سزائے جرم

0
0

سعدیہ شمیم نانپوری
نانپور سیتامڑھی بہار
7739123678

 

شاہینہ آتے ہی صوفے پہ ڈھہ گئی ۔بہت تھکی تھکی سی لگ رہی تھی ،ماتھے پہ پسینہ طبیعت ایک دم سست ،وہ آنکھیں موند کر آرام کرنے لگی ،سامنے اسکی ساس بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھی اسنے ایک نظر بہو پر ڈالا اور پھر اپنے کام میںمشغول ہو گئی ۔کچھ دیر خاموشی کے بعد اسنے کہا۔
کیا کہا ڈاکٹر نے ۔
ریپوڑٹ میں سب ٹھیک ہے نہیں ۔
یہ سوال سنتے ہی شاہینہ کا خون کھول گیا وہ بنا جواب دیئے ہی کمرے میں چلی گئی ۔اسکی ساس آنکھیں تریر کر رہ گئی ۔پتا نہیں آج کل کی بہو کس شان میں جیتی ہے ۔اپنی ساس کی کوئی عزت ہی نہیں ہے ،میں بھی تو بہو تھی اپنے زمانے میں،میں نے تو کبھی ایسا نہیں کیا ،اللہ ایسی بہو کسی کو نہ دے ۔کتنی گھمنڈی ہے ۔وہ بربراتی رہی اور تسبیح کے دانے آگے بڑھ رہے تھے۔
کل چلنا ڈاکٹر نے کل بلایا ہے ہم دونوں کو ۔۔۔۔۔۔افضل نے کہا ۔
نہیں جانا مجھے ۔۔۔ کہیں نہیں اور کبھی نہیں جانا مجھے ۔۔۔وہ رونہانسے ہو گئی ۔
شاہینہ دیکھو علاج تو کروانا پریگا نہ ۔۔۔۔کیسا علاج ہم دس سال سے تو علاج کروا رہے ہیں ۔بس پاگلوں کے طرح بھٹک رہے ہیں ۔کبھی ڈاکٹر کے پاس تو کبھی مولوی کے پاس ،سب یہی کہتا ہے ٹھیک ہو جائیگا ،لیکن کب ہوگا مر جاﺅنگی تب یا قیامت آجائیگا تب۔یہ کہتے کہتے وہ زارو قطار رونے لگی ۔
دیکھو افضل اب ڈاکٹر کا چکر لگانا چھوڑ دو ۔یہ سب بس ہمارے گناہوں کی سزا ہے ، جو ہمنے کیا ہے ۔وہ بھگتنا پڑیگا کسی بھی حال میں ۔یاد کرو وہ دن ۔۔۔۔
افضل کے آنکھوں کے سامنے وہ سارے منظر گھومنے لگے ساری باتیں اسے یاد آنے لگی ،جو اسنے کیا ۔۔!
افضل سوچ میں گم ہو گیا ،کتنی بے بس تھی وہ کتنا گھناﺅنا الزام لگایا تھا میں نے اس پر ۔کس طرح گڑگڑارہی تھی وہ ۔جب میری امی نے کہا اس عورت کو طلاق دے دو ،اسی عورت میں کوئی خرابی ہے تبھی تو ہمارے گھر میں کوئی کلکاریاں نہیں گونج رہی ہے ۔پتا نہیں کیوں میں نے اس عورت سے تمہاری شادی کردی ۔میں نے تمہاری زندگی برباد کر دی بیٹا ۔اسکو طلاق دے دو اور دوسری شادی کر لو ۔یہ عورت منحوس ہے ۔
میں اپنی ماں کا غلام تھا میرے اندر ماں کے لئے وفاداری خون بن کر رگ رگ میں دوڑ رہی تھی ۔ماں کے ہر غلط صحیح فیصلے پر سر ہلا کر ہامی بھرتا ۔
میں تمہاری دوسری شادی کروا دونگی بیٹا ۔اور تمہاری دوسری عورت سے گھر بس جائیگا ،یہ عورت چڑیل ہے۔
آپ جیسا ٹھیک سمجھو امی ۔۔۔!
ہم لوگ بنا عینی کو بتائے چپکے چپکے لڑکی ڈھونڈنے لگے ۔عینی کو خبر تک نہیں تھی ۔وہ تو ایک اچھی بیوی اور بہو ہونے کا فرض نبھا رہی تھی ۔پھر میرا رشتہ شاہینہ سے لگا ۔جب شاہینہ کے گھر والو ںکو پتا چلا کہ میں شادی شدہ ہو ںتو اسنے کہا ۔
میں اپنی بیٹی کی شادی ایسی جگہ نہیں کرونگا جہاں اسے سوتن کے ساتھ رہنا پڑے ۔آپ لوگوں کو شادی کرنی ہے تو پہلے اس عورت کو طلاق دو پھر شادی ہوگی ۔میں نے بہت کوشش کی اسکے گھر والوں کو منانے کی پر وہ لوگ مانے نہیں ۔اور میں نے اپنی ماں کی باتوں میں آکر اسے طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا ،جب عینی کو خبر ہوئی تو وہ اسے سانپ سونگھ گیا ۔اسکے سر پر بجلی سی گری کسی عورت کا طلاق ہونا بہت بری بات ہوتی ہے ۔
میں آپکے ہاتھ جوڑتی ہوں ،مجھے طلاق مت دیں ۔۔۔۔۔وہ بے ساختہ روئے جا رہی تھی ۔آپ لوگوں کو اتنی جلدی کیوں ہیں ،ابھی تو زیادا وقت بھی نہیں ہوئے ہیں ۔۔۔۔آپکو شادی کرنی ہے آپ شادی کر لیں پر مجھے طلاق نہ دے ۔۔۔۔۔مجھے آپکے نکاح میں ہی رہنا ہے ۔
جب تک تم رہوگی وہ لوگ اپنی لڑکی نہیں دینگے ۔۔۔۔میں نے کہا ۔
آپ اس سے کہئیے میں اسکی غلام بن کر رہونگی ،اسکے بچوں کو کھلاﺅنگی اور ساری خدمت کرونگی ۔۔۔وہ میرے پیڑ پکڑ کر رونے لگی ،ہم لوگوں نے اسکی ایک نہ سنی ۔اور میرا گھر اسکے سامان سے خالی ہو چکا تھا۔ میں نے اسے اس طرح سے گھر سے نکالا جیسے کوئی دشمن کو بھی نہیں نکالتا ہے۔میں نے اتنا بڑا گناہ کر ایک خوشیوں سے بھری دنیا کی امید کر رہا تھا ۔مجھے لگا اب سب ٹھیک ہو جائیگا ۔
آج دس سال ہو گئے میری دوسری شادی کی ،پر آج تک کوئے ننھی جان نہیں آئی ۔یہ گھر تو صرف کہنے کو ہے،اصل میں بہت بھیانک اور بہت ہی خوفناک سا لگتا ہے یہ گھر، میرے گناہ جب مجھے یاد پڑتے ہے تو مجھے خود پہ شرم آتی ہے۔مجھے میری غلطی کا احساس تو اس دن ہوا تھا جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ اسکی شادی ہو گئی ہے ،اور وہ چار چار بچوں کی ماں ہیں ۔
میں خود میں گھٹنے لگا تھا ۔میرے پاﺅں بے جان ہو گئے تھے ۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ میرے سامنے کھڑی مسکرا رہی ہے اور اسکی مسکان مجھ سے کہ رہی ہے کہ گندگی آپکے چہڑے پہ لگی تھی اور صاف کرتے رہے آئینہ ۔آپکو وہ خوشیاں کبھی نہیں ملیگی جس کے لئے آپ نے مجھے چھوڑا ۔افضل کے آنکھوں میں آنسوں آگئے تھے ۔شاہینہ اب تک روئے جا رہی تھی اسکی ہمت نہ ہوئی کہ اسے چپ کرائے ۔افضل نے اسے ایک نظر دیکھا اور کمرے سے باہر آگیا ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا