لیڈر ہو یا افیسر رشوت خوری کوئی بھی کرے اُس کے خلاف سخت سے سخت کاروائی ہونی ضروری ہے رشوت خوری کے خلاف ہمیشہ سے حکومتوں نے کام کیا ہے کرتی رہیںگی لیکن رشوت کو ختم کرنابھی آمدہ لوک سبھا انتخابات میں ایک مدعا ہو نا چاہئے رشوت خوری حق و تلفی اور سماج کے لئے ناسورہے جس سے بچنے بچانے کے لئے حکومتوں کو ترجیحی اقدمات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ حکومتوںکام کاج تبھی جوابدہ ہوسکتا ہے جب حکومتوں کے کام کرنے کے انداز رشوت سے پاک ہونگے سپریم کورٹ نے پیر کے روز 1998 کے ’پی وی نرسمہا راؤ‘معاملے میں اپنے فیصلے کو پلٹتے ہوئے کہا کہ رشوت خوری کو پارلیمانی استحقاق کے ذریعہ تحفظ حاصل نہیں ہے۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والی جسٹس اے ایس بوپنا،جسٹس ایم ایم سندریش، جسٹس پی ایس نرسمہا، جسٹس جے بی پاردی والا، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے یہ متفقہ فیصلہ دیا۔بنچ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 105 یا 194 کے تحت رشوت خوری کو چھوٹ نہیں دی گئی ہے کیونکہ رشوت میں ملوث ایک رکن مجرمانہ عمل میں شامل ہوتا ہے۔ بنچ نے کہا، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ رشوت خوری کو پارلیمانی استحقاق کے ذریعہ تحفظ حاصل نہیں ہے۔ بدعنوانی اور رشوت خوری ہندوستانی پارلیمانی نظام کے کام کو تباہ کر دیتی ہے۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ رشوت خوری کو پارلیمانی استحقاق سے تحفظ حاصل نہیں ہے اور 1998 کا سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے ان دفعات کے منافی ہے جو قانون سازوں کو کسی خوف کے بغیر کام کرنے کے لیے آئینی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔بنچ نے کہا کہ راجیہ سبھا انتخابات میں ووٹ دینے کے لیے رشوت لینے والے ایم ایل اے کے خلاف بھی انسداد بدعنوانی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔سات رکنی بنچ نے جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلی شیبو سورین کی بہو سیتا سورین کی درخواست پر 5 اکتوبر 2023 کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ سیتا سورین پر 2012 کے راجیہ سبھا انتخابات میں ایک خاص امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے رشوت لینے کا الزام لگایا تھا۔
یہ سوال سپریم کورٹ کے سامنے اس وقت اٹھایا گیا تھا جب سیتا سورین نے 2012 کے راجیہ سبھا انتخابات کے دوران رشوت خوری کے الزام میں اپنے خلاف مقدمہ چلانے کو چیلنج کیا تھا۔سپریم کورٹ کے اس اہم فیصلے سے پارلیمانی کام کاج میں مذید شفافیت آئے گی سریم کورٹ کا یہ فیصلہ پر آمید ہے اور پر عزم ہے