محمد خالد داروگر ،
سانتاکروز ، ممبئی
دین اسلام کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بہت واضح طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے کہ قرآن وحدیث کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ اصل اور حقیقی کامیابی اخروی فوز و فلاح ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ مکمل شعور اور احساس کے ساتھ ایسے اعمالِ صالحہ انجام دے جس سے رضائے الہٰی نصیب ہو۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور اتباع ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کردہ نمونہ اخلاق کی جھلک اپنے اندر پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش دل و جان سے کرے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اسلام نے کئی ذرائع اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ خود احتسابی ، حسن عمل اور آخرت جیسے اوصاف پیدا کرنے کا ایک آزمودہ اور موثر ترین ذریعہ موت اور آخرت کے احوال و آثار کا مشاہدہ ہے۔ آخرت کی یاد سے دنیوی زندگی کی بے ثباتی کا احساس ہوتا ہے اور آخرت کی حقیقی زندگی کے لئے حسن عمل کا جذبہ اور رغبت ہوتی ہے۔ یاد آخرت کا اہم ذریعہ زیارتِ قبور ہے۔ زہد و ورع اور تذکیر کے لئے زیارتِ قبور ایک بہترین اور پسندیدہ عمل ہے۔ صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود قبور شہداء پر تشریف لے جاتے تھے اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا۔
ابتدائے اسلام میں جب لوگ تازہ تازہ کفر و شرک کے اندھیروں سے نکل کر اسلام کے دامنِ رحمت میں آئے تو چونکہ بت پرستی اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کا زمانہ قریب تھا اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابتدائی زمانہ میں کچھ عرصہ کے لیے مسلمانوں کو قبروں پر جانے سے منع فرمایا لیکن جب اسلام مسلمانوں کے دلوں میں خوب اچھی طرح راسخ اور پختہ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تشریعی اختیارات کی بناء پر حکمِ ممانعت کو منسوخ قرار دیا اور افرادِ امت کو زیارتِ قبور کا حکم دیا اور مختلف پہلوؤں سے اس کی ترغیب دلائی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ موت کو یاد دلاتی ہے۔”دوسری حدیث میں ہے کہ "میں نے تمہیں تین باتوں سے منع کیا تھا۔ ان میں سے ایک قبروں کی زیارت تھی ، لیکن اب قبروں کی زیارت کرو اور اس زیارت سے نیکیاں بڑھاؤ۔”ایک اور حدیث میں ہے کہ "بیشک میں نے تمہیں زیارت قبور سے منع کیا تھا اب جو بھی قبر کی زیارت کرنا چاہے اسے اجازت ہے کہ وہ زیارت کرے کیونکہ یہ زیارت دل کو نرم کرتی ہے ، آنکھوں سے (خشیت الہٰی میں) آنسو بہاتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔”
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا معمول مبارک تھا کہ آپ بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے ، انہیں سلام کہتے اور ان کے لیے مغفرت کی دعا فرماتے اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا درس دیتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں قیام فرما ہوتے تو (اکثر) آپ رات کے آخری حصہ میں بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے اور (اہل قبرستان سے خطاب کرکے) فرماتے:تم پر سلام ہو ، اے مومنو! جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ تمہارے پاس آگئی ہے۔ تم بہت جلد اسے حاصل کروگے اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما۔”
بڑے سے بڑا سنگدل بھی قبروں کو دیکھ کر اپنی موت کو یاد کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اسے سوچنا پڑتا ہے کہ ایک دن مجھے موت کا استقبال کرنا ہے اور مٹی میں دفن ہونا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو پاگل خانہ میں ہو۔ ان احادیث میں قبروں کی زیارت کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ ان کو دیکھنے سے موت کی یاد آتی ہے۔
ہمارے دور کے بگڑے ہوئے مسلمانوں نے زیارتِ قبور کے مقصد اور مسنون طریقے کو چھوڑ کر قبروں پر میلے ٹھیلے رچانے ، عرس کرنے اور چڑھاوے چڑھانے کا کاروبار شروع کر دیا ہے۔ قبروں میں مدفون بزرگوں اور خدا کے صالح بندوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جاتا ہے۔ ایسے مزارات پر لوگ موت کو یاد کرنے یا اللہ سے اپنی اور ان کی بخشش کے لیے دعا کرنے کی غرض سے نہیں جاتے بلکہ اپنی اغراض اور حاجات لے کر مزاروں کا چکر لگاتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے دور میں ان خرافات کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے۔
9324339306
٭٭٭