سید نیاز شاہ بخاری
9797440653
اسلام کا درس اور دین حق پر چلنے اور قائم و دائم رہنے کا درس دراصل ولی کامل سے ہی حاصل ہوتا ہے اللہ کا ولی جب بولتا ہے تو اللہ کی ثنا اور حمد بولتا ہے ان کی زبان میں وہ تاثیر ہوتی ہے کہ جو کچھ فرماتے ہیں لوگ اپنے قلوب و ذہن میں نقش کر لیتے ہیں اور ہمیشہ اس پر عمل پیرا رہنے کے وعدہ بند ہوتے ہیں مکتب و مدارس کے دور دورہ سے قبل اسلام کی اشاعت کے لیے اللہ کے ولیوں نے اہم کردار ادا کیا ان کی زبان میں وہ تاثیر ہوتی تھی کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان سے جڑ جاتے تھے جموں کشمیر کو اولیاء کا مسکن کہا جاتا ہے کوئی بھی خطہ کوئی پہاڑ ولیوں کے مزار سے خالی نظر نہیں اتا ہر بلند پہاڑ سے اللہ کے ولی اپنی زندگی میں اور پردہ فرمانے کے بعد بھی لوگوں کی رہنمائی فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں ہندوستانی عوام کی بے پناہ عقیدت حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ سے دیکھتے ہوئے ایک انگریز لارڈ کرزن نے اس وقت حکومت برطانیہ کو اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ہندوستان پر 800 سال سے ایک قبر حکومت کر رہی ہے اور اس حکومت کے خاتمے کے کوئی اثار نہیں یہ وہ حکومت ہے جس کا سلسلہ قیامت کے دن سے جڑا ہوا ہے جس روز زمین پر حشر بپا ہوگا اس روز یہ حکومت ختم ہو جائے گی جموں کشمیر میں تعلیمات صوفیا ایک نمایاں مقام رکھتی ہے عوام الناس جموں کشمیر اولیاء عظام بزرگان دین صوفیائ کرام سادات کرام کی بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے ان سے بڑی محبت و عقیدت رکھتی ہے۔خطہ پیر پنچال میں اولیاء کرام کی ایک کثیر عداد اپنے اپنے دور میں ائی اور یہاں پر عوام کی رہنمائی فرمائی اللہ کی بندگی جنگلوں میں پہاڑوں پر برفیلے علاقوں میں ٹھنڈے دریاؤں میں تپتی ریت میں کی اور اگر کسی کو مٹی بھی دے دی تو جس نے عقیدت سے کھائی اسے شفا ہو گئی اس کے بعد یہ اپنا سفر زندگی مکمل کرنے پر پردہ فرما گئے انہی اولیاء اللہ کی جماعت میں سائیں بابا میراں بخش رحمت اللہ تعالی علیہ کا نام بھی قابل ذکر ہے سائیں میرا بخش رحمت اللہ علیہ کی پیدائش ریاست پونچھ کے ایک گاؤں ناگا ناڑی میں ہوئی۔ یہ علاقہ بٹوارے کے دوران پاکستان کے زیر انتظام میں چلا گیا جہاں پونچھ کی تقسیم جغرافیائی طور پر بھی ہو گئی اور اپنوں سے اپنے بھی علیحدہ ہو گئے اسی دوران سائیں بابا رحمت اللہ تعالی علیہ سرحد عبور کر کے اپنے آبائی وطن کو الوداع کہہ کر ہندوستان میں تشریف لے ائے اور کئی نشیب و فراز سے گزر کر بل آخر یہاں کے رہائشی بن گئے اور اپنی پوری عمر یہاں پر گزاری۔ سائیں صاحب نے اپنی زندگی میں شادی نہیں کی اور اپ کی کوئی بھی اولاد نہیں ہے اپ کا احترام ہر شخص کے دل میں تھا سیول انتظامیہ میں اعلی افسران ہمیشہ اپ سے عقیدت رکھتے تھے انڈئین آرمی اپ کو بہت مقامات پر اپ کی کرامتیں دیکھنے کے بعد بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھا کرتی تھی پولیس اور جوڈیشری میں بھی اپ کا بہت زیادہ چرچا ہوا کرتا تھا اپ کا پولیس محکمہ سے لگاؤ بھی تھا بہت سے افسران اپ کے پاس اپنی مشکلات لے کر حاضر ہوتے تھے اور اپنی مشکلات حل کرواتے تھے چونکہ سائیں صاحب رحمت اللہ تعالی علیہ کی پیدائش پاکستان میں ہوئی تھی اور بعد میں یہ ہندوستان میں ائے اس مناسبت سے ہندوستان اور پاکستان میں اپ کے چرچے عام تھے اپ نے 55 یا 60 سالہ زندگی موجودہ پاکستان کے علاقے میں بسر کی اور اخری 30 سال ہندوستان کے علاقہ پونچھ میں بسر کئے اپ کی بے شمار کرامات موجود ہیں جن میں ایک کرامت مقامی لوگوں کے مطابق یہ بتائی جاتی ہے کہ جب سن 71 میں ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ چل رہی تھی تو اس وقت بابا صاحب نے سب لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے کے لیے کہا مزید فرمایا کہ جو گھر سے باہر نکلے گا اس کا میں ذمہ دار نہیں ہوں بعد میں لوگوں نے دیکھا کہ بابا جی کے ہاتھ کالے ہوئے تھے کسی نے دریافت کیا تو اپ نے فرمایا کہ میں گولے اٹھا اٹھا کر پھینک رہا تھا جس کی وجہ سے اپ لوگ زندہ بچ گئے بابا جی نے پونچھ کی عوام کی بہت مدد کی اپ نے بیماروں کو اپنے دربار سے شفا حاصل کروائی بے شمار نوجوانوں کو اپ نے الگ الگ محکمہ میں نوکریاں کرنے کے لیے اشارہ کر دیا بہت سے لوگوں کو تعلیم میں کامیابی کے لیے اپ نے اللہ سے دعائیں فرمائیں بہت لوگوں کو نماز روزہ اور اللہ کا ذکر کرنے کے لیے حکم فرمایا تھاتاریخ شاید ہے کہ کشمیر میں ایک کثیر تعداد بزرگان دین اور اولیاء کاملین کی موجود ہے کشمیر کے انہی اولیاء عظام میں حضرت بابا میراں بخش رحمت اللہ تعالی علیہ بیسویں صدی کے ولی کامل گزرے ہیں جہاں لاکھوں عقیدت مند انہیں اپنا مرشد مانتے ہیں لاکھوں ان کے فیوض و برکات سے مالا مال ہوئے ہیں جو فیض اج بھی اللہ تعالی کی کرم نوازی سے جاری ہے اور ائندہ بھی رہے گا حضرت بابا صاحب کو وصال فرمائے ہوئے تقریبا 39 سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن اج بھی ان کے عقیدت مندوں میں کمی نظر نہیں ارہی اج بھی جو مجبور بے بس اس درگاہ پر حاضری دینے کے لیے پہنچتا ہے اللہ اپنے اس ولی کامل کے صدقے ان کی مرادیں پوری فرماتا ہے اور ان کے بگڑے ہوئے کام بن جاتے ہیں جن کی سینکڑوں مثالیں اج لوگ بیان کر رہے ہیں بابا صاحب رحمت اللہ علیہ کی بے شمار کرامات ہیں جن میں سے ایک حضرت سائیں یعقوب رحمت اللہ تعالی علیہ المعروف سائیں لیلاں والے سے منسوب ہے کہتے ہیں کہ لیلاں والے سائیں صاحب صدر دین نمبردار کے گھر پہ ٹھہرے ہوئے تھے اور وہاں ایک رات جب بابا جی سے ان کی ملاقات ہوئی تو سائیں صاحب نے فرمایا کہ کیا اپ کو کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے جواب نہ میں دیا اپ نے ایک گٹ بنا کر لیلاں والے سائیں کو دیا تو دوسرے ہی سال اپ کے گھر اوڑی میں انہیں ایک بیٹا پیدا ہوا جن کا نام سائیں علی اکبر رکھا گیا اج یہ سائیں علی اکبر صاحب پونچھ میں شادی فرمانے کے بعد یہاں پر ہی رہائش پذیر ہیں اللہ کے ولی کی کرامت بابا صاحب نے سائیں لیلاں والوں کے لیے اللہ سے بیٹے کی دعا کی اور انہیں 86 یا87 سال کی عمر میں اللہ نے بیٹا دیا۔ اس کے اٹھ سال بعد 95 سال کی عمر میں سائیں لیلاں والوں کا وصال 1974 عیسوی میں ہوا سائیں بابا میراں بخش رحمت اللہ علیہ کے پیر و مرشد حضرت رمضان صاحب رحمت اللہ علیہ ہیں۔ تحصیل سرنکوٹ کے سید غلام احمد شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ 1969 میں حج بیت اللہ کے لیے گیا تو میں نے دیکھا کہ ہمارے سامنے حضرت صاحب بابا میرا بخش رحمت اللہ تعالی علیہ بھی طواف کر رہے تھے ہم اگے بڑھے اور بابا صاحب کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نکل چکے تھے اس کے بعد واپسی پر انہوں نے یہ قصہ یہاں کے لوگوں کو سنایا جبکہ سائیں صاحب ادھر بھی موجود رہتے تھے اللہ کے ولی کی کیا شان ہے ان کی نمازیں کہاں ادا ہوتی ہیں ہمارے بس میں یہ دیکھنا کہاں ہے ان کی عبادتوں کو اللہ جانے اور یہ ولی ہی جانے کس وقت کہاں ہوتے ہیں اور کہاں نہیں ہوتے سائیں حمید صاحب جو بابا جی کے چیلے ہیں اس وقت باحیات ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ یہاں پر مائی اکی نامی ایک بڑھیا رہتی تھی جن کا بیٹا محمد نظیر گم ہو گیا تھا جو پاکستان میں چلا گیا تھا اور مائی صاحبہ کئی مرتبہ بابا صاحب کے پاس ائی کہ دعا کیجئے کہ میرا بیٹا واپس لوٹ ائے لیکن وہ واپس نہیں ا رہا تھا تنگ آ کر ایک دن یہ مائی راستے میں پتھر لے کر بیٹھ گئی اور یہ سوچ رہی تھی کہ میں سائیں صاحب کو مار دوں گی دور سے سائیں صاحب نے دیکھا تو سائیں حمید کو بھیجا اور کہا کہ اس مائی کو کہہ دو کہ سات دن کے اندر اس کا بیٹا واپس ا جائے گا یہ سن کر مائی صاحبہ خوش ہو گئیں اور راستہ چھوڑ دیا۔ ٹھیک سات دن کے بعد ہی یہ بیٹا واپس اپنے گھر پہنچ گیا جس پر مائی صاحبہ بڑی خوش ہوئیں اور بابا صاحب کا شکریہ ادا کیا سائیں بابا میرا بخش رحمت اللہ تعالی علیہ نے اپنا گدی نشین حضرت علامہ درویش غلام قادر رحمت اللہ تعالی علیہ کو مقرر کیا جو ایک بہت بڑے مفکر عالم دین تھے اپ نے اس زمانے میں اپنے اپ کو تعلیم کے زیور سے اراستہ کرنے کا فیصلہ لیا جب کہیں بھی علم سیکھنے یا سکھانے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اس زمانے میں اولیاء کرام ہی دین کی تبلیغ و اشاعت کا فریضہ سر انجام دیتے تھے درویش غلام قادر رحمت اللہ تعالی علیہ کی بابا جی سے عقیدت اس قدر تھی کہ کبھی سیدھے کھڑے ہو کر بابا صاحب کے دربار میں نہیں گئے ہمیشہ جھک کر ہی ان کے پاس جایا کرتے تھے بہت عزت اور احترام کے ساتھ ان کے حضور حاضری دیا کرتے تھے جسے چشم دید بزرگ اج یہاں بیان کر رہے ہیں درویش صاحب ایک بڑے حکیم مانے جاتے تھے۔ حضرت بابا میراں بخش رحمت اللہ علیہ کی کل عمر شریف 90 سال کے قریب ہوئی تمام عمر اپ سے لوگ فیضیاب ہوتے رہے اپ جس کو جتنا زیادہ فیض دینا چاہتے تھے اسے اتنا ہی زیادہ مارتے تھے اپ کے دربار سے ہر کوئی فیضیاب ہوا اج بھی بغیر ذات پات، مذہب و ملت فیوز و برکات جاری و ساری ہے اپ نے پردہ فرمانے سے چند ایام قبل اپنا تمام کاروبار اپنے خلیفہ حضرت علامہ درویش غلام قادر رحمت اللہ تعالی علیہ کے سپرد کر چکے تھے پونچھ شہر سے سیول اور پولیس انتظامیہ کے افسران کو موقع پر بلایا اور ان کے سامنے اپ نے اپنا تمام انتظام حضرت درویش صاحب کے سپرد کرنے کا حکم صادر فرماتے ہوئے بیان قلم بند کروا دیا تھا یہ تحریری طور پر کسی ولی کی طرف سے شاید پہلی بار ہوا ہوگا کہ ایسا فیصلہ لینا جس سے کوئی متنازعہ بات ان کے پردہ فرمانے کے بعد سامنے نہ ائے جس سے عوام میں انتشار اور دینی ملی و فلاحی کاموں میں رکاوٹ بن سکے جس دن اپ لاکھوں مریدوں کو روتے غم دیدہ چھوڑ کر اس دنیا سے ظاہری طور پردہ فرما گئے یہ ساون کا مہینہ تھا بہت زیادہ بارش اس دن ہو رہی تھی اپ کا اس دنیا سے پردہ فرمانے کا وقت قریب اگیا بہت لوگ اپ کے پاس تھے اخری وقت میں اپ کے پاس جو سرمایہ حیات تھا اس میں ایک کچا مٹی کا کمرہ اپنے کْرتے جو آپ سونے کے وقت زمین پر پڑی گھاس پر بچھاتے تھے تمام عمر زمین پر ہی سوتے رہے کبھی چارپائی یا پلنگ کا استعمال نہیں کیا مزید چند اگ جلانے والی جھاڑیاں اپ کا سرمایہ حیات تھا جب حضرت غلام قادر رحمت اللہ علیہ نے اپ سے اپ کے اخری مقام کے متعلق دریافت کیا تو اپ زمین پر لیٹے ہوئے تھے اپ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا اور فرمایا اس جگہ مناں دفن کریو جس جگہ اپ کا اگ جلانے والا چولہا تھا۔ اپ نے اخری وقت میں فرمایا حمید باہر دیکھو کتنے لوگ ہیں موجود لوگوں نے کہا حضرت بہت دنیا ہے اپ نے فرمایا اچھا اب لوگوں کو کہو کہ پانی پیو اس میں شفا ہے اب ہم نہیں اٹھ سکتے وہ پانی اج بھی چل رہا ہے تقریبا دن کے 10/ 11 بجے اپ کا وصال ہوا اور اپ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے آپ کا وصال 26 اگست 1984 عیسوی کو گونتریاں میں ہوا پورے اطمینان کے ساتھ اپ رحمت اللہ علیہ نے حوالدار عبدالرشید شیخ کو بلوایا اور فرمایا کہ سرحد کے اس پار سے ایک بڑی تعداد میرے جسد خاکی کو لے جانے کے لیے ائے گی اپ ایس پی کو بولو کہ وہ یہاں نفری بیجھے ایسا ہی کیا گیا۔بقول عبدالرشید حوالدار بہت اجنبی لوگ بھی نماز جنازہ میں شامل ہوئے تھے لیکن کسی نے بھی کسی قسم کا انتشار نہیں پھیلایا اپ کے وصال کی خبر نے اہلیان پونچھ اور سرحد کے ار پار لوگوں کو اشکبار کر دیا باوجود بارش کے لوگوں کی قطاریں لگ گئیں یہ قطاریں سرحد کے اس پار بھی دیکھی گئی اپ سے اخری ملاقات کرنے اور زیارت کے لیے عوامی ہجوم برامد ہو گیا البتہ کسی کسی کو اپ کے پاس پہنچنا نصیب ہوا ادھر پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد سرحد کے پاس پہنچ گئی ان کی مانگ تھی کہ اپ کو واپس اپنے وطن میں لے جایا جائے اور اپنے ابائی گاؤں میں ہی دفنایا جائے لیکن پونچھ انتظامیہ نے حالات کو قابو میں رکھتے ہوئے جہاں جہاں پر لوگ تھے وہاں ہی انہیں اطلاع دی کہ نزدیک انے کی کوئی کوشش نہ کرے جس جگہ ہے وہاں ہی نماز جنازہ کی نیت سے کھڑے ہو جائیں جہاں بھی لوگ کھڑے تھے وہاں سے ہی انہوں نے نماز جنازہ ادا کی اپ کی نماز جنازہ جناب حضرت سید حاجی حسام الدین رحم? اللہ علیہ نے گدی نشین حضرت درویش غلام قادر رحمت اللہ علیہ کی اجازت کے ساتھ ادا کروائی اس کے بعد اپ کے مزار کے لیے وہی جگہ کھودی گئی جہاں اپ اگ جلایا کرتے تھے اس چولہے کو جب کھودا گیا لوگوں نے اس کی مٹی کو بطور تبرک اٹھا لیا ایک چٹکی برابر اس کی خاک وہاں دکھائی نہیں دی اس کے بعد اپ کے جسد مبارک کو سپرد خاک کر دیا گیا وہاں اج شہر دکھائی دے رہا ہے اج بالکل ہند و پاک کی سرحد کے عین اوپر حد متارکہ سے قریب ایک میل کی مسافت کا فاصلہ ہے جہاں اپ کا مزار نور برسا رہا ہے۔ سنگ مرمر کا یہ چمکتا ہوا مزار شہر سے بھی دکھائی دیتا ہے یہ پونچھ کے بلند پہاڑ پر قائم مقام ہے ہزاروں عقیدت مند روزانہ تشریف لاتے ہیں اور اللہ کے ولی کے دربار پر دعائیں مانگتے ہیں اپ کے پردہ فرمانے کے بعد اپ کے خلیفہ درویش صاحب نے پونچھ میں سب سے پہلے اہل سنت کے مدرسے کا سنگ بنیاد رکھا اس مدرسہ کی سنگ بنیاد اپ نے اپنے وصال سے چند ماہ قبل 1999ء میں ہی رکھی تھی۔جس مدرسہ کی عمر آج 24 سال ہو گئی ہے اس کی پوری تعمیر و اخراجات سائیں بابا میراں بخش کی درگاہ سے ہو رہی ہے زیارت شریف کی تعمیر اور زیارت پر کثیر تعداد میں تعمیراتی کام سبھی حضرت درویش غلام قادر رحمتہ اللہ علیہ نے ہی اپنے دست مبارک اور اپنی مکمل نگرانی میں کروائے تھے درویش صاحب نے اپنی موجودگی میں ہی سائیں بابا میراں بخش درویش غلام قادر ٹرسٹ بنا دیا تھا اس ٹرسٹ کے زیر اہتمام دینی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ضلع میں بہت سے تعلیمی ادارے چل رہے ہیں کثیر تعداد میں مدارس اور مکاتب کی امداد بھی ہو رہی ہے اس وقت ٹرسٹ کے زیر اہتمام تقریبا سات تعلیمی ادارے چل رہے ہیں جن کا مکمل خرچ ٹرسٹ ہی اٹھا رہا ہے جن کے متعلق چیئرمین ٹرسٹ ایس ایس پی ویجیلنس محمد رشید بٹ نے کہا کہ ان ادارہ جات کے تمام اخراجات ٹرسٹ اٹھا رہا ہے اور وہیں کئی دیگر کاموں میں بھی ٹرسٹ کی جانب سے امداد کی جا رہی ہے جس میں بیمار غریب ناتواں بے سہارا غریب بچیوں کی شادی کے لیے امداد کی جاتی ہے سب سے مہلک بیماری کینسر میں مبتلا مریضوں کو بھی درگاہ کے ٹرسٹ سے علاج کے لیے پیسہ دیا جاتا ہے جو ایک عظیم کام ٹرسٹ سر انجام دے رہا ہے غریب بچوں کی اعلی تعلیم کے لیے بھی ٹرسٹ طلبہ کو امداد فراہم کرتا ہے یہ ٹرسٹ بنیادی سہولیات سے محروم مجبور بے بس و بے کس عوام کی مدد کرتا ہے اس ٹرسٹ کی منفرد بات یہ ہے کہ یہاں جو بھی کام ہوتا ہے وہ صاف و شفاف طریقے سے عیاں ہے ایک روپیہ بھی کسی کی ذاتی مرضی کے ساتھ خرچ نہیں کیا جاتا بلکہ یہاں پورے ٹرسٹ کے ذمہ داران کی موجودگی اور رضامندی کے ساتھ کسی بھی ضرورت مند کی مدد بذریعہ چیک کی جاتی ہے2014عیسوی میں ٹرسٹ کی سربراہی کے لیے محمد رشید بھٹ صاحب کو بطورچئرمین ٹرسٹ تمام ممبران نے با اتفاق رائے منتخب کیا محمد رشید بھٹ بڑی خوش اسلوبی سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں یہ اس وقت ایس ایس پی ویجیلنس کے عہدہ پر فائض ہیں زیارت شریف کی تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ پونچھ میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ایک وسیع منصوبے کو عملی جامع پہنایا جا رہا ہے بچوں کی بنیادی تعلیم کو معیاری بنانے کے لیے انہوں نے اسکول کا قیام عمل میں لانے کے لیے جگہ بھی خریدی ہے جلد اس جگہ پر ایک عظیم الشان اور تمام جدید سہولیات سے لیس اسکول کا قیام عمل میں لایا جائے گا انہوں نے مزید بتایا کہ ٹرسٹ کی جانب سے بانڈی چیچیاں میں درویش صاحب کا مقبرہ اور عالی شان مسجد شریف کا قیام بھی کیا گیا ہے سائیں بابا میراں بخش رحمت اللہ تعالی علیہ سے محمد رشید بٹ صاحب بڑی عقیدت رکھتے ہیں اور درویش صاحب کے پاس اپ اکثر جایا کرتے تھے درویش صاحب بھی اپ سے بہت محبت کرتے تھے اس ٹرسٹ کے سب سے پہلے ایڈمنسٹریٹر محمد امین مرزا منتخب ہوئے اپ اپنے طالب علمی کے زمانے سے ہی بابا صاحب رحمت اللہ تعالی علیہ سے ملاقات کر چکے تھے اور ان کے ساتھ رہا کرتے تھے 1976 میں جب آپ کالج میں زیر تعلیم تھے اس وقت سائیں بابا سے ملاقات کے لیے گئے اپ کو سامنے دیوار بنانے والے لوگوں کی دیکھ ریکھ کرنے کے لیے حکم فرمایا یہی اشارہ اج بھی انہیں پوری درگاہ کی دیکھ دیکھ میں تبدیل ہو چکا ہے سائیں بابا میراں بخش حضرت درویش غلام قادر ٹرسٹ کی 14 رکنی کمیٹی کے متعلق اگر بات کی جائے تو اس میں جناب شاہ محمد تانتر سابق ایم ایل اے ،جناب چوہری عبدالغنی صاحب ممبر ضلع ترقیاتی کونسل ،جناب پیر نثار حسین شاہ صاحب ڈینگلا والے ، جناب الطاف شاہ صاحب ریٹائرڈ ایس پی جناب محمد رفیق چشتی ایڈمنسٹریٹر اوقاف اسلامیہ پونچھ ، جناب فاروق حسین مصباحی صاحب امام و خطیب مرکزی جامع مسجد جناب حاجی عبدالعزیز صاحب ٹھیکیدار ، جناب محمد بشیر صاحب شاہپور ، حاجی جاوید میر صاحب ،جناب محمد افضل صاحب اے ای ،جناب امتیاز احمد میر صاحب ، جناب نیاز ملک صاحب، جناب تاج میر صاحب اور جناب ہارون راٹھور صاحب شامل ہیں اور حال ہی میں سابق وائس چانسلر ڈاکٹر شہزاد احمد ملک کو بھی اس ٹرسٹ کے ممبر کے بطور نامزد کیا گیا ہے جو ادارہ کے تمام تعلیمی نظام کے ایڈمنسٹریٹر ہیں ہر سال سائیں بابا میراں بخش رحمت اللہ علیہ کے سالانہ عرس شریف کے موقع پر ٹرسٹ کی جانب سے زیارت شریف کا سالانہ بجٹ عام عوام میں پیش کیا جاتا ہے جو اس سال کچھ اس طرح سے ہے یکم اپریل 2023 سے 31 مارچ 2024 تک اس زیارت پر کل تین کروڑ 19 لاکھ28 ہزار 684 روپے کی امدنی ہوئی جبکہ پچھلے سال کا یہاں پر 93 لاکھ 42ہزار 631 روپے بچا تھا اس طرح سے 31 مارچ 2024 تک یہاں پر کل امدنی 4 کروڑ 12 لاکھ71 ہزار 316 روپے ہوئی جس میں سے ملازمین کی تنخواہ، لنگر شریف کا خرچہ ، تعمیراتی اخراجات اور رلیف کے طور پر 4 کروڑ 9 لاکھ 87ہزار 911 روپے خرچ کئے گے 31 مارچ 2024 ٹرسٹ کے بنک اکاونٹ میں 2لاکھ 83 ہزار 405 روپے بقایا تھے جبکہ آمدنی کا سلسلہ بطور نزر و نیاز لگاتار جاری ہییہاں یہ بات کابلِ زکر ہے کہ اس ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام کئی فلاحی ، ملی و اصلاحی کام کئے جا رہے ہیں جن میں سے چند کا زکر اوپر کیا جا چکا ہے کئی مساجد ،مکاتب و دیگر تعلیمی اداروں کی معاونت سے ساتھ ساتھ ٹرسٹ نے اپنی امدنی کا ایک بڑا حصہ غرباء ،فقراء و مساکین کو بطور رلیف دیا ہے جسکی ہر کوئی سرہانہ کرتا ہے۔ سائیں بابا میراں بخش کا تزکرہ حیات اور ٹرسٹ کی کارکردگی کو مکمل تحریر کرنا کسی ایک قسط میں ممکن نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری
٭٭٭