: محمد تحسین رضا نوری شیرپور کلاں پورن پور پیلی بھیت
ہندوستان اْن خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے جس کو ابو البشر حضرت سیدنا آدم علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے، اور یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ابتدائے آفرینش سے ہی انبیاء ، صلحاء ، صوفیاء ، اولیاء ، علمائ کی آمد کا سلسلہ جاری و ساری ہے، مختلف روایات کے مطابق حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سب سے پہلے ہندوستان کی سرزمین پر ہی اْتارے گئے، اسی ملک ہندوستان کی ایک ریاست کیرلا ہے جو کہ جنوبی بھارت میں بحر عرب کے ساحل پر واقع ہے، یہ ایک ایسا علاقہ ہے جو تعلیمی اعتبار سے نمبر ایک پر ہے، تحقیق کے مطابق یہاں تقریباً ۴۹ فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ کیرلا میں مذہب و ملت کے نام پر جنگ و جدل نہیں پایا جاتا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے پہلے بھی لوگ ہندوستان بغرض تجارت آتے تھے، یہ تجار ہندوستان سے مشک، کافور، زنجبیل (سونٹھ) خاص کر کیرلا سے ناریل، لونگ، الائچی، کالی مرچ، جائے پھل وغیرہ لے کر جایا کرتے تھے، مورخین لکھتے ہیں کہ ابتداء ہی سے اسلام انہیں تاجروں کے ذریعہ ہندوستان پہنچا، مسلم تاجروں نے ہندوستان میں دین اسلام کی تشہیر و تبلیغ کی۔ اس کے بعد بہت سے مبلغین اسلام کی آمد بھی کیرلا میں ہوئی، ہندوستان کے ساحلی مقامات اور اْن کے قرب و جوار کے دیار و جزائر قدیم زمانے سے عرب تاجروں کی گزرگاہ تھے، یہی وجہ ہے کہ کیرلا کی تہذیب و ثقافت، مروجات و مراسم، اسلامی وضع قطع کے علاوہ شرعی احکامات پر عمل کرنے میں ۰۸ فیصد عربوں کا رنگ نظر آتا ہے، یہاں کے لوگ بھی معاش و معیشت، تعلیم و تعلم کے سلسلہ میں عرب کے بازاروں اور شہروں کا رخ کرتے ہیں۔بارگاہ رسالت میں ہند کے راجا کا تحفہ:
ہندوستان کے ایک راجا کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ اْس نے از راہ عقیدت و محبت حضور علیہ الصلوٰ? والسلام کی بارگاہ میں زنجبیل کا ہدیہ روانہ کیا، حضور علیہ الصلوٰ? والسلام نے اسے شرف قبولیت بخشا، خود بھی تناول فرمایا اور صحابہ میں بھی تقسیم کیا، امام عبد اللہ حاکم نے مستدرک میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ قطعۃ‘‘ ترجمہ: ہندوستان کے راجا نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں مٹی کے گھڑے میں زنجبیل کا ہدیہ بھیجا، جسے آپ نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے صحابہ کو کھلایا اور اْن میں سے ایک ٹکڑا مجھے بھی کھلایا۔ (مستدرک، ملخص: خلافت راشدہ اور ہندوستان) بعض لوگوں نے بیان کیا ہے کہ ممکن ہے کہ تحفہ میں زنجبیل بھیجنے والا بادشاہ کیرلا کا ’’چیرمان پیرومال‘‘ ہو، کیوں کہ سونٹھ کی زیادہ کاشت کاری کیرلا میں ہوتی ہے۔
معجزہ شق القمر اور کیرلا کا راجا:
مورخین لکھتے ہیں کہ: ایک رات مالابار کا راجا چیرمان پیرومال اپنی آرام گاہ میں سونے کے لیے گیا لیکن اسے نیند نہ آئی، وہ اپنی خواب گاہ سے باہر آیا تو دیکھا کہ چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے ہیں، یہ دیکھ کر راجا سخت متحیر ہوا۔ صبح کو اس نے کاہنوں اور نجومیوں سے اپنے اس عینی مشاہدے کا مطلب دریافت کیا، لیکن کوئی بھی تشفی بخش جواب نہ دے سکا، اسی درمیان عرب کے تاجروں کا ایک وفد کوڈنگلور آ پہنچا۔ اْن عربی تاجروں کو راجا کے دربار میں لایا گیا، اور راجا نے اْن مسافران عرب سے اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔ عربی قافلہ کے سردار نے اسے بتایا کہ ’’انشقاق قمر‘‘ کا واقعہ ایک معجزہ ہے، جو ملک عرب میں جلوہ گر ہونے والے نبی ’’محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے ذریعہ ظاہر ہوا ہے، جب راجا نے عرب تاجروں سے شق القمر کا وقت اور دن دریافت کیا تو یہ وقت اور دن وہی تھا جس وقت راجہ نے چاند کو دو ٹکڑے ہوئے دیکھا تھا، اس واقعہ کی تحقیق کے بعد راجا کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا، اور راجا مکہ مکرمہ حاضر ہوا اور حضور علیہ الصلوٰ? والسلام کے دست مبارک پر ایمان لے آیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس راجا کا نام اسلام لانے کے بعد ’’عبد الرحمن سامری‘‘ رکھا گیا، اور بعض مؤرخین نے ’’تاج الدین ہندی‘‘ ذکر کیا ہے، روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ ’’چیرمان پیرومال (Cheraman Perumal)‘‘ تقریباً ۷۱ دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے شرفیاب ہوئے۔ (ملخص: تاریخ کیرلا)
کیرلا میں صحابہ و تابعین کی آمد:
سرزمین کیرلا میں کئی صحابہ کرام کی مزاریں موجود ہیں، جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کیرلا میں صحابہ کرام کی آمد بھی ہوئی ہے، سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید مفتی مذاہب اربعہ حضرت علامہ شیخ ابو السعادات احمد کویاشالیاتی شافعی ملیباری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عہد عثمانی میں کالی کٹ (Calicut) تشریف لائے تھے، اور اْنہیں کے نام پر ’’مسجد مغدار‘‘ (Mugdar) بنی ہوئی ہے، جس کا اصل نام ’’مغیر دار‘‘ تھا۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ: راجا چیرمان پیرومال (جن کا نام ایمان لانے کے بعد عبد الرحمن سامری رکھ دیا گیا تھا) جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت سے مشرف ہو کر واپس ہوئے، تو واپسی کے وقت ’’حضرت شرف بن مالک، حضرت مالک بن دینار، حضرت حبیب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین‘‘ بھی راجا کے ساتھ دین اسلام کی تشہیر و تبلیغ اور مساجد کی تعمیر کے لیے روانہ ہوئے، راستے میں راجا سامری سخت بیمار پڑ گئے، اْنہونے نے اپنے شرکاء سے کہا، کہ میری موت کے بعد بھی یہ سفر جاری رکھنا، کیرلا جانے کا ارادہ ترک مت کرنا۔ تو شرکاء نے کہا کہ نہ تو ہم آپ کے ملک کے بارے میں کچھ جانتے ہیں اور نہ ہی آپکی سلطنت کی حدیں معلوم ہیں۔ تو راجا سامری نے اپنے حکام کے نام ایک خط لکھا اور ان حضرات کے حوالے کر دیا، اتفاق سے راجا سامری اپنے مرض سے شفایاب نہ ہو سکے اور موضع ’’شحر‘‘ میں اْن کی وفات ہو گئی، اور وہ وہیں مقام ’’شحر‘‘ (یمن) میں دفن ہوئے، بعض روایتوں کے مطابق راجا سامری کا مقبرہ مقام ’’ظفار‘‘ میں بتایا جاتا ہے۔ راجا سامری کے انتقال کے چند سال کے بعد یہ حضرات کشتی میں سوار ہو کر کیرلا کے لیے روانہ ہوئے، صاحب رحل الملوک لکھتے ہیں کہ یہ جو قافلہ روانہ ہوا تھا اس میں ’’حضرت شرف بن مالک، حضرت مالک بن دینار، حضرت مالک بن حبیب، قمریہ اور اْن کی اولاد حسن عبد الرحمن، ابراہیم موسیٰ صدر الدین، فاطمہ، عائشہ، زببہ، حلیتہ، اور محمد بن مالک کے لڑکے حسین، عمر، اور زین الدین جیسے بزرگ اور اْن کے جملہ اقربائ ، اور حفاظ اکرام جیسے جلیل القدر لوگ موجود تھے۔ مبلغین اسلام کا یہ نورانی قافلہ کوڈنگلور (Kodangallur) پہنچا، اور وہاں کے موجودہ حاکم کو راجا کا خط دیا، خط میں لکھی وصیت کے مطابق حاکم نے ان حضرات کو زمین اور باغات عطا کیے۔ مبلغین اسلام نے سب سے پہلے کوڈنگلور میں ایک مسجد بنائی، مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہ کیرلا کی سب سے پہلی مسجد ہے، حضرت محمد بن مالک کو یہاں کا قاضی مقرر کر دیا گیا، حضرت مالک بن دینار نے یہیں اقامت اختیار کر لی، اور اپنے بھتیجے حضرت مالک بن حبیب رضی اللہ عنہ کو جنوبی کیرلا کی طرف مذہب اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور تعمیر مسجد کے لیے روانہ کیا۔
حضرت حبیب بن مالک کو راجا سامری کا خط دے دیا گیا، تاکہ لوگ جب اپنے راجا کا خط دیکھیں تو جلد اسلام کی دعوت قبول کر لیں، حضرت مالک بن حبیب سب سے پہلے کولم (Kollam) گئے، تبلیغ اسلام کے بعد وہاں ایک مسجد تعمیر کروائی، اپنے بیٹے حضرت حسن بن مالک کو وہاں کا قاضی مقرر کیا، اس کے بعد حضرت حبیب بن مالک نے کیرلا میں کئی جگہ کا سفر کیا، اور تبلیغ کے ساتھ ساتھ مساجد کی تعمیر بھی کرتے رہے، آخر میں آپ کاسرکوڈ تشریف لائے، اور یہاں بھی آپنے ایک مسجد تعمیر فرمائی۔ جب حضرت مالک بن دینار نے حضرت حبیب بن مالک کی کامیابیوں کی خبر سنی، تو انہیں ان مساجد کو دیکھنے کا شوق پیدا ہوا، اور آپ ان تمام مساجد کو دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے اور ہر مسجد میں آپنے نماز ادا فرمائی، اور مذہب اسلام کی نشر و اشاعت دیکھ کر خوشی کا اظہار فرمایا۔
حضرت مالک بن دینار کاسرکوڈ میں:
حضرت مالک بن دینار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بعض روایتوں میں یہ ملتا ہے کہ آپ کا وصال بصرہ میں ہوا اور وہیں آپ مدفون ہوئے، لیکن اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ خراسان سے سمندری راستے سے آپ کاسرکوڈ تشریف لائے اور وہیں آپ کی وفات ہوئی، کاسرکوڈ میں ساحل سمندر پر آپ کا مقبرہ مرجع عوام و خواص ہے، حضرت مالک بن دینار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مزار شریف سے متصل لکڑیوں سے بنی ہوئی ایک خوبصورت قدیم مسجد بھی ہے، جس کا نام ’’مسجد مالک بن دینار‘‘ ہے، اْس کے ستون اور چھت لکڑیوں کی ہے، مسجد کے ارد گرد ساحل سمندر ہے، الحمد للہ ناچیز بھی مورخہ ۸۱ ربیع الاول ۵۴۴۱ھ مطابق ۴ اکتوبر ۳۲۰۲ء بروز بدھ کو اپنے ہم سبق رفقائ(مولانا کاشف صاحب، مولانا ارسلان صاحب، مولانا ریحان صاحب، مولانا حکیم الحق مصباحی صاحب) کے ہمراہ حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ اس مبارک مقام پر بے حد قلبی سکون محسوس ہوتا ہے، دوران حاضری مزار شریف کے پاس موجود چند کتابوں پر میری نظر پڑی، دیکھا تو ایک کتاب بنام ’’مالک بن دینار اور کاسرکوڈ کی قدیم مسجد‘‘ کو پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور میں نے اس کتاب کو خرید لیا، مطالعہ کرنے پر پتہ چلا کہ کاسرکوڈ میں موجود مقبرہ حضرت مالک بن دینار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کا ہے، اس کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ ’’ٹی کے ایم باوا مسلیار لکھتے ہیں کہ یہ بات تاریخ میں روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حضرت مالک بن دینار رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت دنوں یہاں ٹھہرنے کے بعد خراسان چلے گئے تھے، اور تحف المجاہدین میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ کا وصال بھی خراسان ہی میں ہوا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ خراسان سے واپس آ گئے تھے اگرچہ یہ بات زیادہ مشہور نہ ہو سکی، اس لیے یہ مزار مالک بن دینار ہی کا ہے تاریخ میں اس کے متعلق کسی کا اختلاف نہیں ہے، مشہور مؤرخ سہروردی اپنی کتاب ’’رحل الملوک‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت مالک بن دینار کاسرکوڈ میں وفات پائے تھے۔ (مالک بن دینار اور کاسرکوڈ کی قدیم مسجد، صفحہ ۲۷، ۳۷)
اس کے علاوہ کیرلا میں بہت سی قدیم مزارات، اور مقدس مقامات موجود ہیں، یہ تمام حضرات صرف مذہب اسلام کی تبلیغ و تشہیر کے لیے ہند تشریف لائے تھے، پھر یہیں مقیم ہوئے اور یہیں وصال فرمایا، زندگی میں کبھی قسمت ساتھ دے تو کیرلا ضرور تشریف لائیں، یہاں کے ماحول سے لطف اندوز ہوں اور بزرگوں کی مزاروں پر حاضر ہو کر اپنے لیے اور جملہ مسلمانان عالم کی حفاظت کی دعا کیجیے، اللہ تبارک وتعالیٰ اِن جملہ مقدس مقامات کو سلامت رکھے، اور ہم سب کو بزرگان دین، سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین َ