حکومتی عدم توجہی،کلچرل اکیڈمی کے ذمہ داران کی بے بسی سے علمی وادبی حلقوں میں تشویش کی لہر
غلام قادر بیدار
سرینگر؍؍سرینگر کے دل لال چوک میں جموں وکشمیراکیڈمی آف آرٹ کلچرل اینڈلنگویجز کشمیر کی طرف سے کم وپیش 60 سال قبل اولڈکے ایم ڈی بس اڈہ کے بغل میں دانشوروں، قلمکاروں، شاعروں اور تحقیق کے طالب علموں کی دیرینہ خواہشات کے عین مطابق تاریخی نوعیت کا بہت بڑا کتب خانہ قایم کیا تھا جس کا سرکاری نام ’کتاب گھر‘ رکھا گیا جسکے لئے اردو کشمیری اور یہاں موجود تمام دوسری زبانوں پر مشتمل ہزاروں الگ الگ ناموں پر شائع کی گئی چھوٹی بڑی کتابیں اکیسویں صدی عیسوی کے آغاز تک دستیاب رہاکرتی تھیں لیکن گذشتہ دس برسوں سے کتاب گھرکی تاریخ ہی مسخ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس وجہ سے بلخصوص کشمیری زبان کے شیدائیوں اور تحقیق کے طالب علموں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ شیخ العالمؒ ریسرچ کمیٹی کے ایک عہدیدار نے کلچرل اکیڈمی میں قائم پبلیکیشن سیکشن کی مذکورہ لاپرواہی پر رائے دیتے ہوئے بتایا کہ آنجہانی بلونت ٹھاکر، محمد یوسف ٹینگ اور مرحوم عزیزحاجنی صاحب کے دور میں پرانی نئی کتاب دوبارہ چھپتی تھی خاص کر حاجنی صاحب نے قریب 30سال قبل تک شائع شدہ تصانیف دوبارہ شائع کروانے کا بیڑہ اٹھایا تھا اگر چہ درجن بھر ٹائٹل دہلی پریس سے چھپ کر آتے تھے لیکن بعد میں مرحوم کے انتقال کے سبب سلسلہ آج تک منقطع ہوگیا۔اس ضمن میں میر رشید الدین نامی ایک علمی بزرگ نے بتایا کہ شیخ عبداللہ کی کاوشوں سے جیا لال گیرو، نے لل دید، آمین کامل اور ساقی کے ذریعہ کلام شیخ العالمؒ چھپوانے کے لئے کلچرل اکادمی کے لیے چھاپ خانہ اور مشینری دہلی میں خریدار ادارے کو ہرطرح سے فعال بنایا اور سالانہ بجٹ میں سے اکیڈمی کے ہر ایک شعبے کو بھرپور مالی معاونت کی جاتی ہے جبکہ کتاب گھر کی آمدنی بھی اسی ادارے میں واپس جاتی تھی لیکن افسوس کہ باوجود لال چوک کے کتاب گھر سے صوفی شاعری تو درکنار لل موج کے کلام پہ مبنی کوئی مطبوعہ تصنیف دوبارہ شائع نہیں کی جاتی۔ شیخ العالمؒ مشن کمیٹی کے جنرل سیکرٹری لطیف رسول نے بتایا کہ نامساعد حالات کے چکر میں اکیڈمی کے بعض ذمہ داروں نے رقص و رباب کو ترجیع دینے میں رقومات صرف کیے جبکہ سیلابی نقصان کے عوض مرکزی سرکار نے محکمے کو بھرپور معاونت بھی کی تھی۔ چرارشریف سے تعلق رکھنے والے ایک معروف قلمکار اور شاعر کا کہنا ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ سرکاری امداد سے چلنے والے اس ادارے نے ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں قائم اپنے ہم عصر اداروں پر سے چھپائی کے میدان میں صف اول کی پوزیشن حاصل کی تھی لیکن گذشتہ 12 سالوں کے دوران 1980 سے شائع شدہ کتابیں ایک ایک کرکے اب شاید درپردہ ہاتھوں سے نایاب کتابوں کی فلمیں تک غائب کی گئی ہیں ورنہ سالہا سے تاریخی کتاب گھر کا شٹر روزکھول دیتے۔ اس سلسلے میںلال چوک کے اکثر کتاب فروشوں نے تسلیم کیا کہ مذکورہ کتاب گھر میں آج کل ادارے کی طرف سے پہلے سے چھپوائی گئی کوئی ایک کشمیری کتاب دستیاب نہیں ہے بلکہ بعض ادبی حلقوں نے نمائندے کو بتایا کہ اکیڈمی میں موجود خاتون پبلیکیشن افسر کو متعدد مرتبہ اس جانب توجہ دینے کی استدعا کی گئی لیکن کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔