سائنس کی تعلیم-

0
0
طہ نسیم
دنیا میں چو آج ترقی اور سہولتیں نظر آرہی ہیں وہ سب سائنس کی دین ہیں۔جیسے جیسے انسانی دماغ نیچر پر غور کرکے اپنی سہولت کی چیزیں بناتا رہا زندگی آسان ہوتی چلی گئ۔سائنس کوئی نئی شے نہیں ہے۔یہ تو پہلے سے انسان کے چاروں طرف موجود تھی۔انسان نے تو اللہ کے فضل سے اسے دریافت کرنا۔مثال کے طور پر درخت صدیاں سے دریا میں گر کر بہ رہے تھے،انسان نے اتنے بھاری درخت کو پانی کی سطح پر تیرے دیکھا تو اس کے ذہن میں ناؤکی ابتدائی شکل بنانے کا خیال آیا ہوگا۔
اپنے سے زیادہ طاقتور حیوان کو مرنے کے لئے جب اس نے پتھر یا درخت کی ٹہنی اٹھائیں تبھی اسلحہ بنانے کا سوچا ہوگا۔اسنے کلہاڑی اور بھالے بنائے۔
آسمانی بجلی گرنے یا آتش فشاں کی آگ سے جنگل جلا ہوگا اور جانور اس میں جل مرے ہوں گے انسان نے انہیں کھایا تو الگ ذائقہ اور کھانا بھی نرم،اس کے بعد انسان نے کھانا بنانا سیکھا ہوگا۔یہ چند مثالی ہیں نہ جانے انسان نے ماحول اور نیچر سے کیا کیا سیکھا اور اس نے کتنی ایجادات کیں۔ دیگر مخلوقات کے برعکس اللہ نے انسان کو غور کرنے اور مختلف چیزوں کو جوڑ کر نئی چیز بنانے کی صلاحیت بخشی جسے ہم ایجاد کرناinvention کہتے ہیں۔جن قوموں نے مظاہرہ قدرت اور ماحول میں پائی جانے والی چیزوں پر غور کیا انہوں نے نئی نئی چیزیں ایجاد کیں۔انہوں نے سائنس کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی اور نئے خیالات بھی اختراع کیے اور انسان اپنی آسی صلاحیت کے بل بوتے ترقی کی راہ پر چل دیا۔زراعت،مویشی پالن،فن تعمیر ،ظروف سازی،پارچہ بافی،سواریاں،دھاتوں کا استعمال شروع ہوا۔پہلے چند جھونپڑیاں پھر گاؤں اس کے بعد شہر بسے۔
شہروں کا بسنا اسی سائنسی فکر کا نتیجہ ہے۔
ابھی تک آثار قدیمہ کی جو کھدائیا ں ہوئی ہیں مختلف تہزیباں کے باقیات سے مختلف سائنسی ایجادات کا پتہ چلا ہے۔ہڑپہ،موہن جودڑو،مصر،ہوانگ ہو،موسوپوٹامیہ،عاد،ثمود،روم اور اسلامی دور کی ترقی کارکن ہوتا ہے۔
جہاں تک اسلامی سائنسی دور کا تعلق ہے وہ آٹھویں صدی سے شروع ہوکر پندرویں صدی کے نصف اول تک ہے۔یہ وہ دور ہے کہ مسلمان ایک عظیم طاقت بنے،انہوں نے اپنا ورلڈ آرڈر چلایا۔انہوں نے دنیا کو نئی فکر اور ترقی کا شعور دیا۔بغداد،سنٹرل ایشیا،مصر،اندلس،صقیلہ،ترکی،ایران ہر طرف علم کا چرچہ،نئے افکار وایجادات کا چرچہ۔جہاں مسلمان پہنچے وہاں ترقی کی راہیں او ہوگئں،جہالت،استحصال،ضعیف الاعتقادی میں پھنسی انسانیت علم وترقی کی روشنی سے آشنا ہوئی۔مسلمانوں کے علم سے اہل مغرب نے استفادہ کیا آن کی ایجادات اور افکار کو اپنا کر اصلاح دین اور بیداری کی تحریکیں شروع کیں۔
پندرویں صدی کے بعد ہمارا بکری زوال شروع ہوا اور ہم پسماندگی اور جہالت میں مبتلا ہو گئے۔
اگر ہمیں ترقی کرنی ہے اور دوبارہ علمی معاملات میں اہم کردار ادا کرنا ہے تو دوبارہ سائنس کی طرف لوٹنا ہوگا۔اپنے بچوں کو سائنس پڑھانی ہوگی،سائنسی فکر اور فہم کے نئے دریچے کھولنے پڑھیں گے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا