”ہولی کی آگ میں نفرت کو جلادیجئے ….پیارکے رنگ ہر ایک کو لگا دیجئے“
ےو اےن اےن
لکھنو¿//لکھنو¿ کی یہ خاص بات ہے کہ تیوہار چاہے ہندﺅں کا ہو یا مسلمانوں کا مناتے ہیں ایک ساتھ۔ یہ بھی گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہوتے ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ رنگوں کا تیوہار صرف ہندو ہی نہیں مناتے بلکہ مسلمان بھی اسے صدیوں سے مناتے چلے آرہے ہیں۔ لکھنو¿ واودھ والے صدیوں سے ایک دوسرے کے دل میں موجود و بسے رہتے ہیں ۔ راجکمار امیر نقی خان نے آگے کہاکہ پہلے خوشبودار سوکھے رنگوں سے ہولی کھیلی جاتی تھی ۔ آج کل ہولی کھیلنے کا طریقہ ہی بدل گیا ہے ۔اب تو لوگ کیچڑ اور طرح طرح کے کیمیکل ملے رنگوں سے ہولی کھیلتے ہیں ۔ وہ آگے بتاتے ہیں کہ ہولی ملتے وقت کبھی بھی اس بات کا گمان نہیں ہوتا تھا کہ یہ کسکا تیوہار ہے اور کون کس کو مبارکباد دے رہا ہے ۔ آج لوگ تیوہاروں پر گلے تو ملتے ہیں لیکن دِل نہیں ۔ راجکمار امیر نقی خان نے آگے کہا کہ اودھ کے نواب ہندو ومسلمانوں کو دو آنکھیں مانتے تھے اس لئے وہ ہولی کا تیوہار اسی جوش و خروش کے ساتھ مناتے تھے ۔ نوابوںکے ہولی منانے کا طریقہ آج کے طریقے سے بالکل الگ تھا۔ وہ ٹیسو کے پھول وغیرہ سے بنے رنگ سے ہولی کھیلتے تھے اور ہندو بھائیوں سے گلے مل کر ہولی کی مبارکباد دیتے تھے۔حامد روڈ ،نزد سٹی اسٹیشن ،لکھنو¿واقع سلطنت منزل کے رہنے والے رائل فےملی کے سید معصوم رضا (ایڈوکیٹ) نے کہا کہ ہولی انکے لئے ایک اہم تیوہارہے ۔ انھیں اسکا بے صبری سے انتظار رہتا ہے ۔ یہ تیوہار ہندو اور مسلمانوں کے بیچ اتحاد و بھائی چارے کے رشتہ کو مضبوطی عطاکرتا ہے۔ یہ تیوہار ذات پات و مذہب سے پرے ہے۔ ہولی ایک ایسا تیوہار ہے جو سماج کے سبھی قوم و مذہب و ملت کے بیچ پیار اور محبت کا رشتہ مضبوط رکھنے میں اہم رول ادا کرتاہے ساتھ ہی انسانیت اور محبت کا پیغام دیتا ہے ۔ دنیا میں انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں ہے اور نہ کوئی قوم ۔کبھی کبھی تو رشتوں میں آئی دورےوںکے لئے یہ تیوہار دوا کا کام کرتا ہے۔ گلے شکوے بھُلاکر ہولی منانے سے رشتے میں مضبوطی آتی ہے۔ نواب زادہ سید معصوم رضا نے آگے کہا کہ وہ رنگ و گلال لگا کر ہولی کا بھرپور مزہ لیتے ہیں اور دُعا کرتے ہیں اس طرح کا تیوہار سال میں کئی بار آئے ۔ وہ اس موقع پر کہتے ہیں کہ ”ہولی کی آگ میں نفرت کو جلادیجئے ….پیارکے رنگ ہر ایک کو لگا دیجئے“