رام لکھن گرجر
جے پور، راجستھان
دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک ہندوستان میں صحت کی خدمات تک رسائی اور معیار اب بھی ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ اگرچہ پچھلی چند دہائیوں میںاس شعبے میں کافی بہتری آئی ہے لیکن ابھی بھی اس میںمزید کام کی ضرورت ہے۔ سال 2024-25 کے بجٹ میں صحت اور خاندانی بہبود کے لیے 90,958 کروڑ روپے کے بجٹ کا اعلان کیا گیا ہے، جو کہ گزشتہ سال 2023-24 کے بجٹ میں مختص کردہ 89,155 کروڑ روپے سے دو فیصد زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ہیلتھ ریسرچ کے شعبے میں بھی بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ سال 2023-24 کے 2,980 کروڑ روپے کے مقابلے اس سال 3,301.73 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جو کہ دس فیصد سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود نہ صرف دیہی بلکہ شہری علاقوں میں بھی کچی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں کو صحت کی مناسب سہولیات نہیں مل رہی ہیں۔ راجستھان کے دارالحکومت جے پور میں واقع کچی بستی’راون کی منڈی‘ اس کی ایک مثال ہے۔ جہاں لوگ ابھی تک صحت کی سہولیات تک رسائی سے محروم ہیں۔جے پور شہر، اپنے تاریخی اور ثقافتی ورثے کے لیے جانا جاتا ہے، لیکن راون کی منڈی جیسے شہر کے کچھ حصے ایسے ہیں، جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، یہاں رہنے والی برادریوں کو صحت، تعلیم، پینے کا صاف پانی اور سہولیات میسر نہیں ہیں۔ دیگر بنیادی سہولیات تک رسائی میں کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس حوالے سے کالونی میں رہنے والی 47 سالہ لالیما دیوی کا کہنا ہے کہ ’’یہاں نہ تو صحت کا مناسب مرکز ہے اور نہ ہی یہاں تربیت یافتہ ڈاکٹروں اور نرسوں کی سہولت ہے۔ ڈیلیوری، ویکسینیشن اور دیگر طبی ضروریات کا خیال رکھنے کا بھی کوئی خاص انتظام نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں یہاں حاملہ خواتین اور پیدا ہونے والے بچوں کی شرح اموات زیادہ ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ یہاں رہنے والے خاندانوں میں سے کسی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ آلودہ پانی پینے سے بچے اکثر بیمار ہو جاتے ہیں۔ لیکن کسی قسم کا شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج کروانے کے قابل نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مالی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کا کسی پرائیویٹ ہسپتال میں علاج نہیں کروا پا رہے ہیں۔ اس کالونی میں ملیریا، ڈائریا اور سانس کی بیماریاں عام ہیں کیونکہ یہاں کے لوگ گندگی اور کوڑے کے درمیان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ریاستی سکریٹریٹ سے تقریباً 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس کالونی میں 40 سے 50 کچے گھر ہیں۔ جس میں تقریباً 300 لوگ رہتے ہیں۔ اس کالونی میں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی اکثریت ہے۔ جس میں جوگی، کالبیلیہ اور میراسی کمیونٹیز بنیادی طور پر شامل ہیں۔ ہر سال وجے دشمی کے موقع پر یہاں راون دہن کے لیے راون، میگھناد اور کمبھکرن کے مجسمے تیار کیے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ لوگ اسے خریدنے کے لیے جے پور کے باہر سے بھی آتے ہیں۔ اس وجہ سے اس بستی کو راون کا بازار تسلیم کیا گیا ہے۔ وجے دشمی کے علاوہ، سال کے دوسرے دنوں میں، یہاں کے باشندے اسکریپ، بانس سے بنی اشیاء بیچ کر یا یومیہ اجرت پر کام کر کے اپنی روزی کماتے ہیں۔ شہر میں آباد ہونے کے باوجود اس کالونی میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ۔ ان میں صحت ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں خواتین اور بچوں میں صحت اور غذائیت کی کمی سب سے زیادہ نظر آتی ہے۔یہاں زیادہ تر خواتین بالخصوص حاملہ خواتین اور نومولود بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ دیگر مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
بستی کی 38 سالہ سیتا دیوی کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق کالبیلیا برادری سے ہے۔ جس کی شناخت خانہ بدوش قبیلے کے طور پر کی جاتی ہے۔ خانہ بدوش ہونے کی وجہ سے ان کی کوئی مستقل رہائش نہیں تھی۔ ایسے میں ان لوگوں کے لیے نسل در نسل کوئی رہائشی سرٹیفکیٹ نہیں بن سکا۔ تاہم وہ لوگ گزشتہ 8 سال سے اس بستی میں رہ رہے ہیں۔ اس کے باوجود آج تک ان کا یا ان کے خاندان کے کسی فرد کا مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ نہیں بن سکا ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں سرکاری اسپتال میں کوئی سہولت نہیں مل پا رہی ہے۔ جب وہ سرکاری اسپتال جاتی ہے تو انہیں یہ کہہ کر واپس کردیا جاتا ہے کہ ان کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ ایسی حالت میں انہیں پرائیویٹ ہسپتال جانے کو کہا جاتا ہے۔ جہاں علاج بہت مہنگا ہے۔ سیتاکے شوہر 42 سالہ کالا رام کا کہنا ہے کہ سرکاری اہلکاراس بستی کو غیر سرکاری مانتے ہیں۔ اس لیے وہ یہاں پینے کا صاف پانی یا دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کالونی کے کچھ خاندان آپس میں چندہ جمع کرتے ہیں اور ہر ہفتے پانی کا ٹینکر منگواتے ہیں تاکہ خاندان کو پینے کا صاف پانی مل سکے۔ لیکن جب پانی ختم ہو جائے تو گندا پانی پینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ایک اور خاتون گڑیا دیوی کا کہنا ہے کہ یہاں پر پھیلے کچرے کی وجہ سے لوگوں میں داداور خارش جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ بارش کے موسم میں لوگوں کے گھروں میں پانی بھر جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کو متعدی بیماریوں کا خطرہ ہے۔ گڑیا کے مطابق یہاں کے لوگوں کے پاس بیت الخلاکے لیے خصوصی سہولیات بھی نہیں ہیں۔ ہر گھر میں بیت الخلاء نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو کمیونٹی ٹوائلٹ استعمال کرنے پڑتے ہیں جو پانی کی خصوصی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اکثر گندے رہتے ہیں ۔ اس کا سب سے برا اثر خواتین اور بچوں کی صحت پر پڑتا ہے۔ گندگی کی وجہ سے وہ بہت جلد بیمار ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کالونی میں پانی کی کمی کے باعث خواتین اور بچے گرمیوں میں بھی کئی کئی دن نہانے سے محروم رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ وبائی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔
وہیں 17 سالہ لڑکی پوجا کا کہنا ہے کہ اس نے اسکول میں دی جانے والی آئرن گولیوں کے بارے میں سنا ہے جو لڑکیوں کی صحت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ لیکن گھر میں چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھنے کی وجہ سے اس نے اسکول چھوڑ دیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ بعض اوقات رضاکارانہ تنظیموں کی بہنیں کالونی میں صحت سے متعلق معلومات دینے آتی ہیں۔ لیکن جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو سرکاری ہسپتال میں رہائش یا دیگر ثبوت مانگے جاتے ہیں اور اگر وہ فراہم نہیں کیے جاتے تو علاج سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ایک اور خاتون وملا کہتی ہیں،’’اس بستی میں بنیادی سہولتیں بھی نہیں ہیں۔ یہاں نہ تو بجلی کا کنکشن ہے اور نہ ہی پینے کا صاف پانی۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس بستی کو حکومت نے قانونی حیثیت نہیں دی ہے، اس لیے یہاں یہ سہولیات دستیاب نہیںہو سکتی ہیں۔ہمیں ایسے ہی حالات میں رہنا پڑے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ اکثر کالونی کے لوگ آپس میں چندہ جمع کرتے ہیں اور پانی کا ٹینکر حاصل کرتے ہیں۔جس کی قیمت 700-800 روپے فی ٹینکر ہے۔لیکن مالی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ یہ کام نہیں کر پاتے۔ ایسے میں وہ آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ یہاں رہنے والی خواتین اور نوعمر لڑکیوں کے پاس نہ تو ہیلتھ کارڈ ہیں اور نہ ہی انہیں ہسپتال میں صحت کی کوئی سہولت میسر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو ویکسین وقت پر دستیاب نہیں ہوتی۔35 سالہ شاردا لوہار کہتی ہیں کہ میں یہاں 8 سال سے رہ رہی ہوں، یہاں رہتے ہوئے میں نے دو بچوں کو جنم دیا ہے، لیکن کسی قسم کی دستاویز نہ ہونے کی وجہ سے مجھے سرکاری اسپتال میں داخل نہیں کیا گیا۔ میری دونوں ڈیلیوری گھر پر ہوئی، مجھے حمل کے دوران بھی صحت سے متعلق کوئی سہولت نہیں مل سکی۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ہیں۔ ہر روز کام کے لیے باہر جائیں۔ ہمیں دستاویز بنانے کا مکمل علم بھی نہیں ہے۔ اس لیے آج تک ہمارے پاس کوئی کاغذ نہیں ہے۔ جب کہ سرکاری اسپتال جاتے وقت وہاں دستاویزات یا سرٹیفکیٹ مانگے جاتے ہیں۔ اس لیے نہ صرف علاج بلکہ ڈلیوری بھی گھر پر ہی کرنی پڑتی ہے۔
اگرچہ حکومت کی طرف سے صحت اور بہبود سے متعلق بہت سے پروگرام چلائے جا رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ راون کی منڈی جیسی کچی آبادیوں میں اس طرح کی اسکیموں کوواضح طریقے سے نافذ نہیں کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ بنیادی طبی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ ان کچی آبادیوں میں صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے مقامی سطح پر صحت کے مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے، جہاں تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرز دستیاب ہوں۔ مراکز میں حاملہ خواتین، ماؤں اور بچوں کے لیے خصوصی سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ آلودہ پانی آدھی بیماریوں کی جڑ ہے۔ ایسے میں پینے کے صاف پانی اور صفائی کی فراہمی کے لیے خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف صحت سے متعلق مسائل میں کمی آئے گی بلکہ بیماریوں کے پھیلاؤ کو بھی روکا جا سکے گا۔ حکومت اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مقامی سماجی تنظیمیں اور سماجی کارکن بھی اس کام میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آخر کار کچی آبادیوں کو بھی دیگر لوگوں کی طرح صحت کی سہولیات حاصل کرنے کا پورا حق ہے جو انہیں ہر حال میں فراہم کیا جانا چاہیے۔ (چرخہ فیچرس)