سناٹے کی فِفٹی:کشمیر میں 50ویں دن بھی ہڑتال دکانیں بند اور پبلک ٹرانسپورٹ غائب،غیریقینی صورتحال برقرار

0
0

یواین آئی

سرینگر؍؍وادی کشمیر میں پیر کے روز مسلسل 50 ویں دن بھی ہڑتال رہی جس دوران دکانیں و تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آواجاہی معطل رہی۔ تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کی سرگرمیاں ٹھپ ہیں۔ اگرچہ بیشتر سرکاری دفاتر، بنک اور ڈاک خانے کھلے رہتے ہیں تاہم پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان میں روایتی چہل پہل غائب ہے ۔گرمائی دارالحکومت سری نگر کے سول لائنز و بالائی شہر اور شمالی و جنوبی کشمیر کو سری نگر کے ساتھ جوڑنے والی سڑکوں پر پیر کے روز بھی بڑی تعداد میں نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔ بعض اہم سڑکوں بالخصوص بارہمولہ جموں ہائی وے پر کچھ چھوٹی گاڑیاں بھی چلتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ اگرچہ پبلک ٹرانسپورٹ گزشتہ زائد از ڈیڑھ ماہ سے لگاتار بند ہے لیکن سڑکوں پر چل رہی نجی گاڑیاں مسافروں کو لفٹ دیتی ہیں جس سے وہ بہ آسانی اپنے اپنے منزلوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ مسافر بردار گاڑیاں سڑکوں سے غائب رہنے کی وجہ سے صبح سے ہی پیدل سفر کرنے والوں کو سڑکوں پر قطار در قطار محو سفر دیکھا جاتا ہے لیکن نجی گاڑیاں اپنے آپ ہی رک کر حسب وسعت ان کو لفٹ دیتی ہیں جس سے وہ اپنے دفتر، ہسپتال یا اپنے کام پر بہ آسانی پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ نجی گاڑیوں کے اس طریقہ کار سے سڑکوں پر تعینات سیکورٹی اہلکار بھی محو حیرت ہیں۔… وادی بھر میں موبائل فون و انٹرنیٹ خدمات کی معطلی پیر کو 50 ویں دن میں داخل ہوگئی۔ انٹرنیٹ خدمات پر جاری پابندی کے باعث طلباء جہاں تعلیمی نقصان سے دوچار ہیں وہیں وہ ملکی یا غیر ملکی دانشگاہوں میں آن لائن داخلہ فارم جمع کرنے سے بھی قاصر ہیں جس کے باعث ان کے تعلیمی مستقبل پر تباہی کے سایے سایہ فگن ہیں۔ مختلف مسابقتی امتحانات کی تیاریوں میں مصروف طلاب انٹرنیٹ کی خدمات بند رہنے کی وجہ سے ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ وادی میں انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی خدمات پر عائد پابندی کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جن میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے ، بے روز گار ہوئے ہیں۔ مواصلاتی کمپنیوں اور ای بزنس کمپنیوں میں کام کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں ملازمین جن میں سے بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے ، اپنے معمول کے کام سے محروم ہوگئے ہیں اور گھروں میں بیٹھ کر اپنے اہل خانہ کے لئے باعث فکر مندی بن چکے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ وادی میں مواصلاتی خدمات پر پابندی اور ہڑتال کا سلسلہ 5 اگست کو اس وقت شروع ہوا جب مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے ہٹائی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقے بنانے کا اعلان کیا۔… اگرچہ وادی کے بیشتر علاقوں سے پابندیاں ہٹائی جاچکی ہیں تاہم سیکورٹی فورسز کی تعیناتی جاری رکھی گئی ہے ۔ سیکورٹی فورسز نے وادی کے یمین ویسار میں اپنے بنکر بنانے کا سلسلہ مزید تیز کردیا ہے ۔ وادی بالخصوص گرمائی دارالحکومت سری نگر میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران درجنوں جگہوں پر سیکورٹی فورسز کے نئے بنکر قائم کئے گئے ہیں۔ مقامی لوگوں نے نئے بنکروں کی تعمیر پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف حکومت حالات میں بہتری کا دعویٰ کرتی ہے جبکہ دوسری طرف نئے بنکروں کی تعمیر کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے بنکروں کی تعمیر سے مقامی لوگوں کے لئے نئے خطرات پیدا ہوئے ہیں۔ وادی میں جموں خطہ کے بانہال اور شمالی کشمیر کے بارہمولہ کے درمیان چلنے والی ریل خدمات بھی 5 اگست سے لگاتار معطل ہیں۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ سروسز مقامی پولیس و سول انتظامیہ کی ہدایت پر معطل رکھی گئی ہے اور مقامی انتظامیہ سے گرین سگنل ملتے ہی بحال کی جائیں گی۔ ان کے مطابق ریلوے کو اب تک زائد از ڈیڑھ کروڑ روپے کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔انتظامیہ نے بی جے پی کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو نظر بند رکھا ہے ۔ نیشنل کانفرنس صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ انہیں اپنے ہی گھر میں بند رکھا گیا ہے ۔ علاحدگی پسند لیڈران بھی خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ وادی میں جاری موجودہ ہڑتال کی کال کسی جماعت نے نہیں دی ہے ۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے پیر کی صبح پائین شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا کے مطابق پائین شہر میں لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر کوئی پابندیاں عائد نہیں ہیں تاہم لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے سے روکنے اور پتھرائو کرنے والے نوجوانوں سے نمٹنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات رکھی گئی ہے ۔ نامہ نگار کے مطابق جامع مسجد کو بدستور مقفل رکھا گیا ہے اور کسی کو بھی اس کے دروازوں کے سامنے ٹھہرنے یا گاڑی کھڑا کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔ پائین شہر میں تمام دکانیں اور تجارتی مراکز بند ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے بیشتر سڑکیں سنسان نظر آرہی ہیں۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وادی کی صورتحال تیزی کے ساتھ بہتری کی جانب گامزن ہے اور پتھرائو کے واقعات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی آرہی ہے ۔ تاہم اس کے برعکس سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسیں بھی سڑکوں سے غائب ہیں۔ ان میں سے کچھ درجن بسوں کو سول سکریٹریٹ ملازمین اور سری نگر کے دو تین ہسپتالوں کے عملے کو لانے اور لے جانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ۔ ایس آر ٹی سی کی کوئی بھی گاڑی عام شہریوں کے لئے دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا