغ وبہار سے بھر پور فائدے اٹھاتی رہتی ہے اور بد اور خراب روحیں نہایت ذلت وخواری ، ندامت وپشیمانی ، لعنت وملامت کے ساتھ ’’سجین‘‘ نامی قید خانے میں مقید کردی جاتی ہیں جہاں کرب ناک اور درد ناک عذابوں سے دوچار اور مصائب وآلام میں گرفتار ہوتی ہے۔
ماہِ شعبان کی پندرہویںرات میں قبرستان جانا بھی ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے ،ہر خاص و عام ، امیر غریب ، عالم وجاہل، مرد ، بوڑے اور بچے جوان زیارتِ قبور کے ارادے سے قبرستان جاتے ہیں اور آدابِ زیارت قبور کے منافی حرکات انجام دیکر واپس لوٹتے ہیں۔ زیارت قبور مسنون عمل ہے لیکن پندرہویںشب کی خصوصیت ثابت نہیں ، اگر کسی روایت میں اس کی تخصیص ہے تو علمائے محدثین نے اسے بے انتہاضعیف روایت قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں دو روایتیں آتی ہیں ، ایک روایت جس کو منذری ؒنے بحوالہ بیہقی ؒ، صیغہ تمریض سے بیان کیا ہے اور دوسری حدیث حدیثِ عائشہؓ جس کو امام ترمذیؒ نے جلد ایک صفحہ نمبر ۱۵۶میں نقل فرمایا ہے ، یہ دونوں حدیثیں نہایت درجے میں ضعیف ہیں۔ امام ترمذیؒنے جس روایت کو بیان کیا ہے اس کا ترجمہ ذہن نشیں کرلیں اور امام ترمذی ؒکی نقدوجرح کو نہ بھولیں ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:ایک رات میں نے رسول ﷺموجود نہیں پایا ، اس لئے میں باہر نکل آئی تو میں نے آپؐ کو جنت البقیع(قبرستان) میں دیکھا ۔ آپؐ نے فرمایا کہ کیا تو اندیشہ کررہی تھی کہ اللہ اور اس کا رسولﷺتمہاری حق تلفی کرینگے، میں نے کہا : اے اللہ کے رسولﷺ!میں نے خیال کیا ہے کہ آپؐ دوسری بیوی کے یہاں تشریف لے گئے ہونگے، تو آپؐ نے فرمایا :اللہ تبارک وتعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ تعداد مغفرت فرماتا ہے(جامع ترمذیؒ)۔
افسوس صد افسوس ان مولفین اور مصنفین پر،جو اس روایت کو بحوالہ ترمذی نقل تو کردیتے ہیںاور امام ترمذیؒ کی نقد جرح کو اپنے مقصد کے خلاف پاکر ترک کردیتے ہیں۔ امام ترمذیؒ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں، یعنی ہم حدیثِ عائشہؓ کو حجاج کے واسطے ہی سے جانتے ہیںاور ہم نے محمد (بن اسماعیل یعنی امام بخاری)کو اس حدیث کو ضعیف کہتے ہوئے سنا ہے، وہ کہتے ہیں کہ یحیٰ ابن کثیرؒنے عروہ سے نہیں سنا ہے (یعنی یہ روایت منقطع الاسناد ہے،لہذاقابل حجت نہیں) ۔ علاوہ انور شاہ کشمیریؒ نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں حجاج بن ارطاط ہے اور وہ بالاتفاق ضعیف راوی ہے۔ ویسے بھی رسول اکرمﷺ کی مستقل و متواتر عادت تھی کہ عائشہ ؓ کی پاری والی رات کے آخری حصے میں جنت البقیع جایا کرتے اور مردوں کیلئے اللہ سے مغفرت طلب فرماتے(صحیح مسلم ، جلد ایک ، صفحہ۳۱۳)۔
قارئین حضرت !ماہِ شعبان میں پندرہویںشب میں قبرستان جانا کوئی اہم چیز ہوتی یا اس کی اتنی زیادہ فضیلت ہوتی کہ اس میں بے حد وحساب ، انگنت ولاتعداد مردوں کی مغفرت ہوجاتی ہے تو پہلے ہی اللہ کے رسولﷺصحابہ کرامؓ کو اس کی اطلاع کیوں نہیں دیئے تاکہ عبادت کا خاص اہتمام کیا جاتا ۔یہ تو ناممکن والی بات ہے کہ فضیلت والی شب سے متعلق کسی کو خبر نہ دیں ، یہاں تک کہ چہیتی شریکِ حیات حضرت عائشہؓکو بھی اس کا پتہ نہ ہو، بلکہ سارے کام ختم جانے کے بعد ان کو معلوم ہواس قسم کا معمہ ضعیف حدیث ہی کی قسمت میں ہے ورنہ صحیح حدیث تو روشن ستارہ ہے۔ اور اگر جانا ضروری ہے تو پندرہویںشب کی مغرب سے ہی لوگ قبرستان کیوں جانے لگتے ہیں جبکہ حضورِ اکرمؐ رات کے آخری پہر میں گئے تھے تو انہیں بھی رات کے آخری پہر میں جانا چاہئے، دوسری بات حضورِ اکرم ؐ تن تنہا قبرستان تشریف لے گئے تھے، پھر یہ مولوی حضرات چند نوجوانوں کا ایک گروہ ایک ٹولہ لیکر رات کے بارہ بجکر پانچ منٹ پر اپنی اپنی مسجدوں سے نکل کر قبرستان کیوں جاتے ہیں ایسا تو آپؐ حیاتِ مبارکہ میں کوئی ایک رات بھی نہیں ملتی ، آخر یہ جہالت کہاں سے آئی، شاید یہ حلوے مانڈے والے مولویوں کی اپنی ایجاد کردہ رسم ہے۔
اب رہا اللہ کا آسمان دنیا پر نزول فرما نا تو یہ اسی شب کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ ہر ایک رات اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ رسولﷺنے فرمایا ہمارا رب بلند وبرکت والا ہے، ہر رات کو اس وقت آسمانِ دنیا پر آتا ہے جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے اور وہ کہتا ہے ، کوئی مجھ دعا کرنے والا ہے میں اس کی دعا قبول کروں ،کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوںاور کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہوں کہ میں اس کی بخشش کروں(صحیح بخاری ، جامع ترمذیؒ) ۔ لہذا بغیر کسی تخصیص کے ہر رات بلکہ ہمیشہ اللہ سے مغفرت کی دعا کرنی چاہئے اور ہر ایک چیز کی مانگ اللہ مجیب الدعوات سے ہی مانگنی چاہئے ۔ اس طرح یہ حقیقت ہم پر واضح ہوتی ہے کہ شب برأت کی دن میں کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ رمضان اور رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں کسی ایک رات میں ہونے والے لیلتہ القدر کی اہمیت گھٹانے کی شیطانی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ یہ بات تو ہر ایک کی سمجھ میں آنے والی ہے کہ جب ان جھوٹی اور گھڑی ہوئی روایات کی رو سے شبِ برأت مخصوص افراد کو چھوڑ کر ہر ایک کی مغفرت ہوجاتی ہوتو پھر کوئی پورے سال نمازوں کا اہتمام کیوں کرے؟ رمضان کے روزے کیوں رکھے؟اور رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف اور قیام بااللیل کے ذریعے لیلتہ القدر کو پانے کی کوشش کیوں کرے؟ البتہ پورے مہینے کا روزہ رکھنا صرف نبی پاکؐ کے ساتھ خاص تھا، آپؐ نے امت کو اس سے منع فرمایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:جب شعبان کا نصف ہوجائے تو روزے نہ رکھو(صحیح ابودائود، ۲۰۴۹)یہ ایسی حدیث ہے جس کی صحت میں کوئی گردوغبار نہیں، ان احادیث صحیحہ کی روشنی میں مسلمانوں کو چاہئے کہ شعبان کے اخیر ایام کو چھوڑ کر بقیہ ایام میں زیادہ سے زیادہ روزہ رکھ کر آخری نبیؐ کو سچی امتی ہونے کا ثبوت دیں اور مذکورہ بدعات وخرافات اور غیر ثابت عبادات سے پرہیز کریںاور دور رہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن وسنت اور اسوۂ نبی ﷺ اور اعمال صحابہؓ سے پندرہویںشعبان کی شب وروز میں خصوصیت اور علیحدہ طور پر کوئی عبادت اور عمل ثابت نہیں ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو پندرہویںشعبان کی بدعت ودیگر تمام بدعات وخرافات سے دور رہنے اور سنت صحیحہ کے مطابق زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668