غریب اور مفلس بچوں کا مستقبل کس کے ہاتھ میں۔ قوم کے معمار اس امتیاز کے خود ذمہ دار
وزیر تعلیم بتائیں کہ سرکاری سکولوں کے کتنے طالب علموں نے نمایاں پوزیشن حاصل کیں؟؟
اجمل ملک
رام بن //ریاست میں اس وقت تعلیم کا میعار کس قدر تباہی کے دہانے کی طرف جارہا ہے وہ مستقبل کے لئے ریاست کے آنے والی نسلوں کے لئے بھیانک نتائج ہوں گے۔ کیوں کہ اس وقت سرکاری سکولوں میں تعینات اساتذہ نے صرف اپنا فرض منصبی صرف اپنے اپنے بچوں کو اعلی ٰ پرائیویٹ اداروں میں داخلہ دلوانا اور ان کے ساتھ ایک ماہ میں 20سے 25روز گزارانا اور سرکاری سکولوں میں صرف اورصرف ایک ہفتہ اس لئے دینا تاکہ وہ اپنی موٹی موٹی تنخواہ نکال سکیں ۔اس کے بعد پھر وہ اپنے لخت جگروں کے پاس جموں یا سرینگر یا دوسرے بڑے شہروں میں جاسکے۔اس سے ہمارے محکمہ تعلیم میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کو بخوبی اندازہ لگا نا چاہئے کہ غریب اور مفلس بچوں کا مستقبل کس کے رحم و کرم پر چھوڑا جارہا ہے اور کیا وہ غریب اپنے ماں باپ کا سہارا بن سکیں گے ؟کیا وہ غریب بچے ریاست کا مستقبل بن سکیں گے ؟یہ وہ سوال ہے ان کا جواب یا تو محکمہ تعلیم کے وزیر یا محکمہ تعلیم کے اعلیٰ عہدوں پر فائزہ ہیں وہ دے سکتے ہیں۔ لیکن غریب والدین کو اب اپنے بچوں کا مستقبل کی کوئی گارنٹی نہیں دے رہا ہے ۔اگر آج کل کے اساتذہ کی مانیں تو وہ سرکاری سکولوں میں صرف پاس ہونا ہی معیار کا پیمانہ ٹھہرتا ہے اور اگر ایسا نہیں توریاست کے وزیر تعلیم بتائیں کہ سرکاری سکولوں کے کتنے طالب علموں نے نمایاں پوزیشن حاصل کیں اور اگر سرکاری سکولوں میں معیار صرف پاس ہونا ہی نہیں تو پھر سکولوں کے سربراہوں کوکیوں نہیں نوٹس جاری کئے جاتے ہیں اور سرکاری سکولوں میں تعینات اساتذہ ، زیڈی ای او ، سی ای او کو کیوں نہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے ۔ ایک جانب وزیر تعلیم اس امر سے اتفاق کرتے ہیں کہ سرکاری سکولوں بچو ں کو معیاری تعلیم دی جارہی ہے لیکن اس کا ثبوت اس بات سے لگا یا جاتا ہے کہ امتحانات میں بارہویں اور دسویں کلاس کے بچے بڑی تعداد میں کیوں پاس نہیں کر پائے ؟وہاں معیار کا دعویٰ سراسر لغو ہے جس سے احتراز اور کمزوری و مسائل کا اعتراف ہی بہتر ہوگا۔ اگر وزیر تعلیم ان طالب علموں کے سکولوں سے آگاہی کرتے تو ان کو اس امر کا اندازہ ہوتا کہ معاشی مشکلات کا شکار طبقہ بھی اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں بھیجنے سے کس قدر کتراتا ہے۔ گو یہ کہ نجی تعلیمی اداروں کی لوٹ مار بھی کم نہیں لیکن اس کے باوجود والدین کوئی اور انتخاب نہ ہونے کے باعث اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو نجی سکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔ اگر سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار بہتر ہوتا تو متوسط و نیم متوسط طبقے کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ اب جبکہ وزیر تعلیم کی جانب سے بلند بانگ دعوﺅں کی حقیقت سامنے آگئی ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی خراب کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے جہاں محولہ تعداد میں سکولوں کے سربراہوں کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے وہاں آئندہ کے لئے ایک سنجیدہ اور ٹھوس لائحہ عمل بھی مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ معاملہ نجی تعلیمی اداروں کے ترجمان کے تبصرے کے مطابق جھاگ کی طرح نہ بیٹھ جائے نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے ریاستی حکومت کو تعاون کی پیشکش کو طنز کے زمرے میں ہی شمار کیا جائے گا وگرنہ ان ٹکسال نما اداروں میں جتنی فیس لی جاتی ہے اس کے نصف کے برابر بھی طلبہ کو تعلیم نہیں دی جاتی۔ نجی تعلیمی اداروں کا سمراور ونٹر کیمپ کے نام سے کلاسوں کا انعقاد از خود اس امر پر دال ہے کہ طالب علموں کو پڑھائے جانے والے اسباق کی درست تدریس نہیں ہوسکی اور مزید فیس کی ادائیگی پراسی سکول کے وہی اساتذہ ان کو دوبارہ مشق پختہ کرائیں گے۔ ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ یہ سکول تعطیلات کی فیس لینے کے بعد سمراور ونٹر کیمپ کی الگ فیس وصول کرتے ہیں۔ اس کا نوٹس لینے والا اور کارروائی کرنے والا کوئی نہیں۔ ریاستی وزیر تعلیم جہاں سرکاری سکولوں میں احتساب و اصلاحات کے عمل پر توجہ دیں وہاں سمر کیمپ اورونٹرکیمپ کا انعقاد کرکے دوہری فیس اور ٹرانسپورٹ چارجز وصول کرنے والے سکولوں کے خلاف بھی کارروائی کریں۔ سرکاری سکولوں کے معیار کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ نجی سکولوں کے معیار کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے تاکہ صحیح صورتحال سامنے آئے اور ہر دو نوں سکولوں کے طالب علموں اور ان کے والدین کی مشکلات میں کمی آئے۔