بھارتی ستھار
بیکانیر، راجستھان
اس ماہ کے پہلے ہفتے میں راجستھان کے ہوم سکریٹری نے خواتین اور بچوں کی ترقی کے محکمے کی جائزہ میٹنگ میں ریاست کی تمام آنگن واڑی ورکروں کو اسمارٹ فون یا ٹیبلٹ فراہم کرنے کی ہدایات جاری کی ہے تاکہ اس سے مرکز کے کام کی آن لائن نگرانی کر اسے اور بھی بہتر بنایا جا جاسکے۔اس سے آنگن واڑی مراکز میں آنے والے بچوں اور ان کے صحت کے ریکارڈ کے ساتھ ساتھ خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو فراہم کردہ فوائد کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ میٹنگ میں چیف سکریٹری نے تمام آنگن واڑی مراکز میں پینے کے پانی اور بیت الخلاء کی سہولیات کو ترجیحی بنیادوں پر بہتر کرنے اور بجلی کے کنکشن ٹھیک کرنے کی بھی ہدایات دیں۔ انہوں نے تمام مراکز پر غذائیت کی فراہمی کی مقدار اور معیار کو یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی۔آنگن واڑی مراکز کو جدید اور ڈیجیٹل بنانے کا ریاستی حکومت کا یہ اقدام قابل ستائش ہے۔ اس سے پہلے بھی اس سال اپریل میں راجستھان حکومت نے آنگن واڑی کارکنوںاور معاونین کے اعزازیہ میں 10 فیصد کااضافہ کیا تھا۔ اس وقت راجستھان میں تقریباً 62,020 آنگن واڑی مراکز چلائے جا رہے ہیں۔ جس کے ذریعے لاکھوں بچوں اور حاملہ خواتین کو غذائی قلت سے پاک کیا جا رہا ہے۔یہ کامیابی ان کارکنوں، ساتھیوں اور معاونین کی وجہ سے ہی ممکن ہو رہاہے۔ لیکن اس کے باوجود کئی بار مرکز میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں بڑی مشکل سے کام کرنا پڑتا ہے۔
اس کی ایک مثال راجستھان کے چورو ضلع میں واقع گاؤں گڈسیسر ہے۔ جہاںچل رہے آنگن واڑی مراکز میں سہولیات کی کمی کی وجہ سے کارکنوںاور معاونین کوکافی مشکلیں آرہی ہیں۔گڈسیسر گاؤں، جو دارالحکومت جے پور سے تقریباً 254 کلومیٹر دور اور چورو ضلع کے سردارشہر بلاک سے 50 کلومیٹر دور واقع ہے، کی آبادی تقریباً 3900 ہے۔ یہاں کی پنچایت میں درج اعداد و شمار کے مطابق گاؤں میں مردوں اور عورتوں کی شرح خواندگی میں کافی فرق ہے۔ مردوں میں خواندگی کی شرح تقریباً 62.73 فیصد ہے، لیکن خواتین میں یہ شرح صرف 38.8 فیصد ہے۔ راجپوت اکثریتی اس گاؤں میں اعلیٰ اور نچلے طبقے کی اچھی آبادی بھی ہے۔ پانچ وارڈوں میں پھیلے اس گاؤں میں تین آنگن واڑی مراکز کام کر رہے ہیں۔ جہاں سہولیات کا بہت فقدان ہے۔ اس سلسلے میں آنگن واڑی سنٹر نمبر 3 کی معاون منوہری دیوی کا کہنا ہے کہ اس آنگن واڑی سنٹر کی اپنی عمارت ہے، لیکن اس میں بجلی، پانی اور بیت الخلا کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ اس وجہ سے یہ سنٹر گاؤں کے کمیونٹی سنٹر میں چلایا جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس سنٹر میں 0-6 سال کی عمر کے 57 بچوں کے نام رجسٹرڈ ہیں۔ انہیں مرکز سے دلیہ اور کھچڑی بطور غذائیت سے بھرپور خوراک دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ حاملہ خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو آئرن کی گولیاں بھی دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں سینیٹری پیڈ بھی تقسیم کیے جاتے ہیں، لیکن یہ گزشتہ دو ماہ سے مرکز پر دستیاب نہیں ہیں۔منوہری دیوی کے مطابق اپنی عمارت ہونے کے باوجود کمیونٹی کی عمارت میں آنگن واڑی سنٹر چلانا بہت مشکل کام ہے کیونکہ کئی بار عمارت میں شادی یا دیگر پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں اور جگہ کی کمی کی وجہ سے بچوں کو واپس گھربھیجنا پڑتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ بچوں کو گھر سے لانا اور پھر بحفاظت گھر پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ ہر روزانہیں نکلنے سے پہلے عمارت کی صفائی کرنی پڑتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم ریاستی حکومت کے آنگن واڑی مراکز کو بجلی، پانی اور بیت الخلا کی سہولتوں کے ساتھ مکمل کرنے کے فیصلے سے بہت خوش ہیں۔ محکمہ کی طرف سے اس پر جلد عمل درآمد کیا جائے تاکہ نہ صرف بچوں بلکہ ہمیں بھی کام کرنے میں آسانی ہو۔
دوسری طرف سیکنڈری اسکول میں تعمیر شدہ عمارت میں آنگن واڑی مراکز نمبر 1 اور 2 چل رہے ہیں۔ ان دونوں مرکز کے لئے بھی صرف ایک عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ ان میں بھی ضروری سہولیات کا فقدان ہے۔ آنگن واڑی سنٹر نمبر 1 کی معاون لڈما دیوی کا کہنا ہے کہ اس سنٹر میں 0 سے 3 سال کی عمر کے 26 اور 3 سے 6 سال کی عمر کے 30 بچے شامل ہیں ۔ جہاں حکومت نے بچوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں، میزیں اور کھیلنے کے لیے کچھ کھلونے مہیا کیے ہیں۔ لیکن عمارت میں پانی کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ ایسے میں اسکول کے نل سے پانی لایا جاتا ہے جبکہ مقامی رضاکار تنظیم ارمل سیتو کے تعاون سے ایک بیت الخلا بھی بنایا گیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہ سنٹر صرف ایک کمرے پر مشتمل ہے جس میں بچوں کے بیٹھنے کے ساتھ ساتھ کچن کا سامان بھی رکھا گیا ہے۔ کچن کے لیے علیحدہ کمرہ نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کے لئے ایک ہی کمرے میں دلیہ اور کھچڑی پکانے پر مجبور ہیں جو کہ کافی خطرناک بھی ہے۔ ہمیں کھانا بہت احتیاط سے پکانا پڑتا ہے۔
آنگن واڑی نمبر 2 کی کارکن شانتی کا کہنا ہے کہ اس سنٹر میں 0-3 سال کے 40 اور 3-6 سال کے 25 بچے داخل ہیں۔ جن کو دلیہ اور کھچڑی کھلائی جاتی ہے، خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو آئرن اور کیلشیم کی دوائیں بھی دی جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آنگن واڑی سنٹر کے نام پر صرف ایک عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ اس میں نہ تو پانی ہے اور نہ ہی بیت الخلاء کی سہولت۔ مرکز کے لیے پانی اسکول کے نل سے فراہم کیا جاتا ہے اور وہیں کے بیت الخلاء بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ شانتی دیوی کہتی ہیں کہ سہولیات کے بغیر کام کرنا بڑا چیلنج ہے ۔ لیکن بچوں کی بہتر صحت کے لیے ہم ہر روز اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب جبکہ حکومت نے آنگن واڑی مراکز میں سہولیات کو بہتر بنانے کی بات کی ہے تو اس سے ہمارے کام میں نئی توانائی آئے گی۔اس سلسلے میں گھڈیسر گاؤں کے سرپنچ منوج بھی ان آنگن واڑی مراکز میں سہولیات کی کمی کو قبول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فی الحال انہیں کمیونٹی سینٹرز اور اسکول کی عمارتوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔ لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں پنچایت نے خواتین اور بچوں کی ترقی کے محکمے کو خط لکھ کر صورتحال سے آگاہ کیا ہے اور سہولیات کی تکمیل کے لیے بجٹ بھی تیار کر کے بھیج دیا گیا ہے۔ بجٹ منظور ہوتے ہی ان عمارتوں میں بجلی، پانی اور بیت الخلاء کا بھی انتظام کیا جائے گا۔
درحقیقت آزادی کے بعد صحت کے میدان میں ملک کو جن چیلنجوں کا سامنا تھا، ان میں بچوں اور خواتین میں غذائیت کی کمی کا مسئلہ نمایاں تھا۔ ملک کے دیہی علاقوں میں یہ صورتحال اور بھی سنگین تھی۔ غربت اور معاشی پسماندگی کی وجہ سے حاملہ خواتین کو غذائیت سے بھرپور خوراک نہیں مل پاتی تھی۔ جس کا اثر بچوں میں نظر آتا تھا۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے آنگن واڑی مراکز کھولے تھے۔ جس کے ذریعے تین سے چھ سال کی عمر کے بچوں اور حاملہ خواتین کو غذائی قلت سے پاک بنانے کی مہم شروع کی گئی۔ یہ تعلیم، صحت، دیہی ترقی اور دیگر متعلقہ محکموں کے ساتھ مل کر چلایا جاتا ہے۔ جسے آئی سی ڈی ایس کہا جاتا ہے۔ قیام کے پچیس سال بعد ریاستی حکومتوں نے بھی اس میں مالی تعاون کرنا شروع کیا ہے۔ ایسے میں راجستھان حکومت کی طرف سے آنگن واڑی مرکز کے کارکنوں کو اسمارٹ فون یا ٹیبلیٹ کے ساتھ ساتھ عمارتوں کو بنیادی سہولیات سے آراستہ کرنے کی پہل ریاست کو غذائی قلت سے پاک بنانے کی سمت میں ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔ (چرخہ فیچرس)