یواین آئی
سری نگر؍؍وادی کشمیر میں زائد از چار ماہ سے جاری غیر یقینی صورتحال اور اضطرابی کیفیت کے بیچ منگل کے روز انسانی حقوق کے بین الاقوامی دن کے موقع پر شہر سری نگر کے پائین وبالائی علاقوں کے بازاروں میں تمام دکانیں بطور احتجاج بند رہیں تاہم سال گزشتہ کے عین برعکس امسال اس موقع پر لالچوک میں واقع پرتاب پارک مقفل نہیں کی گئی تھی۔قابل ذکر ہے کہ 10 دسمبر کو دنیا بھر میں حقوق بشر کے بین الاقونی دن کے بطور منایا جاتا ہے اور وادی کشمیر میں حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کی طرف سے اس دن کو یوم سیاہ کے بطور منانے اور اس دن ہڑتال کرنے کے بیانات اخباروں کے ذریعے مشتہر ہوتے تھے۔ امسال بھی انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر حریت کانفرنس (گ) اور حریت کانفرنس (ع) کی طرف سے اخباروں میں بیانات مشتہر ہوئے جن میں لوگوں سے اس دن کو یوم سیاہ کے بطور منانے کی اپیل کی گئی تھی۔شہر سری نگر کے پائین و بالائی علاقوں میں منگل کے روز حقوق بشر کے عالمی دن کے موقع پر بازاروں میں تمام دکانیں بطور احتجاج بند رہیں تاہم امسال لالچوک میں واقع پرتاب پارک کو مقفل نہیں کیا گیا۔پائین شہر کے نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد کے باب الداخلے منگل کے روز بھی کھلے رہے تاہم نسانی حقوق کے عالمی دن کے پیش نظر جامع کے گرد وپیش سیکورٹی حصار جو مزید سنگین کیا گیا تھا۔شہر سری نگر میں اگرچہ ایک طرف بازار دن بھر بند رہے تو دوسری طرف سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل میں دن بھر کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔عینی شاہدین نے بتایا کہ سری نگر کی سڑکوں پر چھاپڑی فروش صبح سے شام تک برابر ڈیرا زن رہے اور گلی کوچوں کے بیشتر دکانیں بھی ادھ کھلی رہیں۔بتادیں کہ سال گزشتہ انتظامیہ نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پرممکنہ احتجاجوں کی روک تھام کے پیش نظر پرتاب پارک کو مقفل کردیا تھا تاہم انسانی حقوق کارکنوں نے وادی میں مبینہ انسانی حقوق پامالیوں کے خلاف پرتاب پارک کے بالمقابل واقع پریس کالونی میں احتجاجی مظاہرہ کیا تھا اور مشترکہ مزاحمتی قیادت نے ہمہ گیر ہڑتال کی کال بھی دی تھی۔امسال وادی میں جاری نامساعد حالات کی وجہ سے انسانی حقوق کے بین الاقوانی دن کی مناسبت سے کسی بھی علاقے میں احتجاجی مظاہرے درج نہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔ تاہم سمیر نامی ایک نوجوان نے پریس کالونی میں نمودار ہوکر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ مذکورہ نوجوان جس نے اپنے ہاتھوں میں ‘بابری مسجد’ کے متعلق ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا، کو بعد ازاں پولیس نے اپنی تحویل میں لیا۔ ذرائع نے بتایا کہ وادی میں دفعہ 144 کے نفاذ کے پیش نظر منگل کے روز کسی بھی علاقے میں انسانی حقوق کے عالمی دن پر احتجاجی مظاہرہ نہیں ہوا۔سال رواں کے ماہ اکتوبر کی 15 تاریخ کو خواتین کے ایک گروپ جس میں وادی کے محبوس سیاسی لیڈروں کے قریبی اقارب کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود تھی، نے پرتاب پارک میں مرکزی حکومت کی طرف سے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلوں کے خلاف اور محبوس سیاسی لیڈروں کی رہائی کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی تاہم انتظامیہ نے احتجاجی خواتین کو گرفتار کرکے آئندہ احتجاج نہ کرنے کی شرط پر رہا کیا تھا۔ پائین شہر سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق دریش کدل صفا کدل میں گزشتہ رات آگ کی ایک پراسرار واردات میں تین دکانیں خاکستر ہوئیں اور لاکھوں روپے مالیت کے قالین اور دیگر چیزیں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئیں۔ ادھر وادی کے دیگر اضلاع و قصبہ جات میں منگل کے روز بھی جوں کی توں صورتحال ہی قائم ودائم رہی بعض علاقوں میں بازار نصف دن تک کھلے رہے تو بعض علاقوں میں بازارنصف دن کے بعد کھل گئے جبکہ کئی علاقوں کے بازاروں میں بیشتر دکانیں دن بھر کھلی رہنے کی اطلاعات ہیں۔وادی میں شدید دھند کی وجہ سے جہاں گزشتہ پانچ دنوں سے فضائی ٹریفک مسلسل معطل ہے وہیں انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات بھی گزشتہ چار ماہ سے مسلسل بند ہی ہیں۔ارباب اقتدار کی طرف سے براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کو جلدی بحال کرنے کے اعلان کے باوجود بھی فی الوقت تمام طرح کی انٹرنیٹ خدمات بحال ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔وادی کے سیاسی لیڈران، جن میں تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی شامل ہیں، مسلسل خانہ یا تھانہ نظر ہیں۔ انتظامیہ نے جہاں ایک طرف محبوس لیڈروں کی رہائی کا سلسلہ شروع کیا ہے وہیں سردی کے پیش نظر متذکرہ تین سابق وزرائے اعلیٰ کو جموں منتقل کیا جارہا ہے۔