’سائیلنٹ ویلج‘ بنیادی سہولیات سے محروم معذورں کی ایک بستی

0
0
ہریش کمار
ڈوڈا، جموں
ہندوستان کا کوئی گاؤں ہو یا شہر، کہیں نہ کہیں مرد اور عورت معذور نظر آتے ہیں۔ لیکن ملک میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے، جہاں عورتیں اور مرد نسل در نسل کسی نہ کسی شکل میں معذوری کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بستی جموں و کشمیر کے جموں ڈویژن سے 260 کلومیٹر شمال میں ڈوڈا ضلع کا دھڑکئی گاؤں ہے۔ جہاں ہر گھر میں ایک یا دوسرا رکن بولنے یا سننے سے قاصر ہے۔ گاؤں کے 90 سے زیادہ باشندے پیدائشی طور پر سماعت اور گویائی سے محروم ہیں۔ تقریباً 5000 گجروں کی آبادی والا یہ گاؤں شیڈول ٹرائب کے زمرے میں رجسٹرڈ ہے۔ اتنی بڑی آبادی والا یہ گاؤں 2 پنچایتوں دھڑکئی اے اور دھڑکئی بی میں تقسیم ہے۔گاؤں میں سننے اور بولنے میں دشواری کا پہلا کیس 1901 میں سامنے آیا تھا۔ اس سلسلے میں دھڑکئی بی پنچایت کے سرپنچ محمد لطیف کا کہنا ہے کہ ”کم از کم 60 خاندان ایسے ہیں جن میں 90 سے زائد افراد اس جینیاتی عارضے میں مبتلا ہیں۔ اس گاؤں کے ایک رہائشی کے سات بچے ہیں جن میں سے چھ بچے کسی بھی طرح سے بول یا سن نہیں سکتے۔“ 2014 میں انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کی ایک ٹیم نے گاؤں کا دورہ کیا اور دونوں پنچایتوں سے تقریباً 2,473 مکینوں کا معائنہ کیا۔جس میں 10 سال سے کم عمر کے 33 بچے سماعت سے محروم پائے گئے جبکہ 39 بالغ افراد سماعت اور گویائی دونوں سے محروم پائے گئے۔
اس سلسلے میں محققین کی ٹیم کی قیادت کرنے والے پرنسپل تفتیش کار ڈاکٹر سنیل کمار رینا کے مطابق ”میڈیکل سائنس میں اسے وراثت کا اثر کہا جاتا ہے۔ 1901 میں اس گاؤں میں کچھ بہرے لوگوں کی ایک چھوٹی سی آبادی آباد تھی۔ چھوٹے گروپ نے آپس میں شادیاں کیں جس کے بعد یہ جینیاتی بیماری اگلی نسل میں منتقل ہوتی رہی جو آج تک جاری ہے۔اس جسمانی معذوری کی وجہ سے بالغ افرادسے نارمل لوگوں میں شادیاں نہیں ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ان میں آپس میں ہی شادی کا عمل جاری رہتا ہے۔ ایسے میں بیماری ختم ہونے کی بجائے نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر رینا، جو ڈاکٹر آر پی گورنمنٹ میڈیکل کالج، کانگڑا میں کمیونٹی میڈیسن کے شعبہ کے سربراہ ہیں اور جنہوں نے تین سال تک دھڑکئی گاؤں میں وسیع تحقیق کی ہے، مشورہ دیتے ہیں کہ ”قبائلی افراد کو اب اپنی برادری سے باہر شادی کرنی چاہیے، تاکہ اس بیماری پر قابو پایا جاسکے۔“ اگرچہ زمینی حقیقت میں یہ بہت ممکن نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی عام خاندان ایسے گاؤں سے تعلق نہیں رکھنا چاہے گا۔محققین کی ٹیم نے پایا کہ لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں اس مرض میں مبتلا ہیں۔ ڈاکٹر رینا کا کہنا ہے کہ ”میں انہیں رنگین کوڈ والے کارڈ جاری کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ جیسے ایک عام بچے کے لیے ویکسینیشن کارڈ جاری ہوتے ہیں۔ یہ کلر کوڈڈ کارڈ ان کے جینیاتی عارضے کو 25 سے 100 فیصد کے پیمانے پر ظاہر کرنے میں مددگار ثابت ہوگا جس سے انہیں سرکاری اسکیموں کے فوائد حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔جواہر لعل نہرو سینٹر فار ایڈوانسڈ سائنٹیفک ریسرچ کے جین کے تجزیے نے اوٹفرلن کو جین کے طور پر شناخت کیا ہے۔ جو سماعت سے محروم افراد کی ایک بڑی تعداد کا ذمہ دار ہے۔ ماہرین کے مطابق گونگے بہرے بچے کی پیدائش کے 3 دن کے اندر اندر اس کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے بچے کا 3 پیرامیٹرز پر معائنہ کیا جاتا ہے۔ اگر بچہ گونگا بہرا ہے تو عام بچے کی طرح پیدائش کے فوراً بعد نہیں روئے گا، اگر وہ روتا ہے تو اونچی آواز میں روتا ہے۔ دوسرا، بچے کے سامنے سیٹی یا اونچی آواز میں بجائی جاتی ہے، اگر بچہ گونگا بہرا ہو تو اسے ذرا بھی جھٹکا نہیں لگے گا۔ تیسری اہم پہچان یہ ہے کہ وہ پیدائش کے بعد تین دن تک آنکھیں نہیں کھولتا ہے۔
دھڑکئی کے سابق سرپنچ اور اس وقت ڈی ڈی سی کے چیئرمین حنیف کا کہنا ہے کہ ”اس وقت گاؤں میں 82 سے زیادہ لوگ ہیں جو نہ بول سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں۔ 1990 میں یہ تعداد 40 تھی۔ اس وقت میں نے یہ معاملہ حکومت کے نوٹس میں لایا تھا۔جس کے بعد یہ مسئلہ اسمبلی تک اٹھایا گیا۔اس کے بعد ریاستی حکومت متحرک ہوئی اور یہاں بہت سی ٹیمیں آئیں اور کافی تحقیق کی گئی۔سائنس ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کی ٹیم 3 بار یہاں آئی اوریہاں کے لوگوں کے خون کے نمونے بھی لئے۔ ان لوگوں نے یہاں مٹی، پانی اور کئی اقسام کے نمونے اکٹھے کر کے ٹیسٹ کیے۔3 سال کے اندر جسمانی معذوری کے شکار افراد کی تعداد 72 ہو گئی تھی۔ہر سال اس میں ایک یا دو بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔یہاں کے ڈاکٹروں کے مطابق مرد اور عورت میں جینز کا مسئلہ ہے اور اس کی بڑی وجہ باہم شادیاں ہیں۔ لیکن یہ 100 فیصد درست نہیں ہے کیونکہ اس گاؤں میں کچھ شادیاں باہر بھی ہوئی ہیں لیکن وہاں پیدا ہونے والے بچے بھی گونگے بہرے ہوئے ہیں۔“ڈی ڈی سی چیئرپرسن کا کہنا ہے کہ جسمانی کمیوں کے علاوہ یہ پنچایت سماجی اور تعلیمی لحاظ سے بھی پسماندہ ہے۔ گاؤں میں تعلیم کا کوئی بہتر نظام نہیں ہے۔ کچھ بچے فوج کی مدد سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پہلے ان لوگوں کو حکومت سے 300 ماہانہ پنشن ملتی تھی، پھر 400 اور اب ایک ہزار روپے ہو گئی ہے، لیکن اتنی کم رقم سے کیسے گزارہ کریں گے؟ مقامی انتظامیہ اور لیفٹیننٹ گورنر کو یہاں کے نوجوانوں کی ہنر مندی پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ کسی بھی پنشن کے رحم و کرم سے زیادہ خود کفیل ہو سکیں۔مقامی لوگ بھی حکومت پر یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ جس سطح پر ان کی مدد کی جانی چاہیے تھی وہ نہیں کی گئی۔ اتنی آبادی والے اس گاؤں میں سننے اور بولنے والوں کی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ان بچوں کے لیے کوئی ایسا خصوصی سکول نہیں بنایا گیا جہاں ایسے بچوں کو تعلیم دی جا سکے۔ سال 2002 میں 5 کلو میٹر سڑک کی تجویز دی گئی تھی لیکن آج بھی سڑک کی تعمیر مکمل نہیں ہو سکی۔ ایسے میں جب اس علاقے میں کوئی شخص بیمار ہو جاتا ہے تو اسے اسپتال لے جانے میں کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس گاؤں کے لوگ ہی جانتے ہیں۔
 حالیہ دنوں میں، گاؤں کے لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کئی کوششیں کی گئی ہیں۔گاؤں والوں کو آگاہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ وہ جینیاتی بیماری کی وجوہات کو سمجھ سکیں اور سماجی سطح پر اسے روکنے کے لیے خود پہل کریں تاکہ مستقبل میں یہ بیماری مزید نہ پھیلے۔ انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ہندوستانی فوج بھی اس گاؤں میں کئی فلاحی کیمپ پروگرام چلا رہی ہے۔ اس کا مقصد ان وسائل کو بڑھانا ہے جن کی ان لوگوں کے پاس کمی ہے۔ ہندوستانی فوج کے علاوہ کئی غیر سرکاری تنظیمیں بھی اس گاؤں میں وقتاً فوقتاً خصوصی پروگرام چلاتی رہتی ہیں جو کہ قابل ستائش ہے۔ لیکن یہ کوشش مستقل نہیں ہے، ایسے میں مرکز سے لے کر مقامی انتظامیہ تک کو ایسی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی معذوری ان کے خود انحصار بننے میں رکاوٹ نہ بنے۔ (چرخہ فیچر)

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا