فاضل شفیع فاضل۔۔ اکنگام انت ناگ
سوشل میڈیا نے ہر طرح سے انسانی زندگی کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔یہ ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں کوئی بھی فرد اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا ہے۔ حالانکہ اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہمارا قانونی حق ہے لیکن یہ بات ذہن نشین کرنی بے حد ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کے توسط سے ایسے صحافیوں اور سماجی کارکنوں نے جنم لیا جن کی سوچ محض ویوز(views) حاصل کرنا ہے۔یہ ایسے فرد ہیں جو کسی بھی خبر یا واقعہ کی جانچ پڑتال کیے بنا اپنا فیصلہ لوگوں پر تسلط کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی جگہ پر کوئی قتل کا واقع پیش آتا ہے تو یہ لوگ سیدھے ایک ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں اور اس میں کسی ایک شخص کو نشانہ بنا کر قاتل قرار دیتے ہیں اور اپنا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ معاملہ ابھی زیر تفتیش ہی رہتا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ اپنا خون پسینہ ایک کر کے تحقیقات میں جڑے رہتے ہیں تاکہ اصلی قاتل تک پہنچ جائے لیکن سوشل میڈیا کے ہیروز اپنا فیصلہ بہت پہلے سنا چکے ہوتے ہیں اور ان کی زبان پر ویڈیو میں سب سے پہلے الفاظ یہ رہتے ہیں” شیئر کرو، کمنٹ کرو، لائک کرو”
بات یہاں ختم نہیں ہوتی، ان افراد نے اسلام جیسے پاک مذہب اور نامِ نبیؐ کو تک نہیں بخشا ہے۔ کل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھ کر میرے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی جب دیکھا کہ ایک بندہ ویڈیو میں حضرت محمدؐ کا نام مبارک لے کر لوگوں سے ویڈیو شیر کرنے کی درخواست اس انداز میں کر رہا تھا” کہ جو شخص یہ ویڈیو شیئر نہیں کرے گا وہ کافر ہے اور اس کو حضرت محمدؐ سے پیار نہیں ہے استغفراللہ”
صحافت جو کہ قوم کی پہچان ہے اور جمہوریت کا ایک ستون بھی ہے ۔ ایک صحافی قوم کا معمار ہوتا ہے ۔ بڑی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آج کل بعض لوگ اپنے آپ کو صحافی کہتے ہیں دراصل صحافت کے پیشے سے بے خبر ہیں۔ صحافت کا غلط فائدہ اٹھا کر لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ غیر مستند واقعات اور خبروں کی تہہ تک جاۓ بنا سوشل میڈیا پر بڑے عجیب طریقے سے پیش کرتے ہیں وہ ایسے صحافیوں کی زبان پر بھی میں نے یہ الفاظ دیکھے ہیں ” شیئر کرو، کمنٹ کرو، لائک کرو” ۔ ان کا انداز بیان اس قدر پُر اثر رہتا ہےکہ ایک سیدھا سادہ آدمی بنا سوچے سمجھے شیئر کا آپشن(Option) دباتا ہے اور اس طرح بہت دفعہ ایک جعلی ویڈیو لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر خبر مستند اور سچی ہو تو اس کو شیئر کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ صحافت ایسے نازک موڑ پر کھڑی ہے جہاں سے اس کو نکالنا مطلب ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو عنقریب صحافت جیسے اعلی پیشے پر سے لوگوں کا بھروسہ اٹھ جائے گا۔
محض کچھ لائکس، کمنٹس اور شیرٔس کے لیے ایک قابل صحافی اس حد تک نہیں گر سکتا۔ ہاتھ میں مائیک لینا کوئی صحافت نہیں ہے۔ ہر گھر میں یہاں ایک صحافی یا سماجی کارکن موجود ہےجو کہ صحافت کے لغوی معنی سے بالکل بے خبر ہے۔ گورنمنٹ انتظامیہ کو ذمہ داری سے کام لینا ہوگا اور ایسے صحافیوں کی جانچ پڑتال کرنا اب وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔ دوسری جانب ہم سب کو نہایت محتاط رہنا ہوگا اور سوشل میڈیا پر آئے دن ایسے ویڈیوز کو پہلے دیکھنا ہے، اصلیت سے واقف ہونا ہے اور اس کے بعد اس ویڈیو یا خبر کو آگے لوگوں تک پہنچانا ہے۔ میں اپنی ذی عزت قوم سے بس یہ التماس کرنا چاہتا ہوں کے بڑے محتاط طریقے اور سوچ سمجھ کے سوشل میڈیا پر ویڈیوز کو” شیئر کریں، کمنٹ کریں اور لائک کریں”
فاضل شفیع فاضل۔۔ اکنگام انت ناگ
رابطہ؛ 9971444589