تحریر: محمد تحسین رضا نوری شیرپور کلاں پورن پور پیلی بھیت
ولایت، قطویت، اور غوثیت یہ انسانی روحانی مقامات میں سے ہیں، ہر دور میں ان مقامات کے حاملین اولیاء کاملین کا ظہور ہوتا رہا ہے، انبیاء کرام علیھم السلام میں سب سے بلند مقام حضور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، انبیاء کرام کے بعد جملہ انسانوں میں سب سے افضل و اعلیٰ مقام سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے، صحابہ کرام اور ائمہ اہل بیت کے بعد اولیاء کاملین میں سب سے بلند و بالا شخصیت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ہے، جن کو غوث اعظم کہا جاتا ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ولایت و روحانیت اور قطبيت کے جس اعلیٰ منصب پر فائز فرمایا وہ اظہر من الشمس ہے۔ آپ کی ذات مبارکہ میں جو کشش اور امتیازی خصوصیات من جانب اللہ رکھی گئیں ہیں اُن کی مثال دیگر اولیاء کاملین میں ملنا ممکن نہیں۔ آپ کی ذات وہبی و کسبی دونوں طرح کے خزانوں سے آراستہ تھی، آپ کی علمی جلالت، رفعت شان، روحانی تصرفات و کرامات کی وجہ سے تمام اولیاء کاملین نے آپکی ذات کو پیران پیر اور غوث اعظم تسلیم کیا، یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی زمانہ آپ کے گن گانے والوں سے خالی نہیں ہے، مخلوق خدا آج بھی آپ کی بارگاہ سے فیضیاب ہو رہی ہے، آپ کو پوری دنیا پر تصرف حاصل ہے، آپ کا حکم جمیع امور تکوینیہ میں رواں دواں ہے، آپ کا اختیار صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ چاند، سورج، پانی، ہوا، یہاں تک کہ سال و ماہ پر بھی آپ کو پورا تصرف حاصل ہے، سلطان الاولیاء کی حیثیت سے ولایت عطا کرنے اور سلب کرنے کا پورا اختیار آپ کو حاصل ہے،
جیسا کہ روایتوں میں ملتا ہے کہ: ”عن الشيخ عمر بن مسعود البزاز والشيخ أبى حفص عمر الكسيماتي قالا كان شيخنا الشيخ عبد القادر رضي الله تعالى عنه يمشي في الهواء علي رؤس الأشهاد في مجلسه، ويقول ما تطلع الشمس حتي تسلم علي، وتجيء السنة إلي وتسلم علي، وتخبرني بما تجري فيها ويجيء الأسبوع ويسلم علي ويخبرني بما يجري فيه، ويجيء اليوم ويسلم علي ويخبرني بما يجري فيه وعزة ربي أن السعداء والأشقياء ليعرضون علي عيني في اللوح المحفوظ أنا غائص في بحار علم الله ومشاهدته أنا حجة الله عليكم جميعكم أنا نائب رسول الله صلى الله عليه وسلم ووارثه في الارض“۔ ترجمہ: ”شیخ عمر بن مسعود بزاز اور شیخ ابو حفص عمر کسیماتی سے روایت ہے، دونوں حضرات نے فرمایا کہ: میرے مرشد شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ لوگوں کے سامنے اپنی مجلس میں فضا میں چلتے تھے اور فرماتے تھے، سورج اُس وقت تک طلوع نہیں ہوتا ہے جب تک کہ مجھے سلام نہ کر لے، کوئی بھی سال آتا ہے تو پہلے مجھے سلام کرتا ہے پھر پورے سال میں جو کچھ بھی ہونے والا ہوتا ہے اُس کی ہمیں خبر دیتا ہے، اور مہینہ میری بارگاہ میں آتا ہے اور مجھے سلام کرتا ہے اور اس میں ہونے والے سارے معاملات کی مجھے خبر دیتا ہے، (اسی طرح) ہفتہ میری بارگاہ میں آتا ہے اور مجھے سلام کرتا ہے اور اس میں ہونے والے سارے معاملات کی مجھے خبر دیتا ہے، اور دن میری بارگاہ میں آتا ہے اور مجھے سلام کرتا ہے اور اس میں ہونے والے سارے معاملات کی مجھے خبر دیتا ہے،اور میرے رب کی عزت کی قسم بیشک نیک بخت اور بدبخت لوگ میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ میری آنکھ لوح محفوظ پر ہے، اور میں علم الٰہی کے سمندروں میں غوطہ زن ہوں اور اس کے مشاہدے میں مستغرق ہوں، میں تم سب پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی دلیل ہوں، میں زمین میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب اور اُن کا وارث ہوں“۔ ( بہجۃ الاسرار بحوالہ فیض الادب دوم)
ولادت باسعادت:
سیدنا سرکار غوث اعظم رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی ولادت باسعادت 470ھ مطابق 1077ء کو مقام ”جیلان“ میں ہوئی، آپ کی جائے ولادت میں اختلاف ہے بعض نے کہا کہ ”جیلان سے مراد وہ علاقہ ہے جو ایران کے شمال میں بحر قزوین کے کنارے پر واقع ہے“، اور بعض نے کہا: ”آپ کی ولادت باسعادت اُس جیلان میں ہوئی جو عراق میں واقع ہے، یہ بغداد معلی سے چالیس کلو میٹر جنوب میں مدائن کے علاقہ میں ہے، جدید مؤرخین اور موجودہ خاندان کیلانیہ جو بغداد میں جلوہ فرما ہے اُن کی بھی یہی رائے ہے۔
بچپن کے حالات:
سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات جملہ اولیاء و صلحاء سے منفرد اور یکتا ہے، بچپن ہی سے عجیب و غریب واقعات کا ظہور ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مادرزاد ولی ہیں، آپ کی ولادت سے قبل ہی بشارتوں کا ظہور ہونے لگا تھا، شیخ ابو بکر بن ہوارا رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ایک روز اپنے مریدین سے فرمایا کہ “عنقریب عراق میں ایک عجمی شخص جو کہ اللہ عزوجل اور لوگوں کے نزدیک عالی مرتبت ہوگا اس کا نام عبد القادر ہوگا اور بغداد شریف میں سکونت اختیار کرے گا، قدمی ھذہ علی رقبہ کل ولی اللہ (یعنی میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے) کا اعلان فرمائے گا اور زمانہ کے تمام اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالی علیہم اجمعین اس کے فرمانبردار ہوں گے۔“ (بہجۃ الاسرار) حضرت سیدنا امام عبد الوہاب الشعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں: جب میرے بیٹے عبد القادر جیلانی پیدا ہوئے تو رمضان المبارک میں دودھ نہیں پیا کرتے تھے، ایک مرتبہ آسمان پر بادل چھا گئے جس کی وجہ سے رمضان المبارک کا چاند لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو گیا، تو لوگوں نے مجھ سے سوال کیا تو میں نے جواب دیا کہ رمضان المبارک کا چاند نظر آ گیا ہے اس لیے کہ میرے بیٹے عبد القادر نے دودھ نہیں پیا ہے، بس ہمارے سارے شہر میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ جیلان کے سادات گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان المبارک کے دن کے وقت دودھ نہیں پیتا۔ (بہجۃ الاسرار) شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ”میں جب اپنے گھر پر رہتا تھا اور میرا بچپن کا زمانہ تھا، جب کبھی میں کھیلنے کا ارادہ کرتا تھا تو میں کسی کو کہتے ہوئے سنتا تھا: اے برکت والے! بس میں ڈر جاتا تھا اور گھر کی طرف دوڑتا ہوا آتا اور اپنے آپ کو اپنی والدہ ماجدہ کی گود میں گرا دیتا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ کو کب علم ہوا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ولی ہیں ؟ تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ: میری جب عمر دس سال کی تھی تو میں اپنے گھر سے مدرسے کی طرف جاتا تو فرشتے ساتھ ساتھ چلتے تھے اور میں ملائکہ کو دیکھا کرتا تھا، اور جب میں مدرسے میں پہنچ جاتا تھا تو ملائکہ مدرسے کے بچوں سے کہتے تھے کہ اللہ کے ولی کے لیے جگہ چھوڑ دو تاکہ وہ بیٹھ جائیں۔ (قلائد الجواھر) شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: گیلان میں ایک دن ایک بزرگ میرے پاس سے گزرے، انہوں نے مجھے دیکھ کے فرمایا، اس بچے کی ایک بہت بڑی شان ہوگی، تب میں اُن کو نہیں پہچانتا تھا، پھر مجھے اُن کی پہچان ہوئی جب چالیس سال بیت گئے وہ اُس وقت کے ابدال تھے۔ (اتحاف الاکابر)
زمانہ طالب علمی:
سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات طیبہ کا ایک ایک پہلو ہمارے لیے مشعل راہ ہے، آپ کی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات، مصائب و آلام پر بنظر عمیق توجہ دیں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بلند مراتب مشقتوں اور دشواریوں کے بعد ہی حاصل ہوتے ہیں۔ آپ کا تعلیمی سلسلہ کچھ اس طرح شروع ہوا کہ شیخ محمد بن قائد الاوانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ بیان کرتے ہیں کہ:”حضرت محبوب سبحانی غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ہم سے فرمایا کہ: حج کے دن بچپن میں مجھے ایک مرتبہ جنگل کی طرف جانے کا اتفاق ہوا اور میں ایک بیل کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا کہ اس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا: “یا عبدالقادر ما لھذا خلقت یعنی ”اے عبد القادر! تم کو اس قسم کے کاموں کے لئے تو پیدا نہیں کیا گیا۔“ میں گھبرا کر گھر لوٹا اور اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میدان عرفات میں لوگ کھڑے ہیں، اس کے بعد میں نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: ”آپ مجھے راہ خدا عزوجل میں وقف فرما دیں اور مجھے بغداد جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ میں وہاں جاکر علم دین حاصل کروں۔“ والدہ ماجدہ نے مجھ سے اس کا سبب دریافت کیا میں نے بیل والا واقعہ عرض کردیا تو والدہ ماجدہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ 80 دینار جو میرے والد ماجد کی وراثت تھے میرے پاس لے آئیں تو میں نے ان میں سے 40 دینار لے لیے اور 40 دینار اپنے بھائی سید ابو احمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے لیے چھوڑ دیے، والدہ ماجدہ نے میرے چالیس دینار میری گدڑی میں سی دیے اور مجھے بغداد جانے کی اجازت عنایت فرما دی۔ میری والدہ نے مجھے ہر حال میں راست گوئی اور سچائی کو اپنانے کی تاکید فرمائی اور جیلان کے باہر تک مجھے الوادع کہنے کے ليے تشریف لائیں اور فرمایا: “اے میرے پیارے بیٹے! میں تجھے اللہ عزوجل کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنے پاس سے جدا کرتی ہوں اور اب مجھے تمہارا منہ قیامت کو ہی دیکھنا نصیب ہوگا۔“ (بہجۃ الاسرار)
کرامت غوث اعظم:
سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بےشمار کرامتیں ہیں جن کا احاطہ ناممکن ہیں، خود آپ کی ذات مبارک ہی سراپا کرامت ہے، حصول برکت کے لیے آپ کی ایک کرامت کا تذکرہ کرتا چلوں، ایک دن حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالی علیہ بیان فرما رہے تھے اور شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کو نیند آگئی حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اہل مجلس سے فرمایا خاموش رہو اور آپ منبر سے نیچے اتر آئے اور شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے سامنے باادب کھڑے ہوگئے اور ان کی طرف دیکھتے رہے۔
جب شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ خواب سے بیدار ہوئے تو حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ان سے فرمایا کہ ”آپ نے خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا ہے؟“ انہوں نے جواب دیا: ”جی ہاں۔“ آپ نے فرمایا: ”میں اسی لئے باادب کھڑا ہو گیا تھا پھر آپ نے پوچھا کہ ”حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کیا نصیحت فرمائی ؟“ تو آپ نے عرض کے کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”آپ (یعنی عبد القادر جیلانی) کی خدمت اقدس میں حاضری کو لازم کر لو۔“ بعد ازیں لوگوں نے شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے دریافت کیا کہ ”حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے اس فرمان کا کیا مطلب تھا کہ ”میں اسی ليے باادب کھڑا ہو گیا تھا۔“ تو شیخ علی بن ہیتی علیہ رحمۃ اللہ الباری نے فرمایا: ”میں جو کچھ خواب میں دیکھ رہا تھا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس کو بیداری میں دیکھ رہے تھے۔“ (بہجۃ الاسرار)
آپ کے بعض ارشادات:
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: “اگر انسان اپنی طبعی عادات کو چھوڑ کر شریعت مطہرہ کی طرف رجوع کرے تو حقیقت میں یہی اطاعت الٰہی عزوجل ہے، اس سے طریقت کا راستہ آسان ہوتا ہے۔ (فتوح الغیب) اور فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالی اپنے بندے کی کوئی دعا قبول فرماتا ہے اور جو چیز بندے نے اللہ تعالٰی سے طلب کی وہ اسے عطا کرتا ہے تو اس سے ارادہ خداوندی میں کوئی فرق نہیں آتا اور نہ نوشتہء تقدیر نے جو لکھ دیا ہے اس کی مخالفت لازم آتی ہے کیونکہ اس کا سوال اپنے وقت پر رب تعالی کے ارادہ کے موافق ہوتا ہے اس ليے قبول ہو جاتا ہے اور روز ازل سے جو چیز اس کے مقدر میں ہے وقت آنے پر اسے مل کر رہتی ہے۔ (فتوح العیوب) مزید ارشاد فرمایا: ”پروردگار عزوجل سے اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش اور موجودہ اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے سوا اور کچھ نہ مانگ، حسن عبادت، احکام الہی عزوجل پر عمل کر، نافرمانی سے بچنے قضاء و قدر کی سختیوں پر رضامندی، آزمائش میں صبر، نعمت و بخشش کی عطا پر شکر کر، خاتمہ بالخیر اور انبیاء علیہم السلام صدیقین، شہداء صالحین جیسے رفیقوں کی رفاقت کی توفیق طلب کر، اور اللہ تعالی سے دنیا طلب نہ کر، اور آزمائش و تنگ دستی کے بجائے تونگر و دولت مندی نہ مانگ، بلکہ تقدیر اور تدبیر الہی عزوجل پر رضامندی کی دولت کا سوال کر۔ اور جس حال میں اللہ تعالٰی نے تجھے رکھا ہے اس پر ہمیشہ کی حفاظت کی دعا کر، کیونکہ تو نہیں جانتا کہ ان میں تیری بھلائی کس چیز میں ہے، محتاجی و فقر و فاقہ میں ہے یا دولت مندی اور تونگری میں، آزمائش میں یا عافیت میں ہے، اللہ تعالٰی نے تجھ سے اشیاء کا علم چھپا کر رکھا ہے۔ ان اشیاء کی بھلائیوں اور برائیوں کے جاننے میں وہ یکتا ہے (فتوح الغیب)
مکمل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات و واقعات کا تذکرہ کرنا ممکن نہیں۔ بس اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیوض و برکات سے مستفیض فرمائے۔ آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ