۰۰۰
بشیراحمدرونیال
ایم اے بی ایڈ
۰۰۰
قدرت نے مجھے حساس طبیعت عطا کی ہے ابتداء سے ہی اپنے بزرگوں اور اساتذۂ کرام جن سے روز وشب آمناسامنا سابقہ رہتاتھا اُن کے حرکات وسکنات، گفتار وکردارپرطائرانہ نظر رہتی تھی اُن کی ادائیں عادتیں دیکھ کر دل میں ایک معصوم سے آرزو اُمنگ انگڑائی لیتی تھی کہ کاش میں بھی اپنے آپ میں من وعن ویسی ہی خوبیاں حاصل کرلیتا جو اُن بزرگوں اساتذۂ کرام میں دیکھتا تھا یہ میرے خواب تھے ویسے بھی خواب دیکھنا جُرم نہیں ہے ۔ اُن بزرگوں اساتذہ کرام کی کتنی خوبیاں ، ادائیں مجھ میں سرایت کرگئی ہوں گی اُن سے متعلق غور وفکر کی نوبت ، فراغت کبھی نہیں آئی لیکن اس بات کا اعتراف کرتا ہوں میں بذات خود مقامی سا آدمی واقع ہوا ہُوں۔ آفاقی یا ماورائی قسم کا ہونے کی نہ صلاحیت محدود اور آنا فانی قسم کی چیز ہے ہر شخص کی ہمت اس کی طبعی اور ذہنی صلاحیتوں کے مطابق ہوتی ہے ، اصغر مرحوم کے اس شعر سے:
یہی تھوڑی سی مے ہے اور یہی چھوٹا سا مے خانہ
اس سے رند رازِ گنبدومینا سمجھتے ہیں
مجھے دنیا کی کوئی چیز متاثر نہیں کرتی نہ جاہ وحشم وخدم نہ مال ودولت ، طاقت اورلطافت نہ اقتدارکرسی درجہ مگر کسی معمولی سے معمولی شخص میں بھی کردار کی خوبی نظر آگئی تو میں بے اختیار متاثر ہوجاتاہوں، چاہے وہ سماج کے کسی بھی طبقے سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو۔ مدرس، پروفیسر، سیاستدان رینجر یا معمولی پن چکّی چلانے والا مردِ درویش ، مرحوم حاجی محمد اسحاق بالی بے یارومددگار ، بے سہارا بیواؤں کا اَن داتا ۔ موقع ہو موقع نہ ملے تو موقع نکال کران تاثرات کو دوسروں تک پہنچانے میں مجھے خوشی بھی ہوتی ہے تاکہ آنے والی نسلیں ان کے کارناموں سے نا آشنا نہ رہ جائیں اور کچھ اس طرح کا سانحہ پیش آئے جس کی طرف حالی نے اشارہ کیا ہے ؎
بھول جائیں گے کہ تھے کن ڈالیوں کے ہم ثمر
آمدم برسرِ مطلب سینئر ہیڈ ماسٹر عبدالرحمن صاحب ساکنہ تھنہ مالیگام جن کی شخصیت گرد وپیش میں محتاجِ تعارف نہیں وہ اپنی مثال آپ ہے دوستوں کے لئے ان کے دل میں کتنی وسعت کتنی نرمی اور نوازش ہے کیسی کیسی خوشگوار یادیں۔ شوخ بھی شریفانہ بھی نئی پرانی ہمیشہ تازہ رہنے والی یادیں ان سے وابستہ ہیں۔ سماج میں بلا مذہب وملت ہر طبقے کے لوگوں سے پیار ومحبت رکھنے والا پیر وجواں سے بغل گیر ہوتے دیکھا گیا ہے بھائی چارے کی جیتی جاگتی مثال قابل دید اورقابل تقلید ہے بقول حافظ شیرازی ؎
حافظا گر وصل خواہی صلح بکُن ہر خاص وعام
بامسلماں اللہ اللہ بابرہمن رام رام
اب تک موصوف زندگی کی اَسّی سے زیادہ بہاریں دیکھ چکے ہیں اس پیرانہ سالی میں بھی اپنے دیرینہ دوستوں۔ عزیزوں سے اُسی طرح خندہ پیشانی سے ملتے ہیں چہرے پر چھٹکی ہوئی چاندنی اِس پر مسلسل مسکراہٹ جس میں ابھی بھی سفید دانت جگمگ جگمگ کرتے دکھائی دیتے ہیں اب ان کے کارناموں کی چند جھلکیاں قارئین کے نذر کرنا چاہوں گا ۔ مشت ِنمونہ از خروارے۔ (۱) ایک زمانے میں جب اِن کی ڈیوٹی ہائی سکول سینا بھتی پرستان میںلگی تھی اُن دنوں ہم دو تین مہینے مال مویشی مالن سردھار گرمیوں میں لے جاتے تھے ، ایک دن ہاڑ کی شدت کی گرمی میں نیچے براڑ سول کی طرف جارہاتھا راستے میں گھنا جنگل ہے جس میں جنگلی درندے دِن کے وقت چہل قدمی کرتے ہیں ۔ اس لئے احتیاط سے چلنا پڑتا ہے جس وقت میںگھنے جنگل سے گذر رہاتھا مجھے کچھ آواز سُنائی دی میں خوف زدہ ہوکر درختوں کی آڑ میں کھڑا ہوگیا کہ معلوم کروں یہ آواز آدم زاد کی ہے یہ کسی درندے کی ،تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہوا یہ کہ آدمیوں کی ہے میں نے راحت کی سانس لی، ایک آدمی بول رہاتھا ہمارے سکول میں ایک نیا ہیڈ ماسٹر آیا ہے بڑا ایماندار ہے خود بھی محنت سے پڑھاتا ہے دوسرے اساتذائے کرام سے بھی کام لیتا ہے ۔ سنیچر وار کو چار بجے سکول سے گھر جاتاہے سوموار کو دس بجے سکول میں حاضر ہوجاتاہے یہ ہماری خوش قسمتی ہے خدا کرے یہ دیر تک ہمارے سکول میں رہے ہمارے بچے لکھ پڑھ جائیں گے ۔ اتنے میں سن کر میں بھی نمودار ہوا ۔ دیکھا چار پانچ آدمی درختوں کے سایے میں بیٹھے ہیں۔ میں نے اُن سے پوچھا تم کو ن ہو؟ کہاں جارہے ہو؟ بولے ہم مزدور ہیں آری کش بطرف نیل جنگل میں کام کرنے جارہے ہیں رہنے والے پرستان کے ہیں پھرمیں نے اُن سے پوچھا کس ماسٹر کی غیبت کررہے تھے اُنہوں نے یک زبان ہوکربولاغیبت نہیں کام کی تعریف کررہے تھے۔ ہیڈ ماسٹر عبدالرحمن صاحب کے آنے پر سکول میں رونق واپس آئی ہے ہم سب اُس کے کام سے خوش ہیں والدین اور بچے بھی ،وہ بڑی محنت سے کام لے رہے ہیں خود بھی اوراستادوں سے بھی ۔ اس بیابانگ جنگل میں ان کی تعریف اور توصیف سُن کر میرے دل میں بھی اُن کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہوگیا ؎
سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا افسانہ کیا
کہتی ہے خلقِ خدا تجھے غائبانہ کیا
(۲)ایک مخلص استاد رفیق احمد کٹوچ اکثر خلوت اورجلوت میں ان کی تعریف اور توصیف بیان کرتا ہے اِن کو ایک مثالی استاد۔ ایک فرض شناس ،دیانت دار ہیڈ ماسٹر آنے والے اساتذہ کرام کے لئے ان کی زندگی مشعل راہ ثابت ہوگی بشرطیکہ ان کی طرح محنت سے سرشار ذہن اپنے آپ میں پیداکریں گے ۔ کہتا ہے مجھے ان کی اصول پسندی مرغوب ہے جہاں بھی آفیسران بالا نے آرڈر کیا بغیر کسی حیل وحجت کے وہاں چلے جاتے تھے وہاں پر اپنی خدا داد صلاحیتوں سے کام لے کر چار چاند لگا دیتے تھے جلدی لوگوں اور بچوں کے منظور نظر ہوجاتے تھے یہ اُن کی والہانہ عقیدت نہیں تو اور کیا ہے ؎
زمانہ قدر کر ہم کجکلاہانِ محبت کی
کہ پیدا اس نمونے کے جواں ہردم نہیں ہوں گے
(۳) موصوف دو ٹوک بات کرنے والے ہیں چاہے کوئی بُرا ہی کیوں نہ مانیں کہا کرتے تھے اگر آپ کا آفیسر نہیں دیکھ رہا ہے ۔ خدا تو ہر گھڑی حاضر ناظر ہے اُس کا خوف دل میں رکھو اپنے کام سے کام لو ۔ ایک سبق آموز واقعہ ہے عطا محمد صاحب لکچرر پرستانی سناتے تھے ایک بار اُکھڑال میں ہیڈ ماسٹر صاحب سے آمنا سامنا ہوا علیک وسلیک کے بعد پوچھا آج کل کہا ں ڈیوٹی ہے؟ میں نے کہا بہت دُور پرہند نیل بھیجا گیا ہے گھر سے بے گھر تھا ہی آنے جانے میں دشوار گذار جنگل سے ہوکر جانا پڑتا ہے اکثر جنگلی درندوں سے سابقہ پڑتا ہے ۔بہت مشکل سے دو چار ہوں! سوچاتھا شاید ہمدردی کے الفاظ جھڑیں گے مگر بڑی سنجیدگی سے فرمایا آپ جایا کرو ایمانداری سے ڈیوٹی کرو یہ ملازم کا فرض ہے جہاں اس کو بھیجا جاتا ہے ۔ تم نے کیا سمجھ رکھا ہے ہمیشہ اپنی ماں کی گود میں ہی ڈیوٹی کروگے جاؤ ڈیوٹی دو ۔ وہاں آپ کی ضرورت ہے ۔ لب شیریں جواب تلخ سُن کر سوچا ؎
ہیں ابھی کچھ لوگ باقی جہاں میں
آج کل بھی اُن کی فرض شناسی خود اعتمادی ، خوداری کی مثالیں زبان زد خاص اور عام ہیں لوگ اکثر محفلوں میں یاد کرتے ہیں۔ سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیاکرتے تھے مثلاً کسی بیوہ کی پنشن کامسئلہ ہوتو خود اُن کے کاغذات دفتر میں جاکر تیار کروانا اُس کام پائے تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتا وغیرہ اِس کے علاوہ اپنے آبائی گاؤں مالیگام میں ہائی سکول کے لئے زمین حاصل کرنا۔ اس سلسلے میں زمین کے مالک سے منت سماجت صبح شام خفیہ اُس کے گھر آنا جانا ۔ اس سوداکوبگاڑنے کے لئے چند مفاد پرست عناصر کا آڑے آنا ۔ اُنہوں نے اپنی طرف سے کوئی کسر باقی نہ رکھی مگراس مردِ آہن کے سامنے اُن کی مذموم کوشش ناکام ہوئی۔ وہ زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے یہ ان کا عظیم کارِ خیر ہے اُس کے بعد سکول کی تعمیر وترقی میں لگ گئے ۔ سردست سکول کا گراؤنڈ بنانے میں لگ گئے جس کی اشد ضرورت تھی ۔ اس کام میں خود ہی انجینئر مزدور بن کر بچوں کے شانہ بشانہ گنتی، بیلچہ مارتوڑ جبل کا استعمال کیا صبح تا شام بلا ناغہ ہفتے کے چھے دن لگاتار کام کرواتے رہے جب پتھروں کی کمی محسوس ہوئی تو پیچھے نالے سے خود آگے چلے اپنے نازک کاندھوں پر تولیہ رکھ کر پہلے خود پتھر اُٹھایا پھر بچّوں سے کہا آپ بھی اُٹھاؤ ان کی اس ادا پر چند استاد بھی چاروناچار کام میں لگ گئے یہ ان کا بڑا پن تھا اور قومی ہمدردی کا جذبہ جس وقت گراؤنڈ تیار ہوگیا اس پر ہی بس نہ کیا ایک اور پلان ان کے مدِ نظر تھا سکول میں وافر سٹاف تھا آفس میں ان کے بیٹھنے کے لئے کرسیاں ناکافی تھیں کچھ اساتذہ کرام صندوقوں پر بیٹھتے تھے ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کویہ ناگوار گذرتاتھا۔ اس کے لئے انہوں نے دوسرا منصوبہ سوچ رکھاتھا۔ چنانچہ موسم سرما کی چھٹیاں پڑتے ہی موصوف اپنے ایک خدمت گار شریف احمد نائک جو اسم بامسمیٰ ہیں وہ اپنی ڈیوٹی کے علاوہ لکڑی ترکھان کا کام بھی جانتے تھے ۔ ان کی اس صلاحیت کو بھی سکول کی فلاح وبہبودی کے لئے کام میں لایا یا سردیوں کی طویل چھٹیوں میں شریف احمد کو ہمراہ لے کر مالیگام میں گھر گھر جاکر لوگوں سے لکڑی از قسم شہتیر کائل،بُدلو، مانگی اپنے لئے نہیں سکول کے لئے ، جنوری کی ایک سردخنک صبح تھی اپنے معاون شریف احمد نائیک کو ساتھ لئے میرے غریب خانے میں تشریف لائے مجھے خوشی ہوئی ؎
وہ آئے گھر ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیںوقت وداع اپنے آنے کا مدعا بیان کیا کہ آپ پر یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ہمارے سکول کے آفس میں اساتذہ کرام کو بیٹھنے کے لئے کرسیاں ناکافی ہیں۔ ان کو صندوقوں پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ جس وقت میں اپنی کرسی پر بیٹھتا ہوں! مجھے شرم محسوس ہوتی ہے کہ میرے بازؤں بے آرامی کی حالت میں ہیں۔ میں نے تہیہ کیا ہے کہ ان چھٹیوں میں اس بات کا بندوبست کرلوں گا ۔ میرا خیال ہے ہمیں خود کفیل بننے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ہر کام کے لئے گورنمنٹ پر انحصار نہ رکھیں۔One should not wholy and soley depend on Govt. ان کی اس خوددارانہ ، مردانہ ، جسارت نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا چنانچہ دوسرے دِن میں اپنے فرزند محمد شاہد کو اوپرا دھواری ساتھ لے کر گیا وہاں سے ہم نے برف کے اوپرسے بُدلو کی شہتیر گھسیٹ کر لائی میں سوچا جب ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب کو ہمارے بارے میں احساس ہے ہمارا بھی اخلاقی فرض بنتا ہے ان کی عزت افزائی کرنا۔ دوسرے دن شہتیر ان کے حوالے کردی۔ سرما کی طویل چھٹیوں کے بعد یکم مارچ جب سکول دوبارہ کھلا تو ہمارے آفس کی رونق ہی بدل گئی تھی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے سردیوں میں شب وروز دوڑ دھوپ کرکے لکڑی جمع کی پھر شریف احمد نائیک سے کشن لگا کر ڈیسک صوفہ سیٹ کی شکل میں آفس کے تین کونوں پر فٹ کردیئے تھے اب ہم استادوں کو صندوقوں کے اوپر بیٹھنے کی نوبت نہ آئی ہم سب نے راحت کی سانس لی۔ اس کا رِ خیر کو سرانجام دینے میں شریف احمد نائیک کا بڑا حصہ ہے جس نے ڈیوٹی کے علاوہ یہ کام بغیر کسی اُجرت کے سرانجام دیا وہ دادِ تحسین کے مستحق ہے لیکن کامیابی کا سہرا تو ہیڈ ماسٹر صاحب کے سرجاتا ہے جن کی بالغ نظری دوراندیشی نے شریف احمد جی کی اہلیت اور قابلیت کا بھرپور فائدہ حاصل کیا اپنی ذاتی منفعت کے لئے نہیں بلکہ سکول کی فلاح کے لئے اس کارِ خیر کو دیر تک یاد رکھا جائے گا ان کی شانِ رہبری کی مثال قائم رہے گی موصوف اپنے منصب سے ہٹ کر بہت نیچے مزدور کا بھی کام کرتے تھے
تا کُجا طوافِ چراغ محفلے
ز آتش خود سوز اگر داری دِلے
ہیڈ ماسٹر آتے رہیں گے جاتے رہیں گے مجھے یقین ہے ہمیں ان کے جیسا دو بارہ ملے نہ ملے اس ادبی اوراقتصادی لحاظ سے بنجر علاقے میں تعمیر کی طرف سے ہٹ کر تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے بھی ان کی توجہ قابل ستائش تھی، کردار سازی اور ڈسپلن کی طرف ان کا کافی دھیان رہتاتھا ان کے دور کے آخری دو سالوں میں بورڈ کے نتائج صد فی صد رہے تھے ان میں سے چند طلبا ء نے امتیازی حیثیت سے امتحان پاس کیاتھا ۔ عوام الناس میں ان کی ہر دلعزیزی کا سبب یہی ان کے یہی ناقابل فراموش کارنامے تھے میرا ماننا ہے انھوں نے اپنی ساری سروس لوگوں کی سیوا میں صرف کی ہے جن دنوں آلن باس پرستان کے ہائی سکول میںتھے اس سکول کے گراؤنڈ کو کشادہ کرنے میں بھی بچوں کے شانہ بشانہ کام کرتے تھے وہاں کے ہندو مسلمان دونوں طبقوں کے لوگ اِن کے کام سے مطمئن تھے وہ لوگ ان صلاحتیوں سے باخبر تھے تب جاکر اُنہوں نے گورنر راج میں ہائی سکول گول گلاب گڑھ سے ڈیمانڈ پر وہاں سے آلن باس لایا تھا ان کا خیال تھا ہیڈ ماسٹر کے پانچ چھے سال سروس کے ہیں یہاں پر ہی بیت جائیںگے اور یہاں سے ہی سبکدوش ہوں گے۔ ابھی تین چار سال سروس کے باقی تھے کہ ان کا تبادلہ خود بخود اپنے آبائی گاؤں مالیگام کے لئے ہوگیا ۔ آلن باس کے لوگوں کے لئے یہ ناقابل قبول تھا ۔ بادلِ ناخواستہ اُنہوں نے الوداعی تقریب سجائی بچے بچیاں ، پیر وجواں ، مرد وزن کا ایک جم غفیر آس پاس کے علاقے سے اُمنڈآیا تھا اپنے محبوب ہیڈ ماسٹر کو الوداع کرنے کے لئے بچوں نے بچیوں نے تقریریں کی ان کی پدرانہ شفقت کو یاد کیا ان کی صحت سلامتی کے لئے دعائیں کی، عوام کی طرف سے بھی ان کی خدمات کو سراہا گیا ۔ خاص کر ایک بزرگ نمبردارشری پرسرام جی نے ایک پرُ اثر پرُ مغز تقریر کی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے پرُ نم آنکھوں سے مخاطب ہوئے ہم آہلیانِ آلن باس ہیڈ ماسٹر صاحب کے ممنون ومشکور ہیں آپ نے جس ہمدردی دیانتداری فرض شناسی سے ہمارے یہاں ڈیوٹی سر انجام دی، اپنے عہدے سے ہٹ کر سکول کے گراؤنڈ کو کشادہ کرتے وقت بچوں کے ہمراہ مزدور کی طرح کام کیا اور کروایا! آپ کے آنے سے ایک انقلاب آگیا تھا یہ ہماری بدقسمتی ہے آپ ہمیں چھوڑ کر جارہے ہو ۔ آپ نے ہمارے سکول کا ربط ضبط ، ڈسپلن جس انداز سے قائم دائم رکھا تھا وہ قابل دید تھااورقابل تعریف بھی، ہمیں اپنی جواں سال بچیوں کی فکرنہ تھی ہم ان کے والدین سوچتے تھے اس سفید ریش باپ ، گلاب پوش (گلاب پھول) کے مانند ایک محافظ بیٹھا ہے ایک چھتری کی طرح ان پر سایہ افگن ہے ،ہمیں کیا فکر ہے ۔ ہم سب اپنے اپنے گھروں میں بے فکری کے عالم میں تھے اب جبکہ چھتری اُٹھنے والی ہے ہم سب والدین کو اپنی اپنی بچیوں کی فکر لاحق ہوگی اس بارے میں ہمیں سوچنا ہوگا مستقبل کا لائحہ عمل ہمارے لیے کیا بہتر رہے گا ۔ یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ان تاثرات کا اظہار ایک روشن خیال بزرگ نے کیاتھا ۔
1993ء میں جب ان کی پرموشن بطور ہیڈ ماسٹر ہوئی تھی اُس وقت ان کی تعیناتی ایک دور دراز افتادہ پسماندہ علاقے گول گلاب گڑھ ضلع اودھم پور میں ہوئی تھی اُس زمانے میں وہاں تک پہنچنے میں سینکڑوں میل پا پیادہ جموں کی طرف سے اور کشمیر دہم ہال ہانجی پورہ سے ہوکر جانا ہوتا تھا انہوں نے ایک واقعہ سنایا اس کشمیر کے راستے سے آتے ہوئے ایک ہیڈ ماسٹر جن کا تعلق ادھم پور سے تھا ان کے ساتھ اپنے دو بچے تھے پیر پنجال کی چوٹی کراس کرتے وقت برفانی طوفان نے ان کو دبوچ لیا ایک لڑکے کو چپراسی اُٹھا کر نیچے دوڑا بڑا لڑکا کافی دیر تک اپنے باپ کے ہمراہ زندگی اورموت کی کشمکش کا مقابلہ کرتا رہا بالآخر اپنے ڈیڈی سے مخاطب ہوا آپ چلتے رہیں میں بھی تھوڑی دیر آرام کرکے آپ کے ساتھ مل جاؤں گا باپ نے سچ جانا وہ نیچے اُترتا رہا برف اورٹھنڈی ہوا نے زور پکڑا اندھیرا چھا گیا بچہ نظروں سے اوجھل ہوگیا ہیڈ ماسٹر گرتے پڑتے نیچے اپنی جان تو بچاگیا لیکن اپنے لخت جگر کو برفیلے طوفان کے نذر کردیا اس طرح ایک قیمتی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ ایسے دور دراز علاقے میں لوگ ان کے کاموںسے بے حد خوش تھے آج جب تیس سال کا طویل عرصہ بیت گیا ہے وہاں کے لوگ جموں میں ان کی سرمائی رہائش گاہ سیدرہ میں خبر وخیریت دریافت کرنے آتے جاتے ہیں ماضی کی یادوں کو دہراتے ہیں۔ ہمارے ضلع رام بن کے لوگ جوان کو جانتے وہ تو ان کی خدمات کو سراہاتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جن کو ان کا غائبانہ تعارف ہے ان کی نیک نامی کارکردگی کو سن رکھا ہے وہ کبھی اچانک ان سے ملتے ہیں تو بڑی اپنایت سے پوچھتے ہیں جنا ب آپ ہی ہیڈ ماسٹر عبدالرحمن گنائی صاحب ہیں بے شک آپ ہیں ؎
بڑا جی خوش ہوا حالی سے مل کر
ہیں ابھی کچھ لوگ باقی جہاں میں
مہمانِ نوازی میں بھی یہ اپنی مثال آپ ہیں اگر کوئی اجنبی ان کا مہمان ہونے کی سعادت حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے علاقے اپنے ملک میں جاکر برسوں بعد بھی یاد کرتا ہے ایسا ہی ایک واقعہ ان کی ذات گرامی سے وابستہ ہے آج سے لگ بھگ تیس سال پہلے کا واقعہ ہے مدینہ یونیورسٹی کے دو پروفیسر صاحبان سیر وتفریح کہ سلسلے میں ہمارے علاقے مالیگام میں تشریف لائے تھے اس وقت ان کو ان بیرونی مہمان خصوصی کی خاطر تواضع کاشرف حاصل ہوا تھااپنی عادت کے مطابق انہوں نے ان کی خاطر تواضع خلوصِ دل سے ذرا زیادہ ہی کی جوان کے وہم وگمان میں نہ تھی اس دور افتادہ اورپسماندہ علاقے میں ان کو ایسی ضیافت نصیب ہوگی کھانہ تناول فرمانے کے بعد انہوں نے عربی زبان میں شکریہ ادا کیا تھا جو ہیڈ ماسٹر صاحب کی سمجھ سے بعید تھا (زبانِ بار من ترکی من ترکی نمے دانم) کے مترادف تھا۔ کافی عرصہ کے بعد ہمارے علاقے کے چند طلبہ مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے ہوئے تھے اُسی دوران یہاں کے چند حاجی صاحبان بھی مدینہ تشریف لے گئے تھے وہ اپنے لڑکوں سے ملنے یونیورسٹی میں گئے اُن طلبہ نے ان کا تعارف اُن پروفیسر صاحبان سے کروایا جو ہمارے علاقے کو دیکھ کر گئے تھے وہ ان کو دیکھ کر خوش ہوئے ہمارے علاقے کی خوبصورتی کاذکر بھی کیا خصوصاً ہیڈ ماسٹر صاحب کی مہمان نوازی کو یاد کیا ان کی صحت اورسلامتی کے بارے میں پوچھا اتنا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی ان کے دل میں ان کی یاد تازہ تھی بہر کیف اس پیرانہ سالی میں بھی ان کی مہمان نوازی اُسی طرح قائم ودائم ہے ؎
گدازِ عشق نہیں کچھ کم مگر میں جواں نہ رہا
آگ تو وہی ہے مگر آگ میں دھواں نہ رہا
(جگر)
ناقدری کا دور تھا آج بھی ایسا ہی حال ہے ان کو گورنمنٹ کی طرف سے کسی قسم کی حوصلہ افزائی انعام واکرام سے نہ نوازا گیا جس کے وہ مستحق تھے البتہ عوام نے دل کھول کر ان کے کارناموں کو سراہا پسند کیا وقتاً فوقتاً گلہائے عقیدت بھی نچھاور کئے یہ بھی ان کے لئے باعث فخر تھا۔ ایک غیر سرکاری تنظیم سوشل ویلفیئر بانہال (SWAB) کی طرف سے ان کو ۲۰۰۱ء میں بمقام بانہال ایک شاندار تقریب سعید منعقد ہوئی اس میں تحصیل بانہال کے ماہر تعلیم اور دیگر معزز حضرات نے شرکت کی ان کے علاوہ بہت سے سکالرز سیاست دان ، دانشور بھی تھے ان سب نے ان کے بے لوث خدمات کویاد کیا ان کو ایک مثالی استاد اور کامیاب سربراہ تسلیم کیا ،موجودہ اور آنے والے اساتذہ کرام سے بھی اپیل کی آپ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں ۔ ان کی زندگی اور کارنامے آپ کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گے ۔آخر میں تنظیم کی طرف سے ان کو تمغہ اورسر ٹیفکیٹ عنایت کی گئی یہ بھی باعث افتخار ہے؟
۳۰؍جون ۲۰۰۱ء کو لگ بھگ ۳۹ سال طویل خدمات محکمہ تعلیم میںانجام دینے کے بعد بحیثیت سینئر ہیڈ ماسٹر اپنے آبائی گاؤں تھنہ مالیگام کے ہائی سکول سے سبکدوش ہوئے اس وقت کی الوداعی تقریب سعید کی صدارت ایک بزرگ سیاست دان مرحوم ومغفور مولوی عبدالرشید صاحب سابق ڈپٹی سپیکر قانون ساز اسمبلی جموں وکشمیر نے انجام دی تھی اس پارٹی میں شرکت کرنے والے حضرات ضلع رام بن کے علاوہ ضلع ادھم پور سے بھی تشریف لائے تھے بانہال نیل پوگل پرستان سے بھی ان کے پرستار جوق در جوق شریک ہوئے تھے۔ مردِوزن بچوں بچیوں کا ایک جم غفیر تھا بچوں ،اساتذہ کرام اور لوگوں کی طرف بھی ان کے کارناموں پر روشنی ڈالی گئی سامعین نے تالیوں اور نعروں سے ان کی تائید کی اس طرح اس الوداعی تقریب میں چار چاند لگ گئے یہ ایک تاریخی جلسہ تھا۔ نہ اس سے قبل، نہ شاید اس کے بعد اس طرح کا اہتمام ہوگا ۔
بزر گ محب وطن باایمان روشن بیان سیاست دان بھی یہ منظر دیکھ کر آب دیدہ نظر آئے تھے جس کا اعتراف مرحوم نے اپنے صدارتی خطاب میں برملا کیا تھا ۔ میں شروع سے مسلسل رو رہا تھا کہ آج ہم ایک مخلص دیانت دار فرض شناس ہمدرد ہیڈ ماسٹر کی سرپرستی سے محروم ہورہے ہیں جو آج اپنی سروس کے دِن پورے کر کے سبکدوش ہورہے ہیں اسے میں بدنصیبی سے تعبیر کررہا ہوں ان کے ہونے سے سکول میں بہاریں ہی بہاریں تھیں اب خزاں سے قبل ہی خزاں کے آثار مجھے دکھائی دے رہے ہیں۔ میری دعا اللہ ان کو تادیر زندہ رکھے تاکہ ہم وقت ضرورت ان کے زریں مشوروں سے فیضیاب ہوتے رہیں، ان کے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں نے بتایا کہ مولوی صاحب کی آنکھوں سے حقیقت میں آنسو رواں دواں تھے ان کی اپنی ساری زندگی لوگوں کی خدمت میں ہی صرف ہوئی تھی وہ قوم کے مصلح تھے بے لوث خدمت کرنے والے وہ ایسے بے لوث قوم کے خادموں کی بخوبی پہچان رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ ہیڈ ماسٹر کو پسند کرتے تھے ان کے کاموں سے خوش تھے ۔
ہیڈ ماسٹر صاحب کی الوداعی تقریر بے حد دل نشین اوراثر انگیز تھی ۔ از دل خیز بردل ریزد کے مانند اُن کی تقریر میں سامعین کافی محظوظ ہوئے سادہ سادہ باتیں بناوٹ کی تکلف اور آورد سے دور شروع سے آخر تک تقریر میں وقار اورمتانت کا سلسلہ قائم رہا خاص و عوام ہر طبقے کے لوگوں میں اتنی مقبولیت اوران کی عظمت اورہر دلعزیزی کی دلیل ہے انہوں نے اپنی دل آویز اور کیف انگیز تقریر کی کہ سننے والے جھوم جھوم گئے قابل فرض شناس اور دیانت دار اُستاد خواہ کسی مذہب یا قوم کے ہوں طلباء کے لئے نعمت ہیں ان کی تقریر کا لب لباب مفہوم میری نظر میں اس شعر میں مضمر تھا ؎
سپردم بہ تو ما بہ خویش را
تو دانی حساب کم وبیش را
اپنا الوداعی خطاب مکمل کرکے جب موصوف اپنی کرسی کی طرف جارہے تھے تو میں نے جمیل مظہری کا یہ شعران کے نذر کیا ؎
یہ میرا مڑ مڑ کے دیکھنا بھی ہے میری شانِ رہبرانہ
قدم کس طرح تیز کردوں میرے پیچھے ہے ایک زمانہ
موصوف نے بڑی دیانت داری سے اپنی عادت کے مطابق کام انجام دیا