سیدنا خواجہ غریب نواز (رحمۃ اللہ علیہ) کی گراں قدر خدمات

0
0

(عرس مبارک 06 رجب المرجب پر خصوصی تحریر)

تحریر: محمد تحسین رضا نوری شیرپور کلاں پورن پور پیلی بھیت

ہندستان ان خوش قسمت ممالک میں سے ہے جہاں مذہب اسلام کی آمد پہلی صدی ہجری میں ہی ہو چکی تھی، تاریخ ہند کے مطالعہ سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ سیدنا آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ورود بھی اسی ہندوستان کی سرزمین پر ہوا تھا، اور ابتدائے آفرینش سے ہی انبیاء، صلحاء، صوفیاء، اولیاء، اور علماء کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، برصغیر ہند و پاک ہمیشہ ہی سے لاتعداد اولیاء کاملین کا مرکز و مسکن رہا ہے، اللہ عزوجل نے اپنے ان مقرب بندوں میں ایسی جاذبیت اور مقناطیسی اثر رکھا ہے کہ مخلوق خدا بے ساختہ ان کی جانب کھنچی چلی جاتی ہے، اور ان کے فیوض و برکات، افکار و نظریات، حیات و خدمات اور فضل و کمال سے استفادہ کر کے اپنے قلوب کو نور ایمان سے منور و مجلی کرتی ہے، اور دائمی طور پر خود کو شیطانی مکر و فریب سے محفوظ کر لیتی ہے، برصغیر میں اولیاء کاملین کی مقدس جماعت میں سر فہرست جس ہستی کا نام ہے اس کو دنیا ”فخر الکاملین، قطب العارفیں، معین بے کساں، عطائے رسول، ہند الولی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ“ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے، آپ نے ہندوستان کی سرزمین پر مذہب اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں وہ کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کی کوئی مثال نہیں، غیر منقسم ہندوستان میں آپ کی تشریف آوری اس وقت ہوئی جب ہندوستان میں ہر طرح شرک و کفر کے بادل چھائے ہوئے تھے، جہاں کثرت سے بت پرستی رائج تھی، لوگ شمس و قمر، شجر و حجر، نہر و بحر کو معبود گردانتے تھے، یتیموں اور بیواؤں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے، طاقتور زبردستی کمزوروں کا حق دبائے بیٹھے تھے، آخر رحمت خدا بندی جوش میں آئی، اور باشندگان ملک ہندوستان کی فوز و فلاح اور ان کی نصرت و حمایت کے لیے اپنے ایک ایسے محبوب بندے کو بھیجا جس نے ظلم و ستم، کفر و الحاد کی تاریکی کو چھانٹ کر پورے ہندوستان میں ایمان کی شمع روشن کی۔
آپ کی تشریف آوری پر یہاں کے حکمرانوں نے آپ پر کافی تشدد کیا، کبھی جادوگروں سے آپ پر حملہ کروایا، تو کبھی آپ پر پانی بند کر دیا گیا، اور حدود ریاست میں آپ کو قیام و طعام سے منع کیا جاتا تھا، اتنی مشکلات کے باوجود آپ کے پائے استقلال میں ذرا بھی جنبش نہیں آئی، اور آپ اسی طرح دین کی تبلیغ و اشاعت کرتے رہے، آپ کے اخلاق و کردار، اوصاف و کمالات سے متاثر ہو کر لوگ جوق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔

سیدنا خواجہ غریب نواز رحمۃ اللّٰہ علیہ ۵۳۷ھ میں پیدا ہوئے، آپ کا پیدائشی نام ”حسن“ ہے، اور آپ نجیب الطرفین سید ہیں، آپ کی والدہ ماجدہ بیان فرماتی ہیں کہ: ”جب معین الدین میرے شکم میں تھے تو میں اچھے اچھے خواب دیکھا کرتی تھی، میرے دشمن دوست ہو گئے تھے، گھر میں خیر و برکت تھی، ولادت کے وقت سارا مکان انوار الٰہی سے روشن تھا“۔ ابتدائی تعلیم والد گرامی سے حاصل کی، اور آپنے نو سال کی چھوٹی سی عمر میں ہی قرآن کریم حفظ کر لیا تھا، اس کے بعد ایک مدرسے میں قرآن و حدیث، تفسیر و فقہ کی تعلیم حاصل کی، پندرہ سال کی عمر سے پہلے ہی والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا، جس سے آپ کو کافی صدمہ لگا اور آپ بہت اداس رہنے لگے، بڑی جد و جہد اور کوششوں کے بعد آپ نے خود کو سنبھالا۔ حصول تعلیم کے لیے آپ نے شام، بغداد، کرمان وغیرہ کے علاوہ مختلف علاقوں کا سفر فرمایا، اور آپ نے کثیر اکابر علماء و فقہاء، اولیاء و صوفیاء سے اکتساب فیض کیا، جن میں آپ کے پیر و مرشد، پیر کامل حضرت سیدنا عثمان ہارونی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور سید الاولیاء، پیران پیر حضور غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ جیسے عظیم بزرگوں کے نام شامل ہیں۔ زیارت حرمین شریفین کے موقع پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ سے آپ کو ہند کی ولایت حاصل ہوئی اور وہاں آپ کو دین کی خدمت کرنے کا حکم ملا۔ (ملخص: مراۃ الاسرار، سیر الاقطاب وغیرہ)

ہندوستان آمد:______________
دیار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے حکم نامہ ملنے کے بعد آپ اپنے چند مریدین و محبین کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے، اس وقت ہندوستان کی حالت نہایت ناساز تھی، چہار جانب کفر و شرک کے بادل چھائے ہوئے تھے، لیکن خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی محنت و لگن، اخلاق و کردار، تبلیغ و بیان، کردار و گفتار سے متاثر ہو کر ہزاروں کی تعداد میں لوگ جوق در جوق حلقہ اسلام میں شامل ہونے لگے، آپ نے یہاں درس و تدریس کا آغاز فرمایا، آپ کی بارگاہ سے تعلیم یافتہ تلامذہ و خلفاء نے ہندوستان کے کونے کونے خدمت دین کا اہم فریضہ انجام دیا، مسلسل لوگ آپ کے دامن سے وابستہ ہو کر کفر و شرک کے دلدل سے نکل کر مذہب اسلام میں داخل ہوتے رہے، لامحدود لوگوں نے آپ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔ یہاں کے لوگوں نے آپ کو کافی پریشان کیا، تکلیفیں دیں، لیکن آپ نرمی ، رحمدلی اور اخلاق کریمانہ سے دین اسلام کی تبلیغ فرماتے رہے۔

درس و تدریس:___________
خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ اپنے مریدین و معتقدین کی تربیت بھی فرمایا کرتے اور درس و بیان بھی کیا کرتے تھے۔ آپ کے مریدین و تلامذہ نے آپ کے بہت سے درس جمع فرمائے ہیں، آپ کے مرید کامل حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے ایک درس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”5 رجب المرجب 514 ہجری کو میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا، اس وقت شیخ شہاب الدین سہروردی، شیخ داؤد کرمانی، شیخ برہان الدین محمد چشتی اور چند دیگر مشائخ موجود تھے، خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے نماز کے متعلق درس دیتے ہوئے فرمایا: نماز مؤمن کی معراج ہے، نماز تمام مقامات سے بڑھ کر ہے، اللہ پاک سے ملنا نماز ہی سے شروع ہوتا ہے، نماز ایک راز ہے جو بندہ اپنے رب کریم کی بارگاہ میں بیان کرتا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: المصلی یناجی ربہ (نماز پڑھنے والا اپنے رب سے راز کی باتیں کرتا ہے)۔ (دلیل العارفین)
ایک روز خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر لوگ بارگاہ خواجہ غریب نواز میں حاضر تھے۔ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے وضو کی چند سنتوں کے متعلق درس دیتے ہوئے فرمایا: وضو کرتے وقت انگلیوں کا خلال کرنا سُنّت ہے۔ ایک بار میں شیخ اجل شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تھا، شام کی نماز کا وقت ہوا، شیخ اجل رحمۃ اللہ علیہ تازہ وضو کرتے تھے، اتفاق سے آپ انگلیوں کا خلال کرنا بھول گئے، اسی وقت غیبی فرشتے نے آواز دی: اے اجل! تو ہمارے پیارے نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے، ان کی امت بنتا ہے مگر ان کی سنت ترک کرتا ہے؟ شیخ اجل رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وقت قسم کھائی کہ اب مرتے دم تک کوئی سنت ترک نہیں کروں گا۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ اس وقت کے بعد ایک روز میری شیخ اجل رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی، آپ پریشان تھے، میں نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو فرمایا: اس روز مجھ سے انگلیوں کا خلال رہ گیا تھا، اس لئے فکر مند ہوں کہ روز قیامت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ منہ کیسے دکھاؤں گا۔ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے درس کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا: وضو میں ہر عضو کو 3 مرتبہ دھوناسُنت ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ہر عضو کو 3 مرتبہ دھونا میری اور مجھ سے پہلے نبیوں کی سُنّت ہے۔ (ایضاً)

اقوال و ارشادات:______________
حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (۱) جس نے کچھ پایا خدمت سے پایا تو لازم ہے کہ مرشد کے فرمان سے ذرہ برابر تجاوز نہ کرے اور خدمت میں مشغول رہے۔
(۲) نماز بندوں کے لیے خدا کی امانت ہے تو بندوں کو چاہیے کہ اس کا حق اس طرح ادا کریں کہ اس میں کوئی خیانت پیدا نہ ہو۔
(۳) جو بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اور جہنم کے درمیان سات پردے حائل کردے گا جن میں سے ہر ایک پردہ پانچ سو سال کی راہ کے برابر ہوگا۔
(۴) اس سے بڑھ کر کوئی کبیرہ گناہ نہیں کہ مسلمان بھائی کو بغیر سبب تکلیف دی جائے اس میں خدا و رسول دونوں ناراض ہوتے ہیں۔
(۵) جس دل میں علما اور مشائخ کی محبت ہوتی ہے ہزار سال کی عبادت اس کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے، اگر وہ اسی اثنا میں مر جائے تو اسے علما کا درجہ ملتا ہے اور اس مقام کا نام علیین ہوتا ہے۔
(۶) سورہ فاتحہ تمام دردوں اور بیماریوں کے لیے شفا ہے جو بیماری کسی علاج سے درست نہ ہو وہ صبح کی نماز کے فرض اور سنتوں کے درمیان اکتالیس مرتبہ بسم اللہ کے ساتھ سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے سے دور ہو جاتی ہے۔
(۷) اگر قیامت کے دن کوئی چیز بہشت میں لے جائے گی تو زہد (دنیا سے بے رغبتی) نہ کہ علم (اس لیے علم کے ساتھ اس پر عمل ضروری ہے اور عمل اخلاص کے ساتھ ہو تو ضرور عالم کے اندر زہد پیدا کرے گا)
(۸) لوگ منزل قرب نہیں پاتے مگر نماز کی ادائیگی میں، کیوں کہ نماز مومن کی معراج ہے۔ (اخبار الاخیار)
(۹) حقیقی صابر وہ ہے کہ اسے مخلوق سے تکلیف و اذیت پہنچے تو وہ کسی سے شکایت کرے نہ کسی سے اس کا ذکر کرے۔
(۱۰) میرے مرشد خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مومن وہ ہے جو تین چیزوں کو پسند کرے: (۱) فقیری (۲) بیماری (۳) موت۔ جو ان چیزوں کو دوست رکھتاہے خداے تعالیٰ اور فرشتے اس کو دوست رکھتے ہیں اور اس کا بدلا جنت ہوگا۔

ابر رحمت اُن کی مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے

ربِّ کریم ہم سب کو سیدنا خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے خصوصی فیضان سے مستفیض فرمائے، اور آپ کی تعلیمات کو عام کرنے اور اس اور عمل کی توفیق دے۔ آمین یارب العالمین بجاہ شفیع المذنبین ﷺ

✍🏻 محمد تحسین رضا نوری شیرپور کلاں پورن پور پیلی بھیت

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا