پاسبانِ شعر و ادب ۔کوکن
سیدانیس العابدین
9622124541
سوشیل میڈیا پر جہاں دگر زبانوں کی ترویج و ترقی کے جد جہد کی جاری ہے، وہاں اُردو والے بھی اپنی بھرپور کوشش سے اس زبان کی خدمت کر نے میں آگے ہی نہیں کامیاب بھی ہیں۔اُردو ادب کے نام سے یوں سوشیل میڈیا میں بہت سے معیاری اور معتبر گروپس ہیں ان میں، ایک ایسا گروپ جو وادیِ کوکن سے دو برس قبل تشکیل دیا گیا، معتبر ذرایع سے ہم تک یہ بات پہنچی کہ کوکن کے اس گروپ کے روح رواں’’ منظر خیامی صاحب‘‘ نے اپنی سوجھ بوجھ سے اسے تشکیل دیا، صرف ایڈمن بن کررہنا انہیں پسند نہ تھا، انہوں نے جب اپنے شاگرد ’’ مراد ساحل‘‘ کو کے لے گروپ قایم کیا تو سب سے پہلے اس میں اپنے دور دور پھیلے ہوئے شاگرد اور شاگرداوں کو ممبر بنایا، پھر معتبر و ماہر عروض و فن شاعری کے چند نامور اساتذہ کو شامل کیا۔ سوشیل میڈیا پر جہاں دگر زبانوں کی ترویج و ترقی کے جد جہد کی جاری ہے، وہاں اُردو والے بھی اپنی بھرپور کوشش سے اس زبان کی خدمت کر نے میں آگے ہی نہیں کامیاب بھی ہیں۔اُردو ادب کے نام سے یوں سوشیل میڈیا میں بہت سے معیاری اور معتبر گروپس ہیں ان میں، ایک ایسا گروپ جو وادیِ کوکن سے دو برس قبل تشکیل دیا گیا، معتبر ذرایع سے ہم تک یہ بات پہنچی کہ کوکن کے اس گروپ کے روح رواں’’ منظر خیامی صاحب‘‘ نے اپنی سوجھ بوجھ سے اسے تشکیل دیا، صرف ایڈمن بن کررہنا انہیں پسند نہ تھا، انہوں نے جب اپنے شاگرد ’’ مراد ساحل‘‘ کو کے لے گروپ قایم کیا تو سب سے پہلے اس میں اپنے دور دور پھیلے ہوئے شاگرد اور شاگرداوں کو ممبر بنایا، پھر معتبر و ماہر عروض و فن شاعری کے چند نامور اساتذہ کو شامل کیا۔سب سے اہم اس گروپ کی نوعیت یہ رہی کہ اس کے بانی’’ محترم منظر خیامی صاحب‘‘ جیسے عظیم استاد شاعر نے، روزانہ دو گھنٹے علم عروض کی معلومات دینا شروع کئی، اور یہ معلومات اتنی وسیع رہی کہ کچھ بے جا اُردو شاعروں پہ عاید کی گئی عربی فارسی کے نام پہ پابندیوں کو الگ الگ کرکے سمجھایا،اور اراکین کو سوالات کرنے کی آزادی دی جواب اور کلاموں کی اصلاح گروپ ہی میں سب کے سامنے شروع کی اس سے جہاں ان کے شاگردوں نے کمال فن حاصل کیا وہیں دگر اراکین بھی مستفیض ہوئے اور ان کی شاگردی میں شامل ہوکر آج اپنا مقام بنا بیٹھے ہیں۔وادیِ کوکن جسے’’ منظر خیامی‘‘ کے علاوہ بہت سے قلم کار ثانی کشمیر کہتے اور لکھتے ہیں، وہیں آبشاری، جھیلیں، ندیاں، اونچے پربت، باغ، کھلیان، بحر عرب کا کنارہ، الغرض کشمیری خوب صورتی کی کچھ کچھ ملتی جلتی مثالیں ہیں۔ ’’ جناب منظر خیامی صاحب‘‘ کی اُردو دوستی اورُ اردو خدمت کسی سے دھکی چھپی نہیں، انہوں نے زندگی بھر ناموافق حالات میں بھی اُردو کی تبلیغ جاری رکھی، مشاعرے کے رواج کو عام کیا، کئی کالج اور اسکولوں میں اپنی تقریروں سے طلبا و طالبات میں ُاردو رجحان پیدا کیا۔ پاسبان شعرو ادب کوکن، سوشیل میڈیا گروپ اپنی ایک آن بان شان رکھتا ہے، اب اس گروپ نے ایک اور قدم آگے بڑھایا، اور سوشیل میڈیا پہ ماہنامہ جاری کیا، جس کے جواں فکر ایڈیٹر، ’’جناب حبیب ندیم صاحب ‘‘ بھی اپنے استاد کے نقش قدم پہ ُاردو دوستی کی دلیلیں اپنے عملی علمی، اور قلمی کار کاج سے دے رہے ہیں، رسالہ کی کتابت بیرونی ملک مسقط عمان میں رہ کر وہاں سے کر رہے ہیں، جب کہ دن بھر ڈیوٹی کے بعد پردیش کی زندگی تھکن، پہ یہ ُاردو دیوانے اپنی نیندیں پرے رکھ کر اُردو زبان سے محبت کے ثبوت دے رہے ہیں، اسی گروپ کے روح رواں کے برادرم نما دوست، ــ’’جناب تجمل حسین زاہد صاحب‘‘ رسالہ کے نگراں ہیں، جن کی محنت مشقت بھی قابل سراہنا ہے، پاسبان شعر و ادب کوکن کی اُردو زباں ادب کی خدمت کو بھلایا نہیں جاسکتا، ہم تو یہ کہیں گے کہ بلا غرض پاسبان گروپس کے مدیران کی طرح ہر گروپس خدمت ادب میں کوشاں رہیں تو اس زبان کا مستقبل روشن نظر آئے گا، کچھ گروپس ایڈمن برائے نام ایڈمن ہیں، مشاعرہ بازی اور واہ واہ سے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں ایسے میں پاسبان شعرو ادب کوکن کے جملہ اراکین کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، کیوں کہ جب ہم نے اس مضمون کو قلم بند کرنے سے پہلے چند اراکین پاسبان گروپ سے بات کی، انہوں نے ہم سے کہاں اس بہتر ہمیں کوئی اور گروپ معیاری نہیں لگتا جب کہ ہم بہت سے گروپس میں شامل ہیں، اور یہ گروپ اتحاد، ملنساری ساری کی ایسی مثال ہے کہ گروپ نہیں یہ ایک خاندان لگتا ہے۔